آسمان پر چھلانگیں مارنے والے دھڑام سے منہ کے بل زمین پر آپڑے ہیں۔ جوانی اور طاقت کے انجکشن لگوا کر جوان نظر آنے والے بھی اندر سے ہِل گئے ہیں۔ اقتدار کے بھوکے بھی بِلوں میں گُھس گئے ہیں اور دولت کے پجاری بھی سہم گئے ہیں۔ کرونا وائرس سے ہر شخص کو ہل ادیا ہے۔ لوگ باہر جانے سے خوفزدہ ہیں۔ ایکدوسرے کے گلے لگنے سے ڈر رہے ہیں۔ ہاتھ ملانے سے گریزاں ہیں۔ کھانستا کوئی ہے تو ڈرتا کوئی ہے۔ ہر بازار خاموش ہے ، ہر گلی سنسان ہے۔ ہر شہر ویران ہے ، ہر شخص پریشان ہے۔ خوف نے دنیا کو اپنے شکنجے میں کَس لیا ہے۔ موت اپنے پنجے گاڑ رہی ہے۔ کرونا وائرس نے ووہان سے لیکر دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کروناوائرس نے دنیا کے 157 ممالک کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی بڑی بڑی لیبارٹریاں، سائنسدان اور ڈاکٹرز کا علم چھومنتر ہو گیا ہے۔ پاکستانی ڈاکٹرز کا تو یہ حال ہے کہ جب ایک ہاسپٹل میں یہ پتہ چلا کہ یہاں کرونا وائرس کا مریض آیا ہے تو ڈاکٹروں نے وارڈ سے دوڑیں لگا دیں۔ اُن پر خوف طاری ہو گیا اور وہ ہسپتال چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پاکستانی ڈاکٹروں میں مسیحائی تو شاید ہی ہو لیکن خود غرضی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ قابلیت کا یہ عالم ہے کہ بیماری سے روک تھام کے لیے کوئی علم نہیں ہے۔ دوسری طرف جیسے ہی محکمہ صحت کی طرف سے اعلان ہوا کہ شہریوں کو ماسک پہننے چاہئیں تو ایک معمولی سا پانچ روپے کا ماسک اسی دن پچاس روپے کا ہو گیا۔ پھر ہر شہر ہر صوبے ہر علاق میں ماسک کی قیمت میں من مانے اضافے کر کے شہریوں کو لوٹا گیا۔ یہاں تک خبریں چلیں کہ ماسک کی ذخیرہ اندوزی کر لی گئی تاکہ بیماری بڑھ جائے تو یہی ماسک کئی گنا قیمتی کر کے فروخت کئے جائیں۔ڈاکٹر ظفر مرزا پر 20 ملین فیس ماسک بیرون ملک سمگل کرانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر غضنفر علی کی ملی بھگت سے ماسک سمگل کرائے۔ ایف آئی اے نے کیخلاف ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن کی شکایت پر کارروائی شروع کر دی ہے۔ انکوائری رپورٹ پندرہ دن میں تیار ہو گی لیکن قابلِ غور امر یہ ہے کہ جب لوگ زندگی موت سے گزر رہے ہوتے ہیں تو خود ہمارے اپنے لوگ چند پیسوں کی خاطر اپنا ضمیر بیچ رہے ہوتے ہیں۔ اگر ظفر مرزانے 2 کروڑماسک سمگل کئے ہیں تو وہ ان سے دس ارب کما لیں گے یا بیس ارب روپیہ کما لیں گے لیکن وہ اس پیسے کا کیا کریں گے اگر یہاں دس آدمی بھی اُن کی وجہ سے مر گئے۔ اُن کیوجہ سے دس یا بیس خاندان اُجڑ جائینگے۔ اُنکی آہیں لگیں گی۔ دُکھ ہوتا ہے کہ جب ایک زرعی ملک میں ایک معمولی سی سبزی تین چار سو روپے کلو فروخت ہو رہی ہوتی ہے۔ گندم چاول گنا کپاس مالٹا ، سیب ، انگور ، آڑو ، آلو ، گوبھی ، پیاز ، ٹماٹر جیسی اجناس پیدا کرنیوالے ملک میں گندم انتہائی مہنگی ہو ۔ چینی نایاب ہو، پھل اورسبزی سو روپے سے چھ سو روپے تک بکے۔ حالانکہ گندم ، چاول ، چینی سے لیکردیگر اجناس تک ہر چیز پاکستان میں دس روپے کلو سے مہنگی نہیں بِک سکتی لیکن خود غرض ، ریص ، مفاد پرست عناصر مال کمانے کے لیے یہ تمام اشیاء انتہائی مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ اس لالچ اور حریص پن سے سینکڑوں لوگ مر جاتے ہیں۔ بے حسی اور بے شرمی تو یہاں تک ہے کہ معمولی ادویات جو دوچار روپے کی قیمت رکھتی ہیں۔ وہ بھی چاندی کے بھائو بیچتے ہیں۔ انواع واقسام کی بیماریاں ، پریشانیاں ، ذہنی و جسمانی مسائل ، اموات کا سبب یہی خود غرضی ، طمعٰ ، لالچ اور بے حسی ہے۔ 226 دن کشمیر میں کرفیو لگا رہا۔ لوگ پیسہ پیسہ کو محتاج ہو گئے لیکن ساری دنیا بے حس و حرکت رہی۔ اب جب 157 ممالک پرکرونا وائرس کی افتاد پڑی تو دو ہفتوں میں پوری دنیا کرفیو کی لپیٹ میں آ گئی۔ گلیاں بازار محلے ، شہروں کے شہر ویران ہو گئے۔ لوگ گھروں میں محصور ہو گئے۔ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے پرپابندی لگ گئی۔ تمام تقریبات منسوخ ہو گئیں۔چین ایران اٹلی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کرونا وائرس سے ابتک چھ ہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں 52 افراد متاثر ہوئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ روک تھام نہ ہوئی تو ہلاکتوں کی تعداد بڑھے گی۔ یہ بھی علم میں آیا ہے کہ جن ممالک میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اُن ممالک کو اقوام متحدہ اور ڈونرز کمپنیاں لاکھوں کروڑوں ڈالرز امداد کی مد دینگے۔ شنید ہے کہ پاکستان میں ڈالرز وصول کرنے کے چکر میں اس بیماری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت یا کوئی ار لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کر کے یا پروپیگنڈے کے بل پر ڈالرزکمانا چاہ رہے ہیں تو خدا کے عذاب سے بچیں۔ لوگوں پر ٹیکس لگا کر نچوڑنے کے بعد انہیں بیماری کے خوف سے نہ ماریں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38