آقا کریم ﷺ سے سیف اللہ کا لقب پانے والے خالد بن ولید ؓ اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے ہیں ۔ یہ 642عیسوی اور 21ہجری ہے آپکی عمر کا آخری 58واںسال ہے ۔ ایک دوست ملنے کیلئے آتے ہیں تو حضرت خالد بن ولیدؓ اپنی ٹانگ ننگی کر کے دکھاتے ہیں کہ کہیں کوئی ایسی جگہ ہے جہاںتیر یا تلوار کا نشان نہ ہوپھر دوسری ٹانگ اور پھر اپنا پور ا جسم دکھاتے ہیں پورے جسم پر تیر تلوار اور نیزوں کے نشان تھے پھر فرماتے ہیں میں نے کتنی جنگیں لڑی ہیں مگر مجھے شہادت نصیب نہیں ہوئی ۔ آپکے دوست عرض کرتے ہیں کہ" آپکو اللہ کے رسول ﷺ نے سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کہا ہے اگر آپ شہید ہو جاتے تو کافروں نے کہنا تھا کہ اسلام کی تلوار ٹوٹ گئی ہیـ" پھر حضرت خالد ؓبن ولیدنے فرمایا "بزدلوں کو میرا ایک پیغام دے دو اگر موت میدانِ جنگ میں ہوتی تو آج خالد بسترِ مرگ پر نہ مرتا "۔ چنانچہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اگر زندگی ہو تو نہ دشمن کی تلوار مار سکتی ہے نہ "کرونا وائرس"۔ کرونا دراصل عذابِ الٰہی ہے ۔ یہ اللہ کا نظام ہے کبھی اپنے گھر کی حفاظت کیلئے ابا بیلوں سے کام لیتا ہے اور کبھی جب دنیا میں ظلم انتہا کو پہنچ جائے کبھی شامی بچے مارے جائیں کبھی فلسطین، میانمار ، یمن سے لیکر بالآخر ہندوستان کی طرف سے90ہزار کشمیریوں کو قید کیا جائے ۔ دہلی میں مساجد کو جلا دیا جائے ، مسلمانوں کے چھوٹے بچوں کو گھروں میں جلا دیا جائے ، سری نگر سے لیکر دہلی کی سڑکوں تک مسلمانوں کا خونِ ناحق بے دردی سے بہایا جائے اور دنیا کے منصف اور عالمِ اسلام خاموش تماشائی بنا رہے تو پھر اللہ کا عذاب آتا ہے اور ماڈرن ورلڈ جہاں پر مسلمان بیٹیوں کے چہروں سے زبردستی نقاب کھینچے جاتے تھے آج سب نقاب پہن کر پھِر رہے ہیں ۔ مودی کے ساتھ کشمیریوں کے خلاف سازش کا حصہ بن کر انہیں قید کرنے والے آج خود گھروں میں قید ہو گئے ہیں ۔عالمِ اسلام ہوش کے ناخن لے پچھلے گناہوں اور غلطیوں سے توبہ کرکے ایک ہو جائیں اسی میں عافیت ہے اورعالمِ اسلام ناحق خونِ مسلم بہانے والوں سے تعلقات پر نظرِ ثانی کریں ۔ آپس کے اختلافات ختم کریں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ۔ جہاں معاف کرنے سے خوشگوار اچھا ئی کا امکان ہو وہاں بدلہ لینا ظلم ہے ۔ اپنے دل کو ہرے بھرے درخت کی مانند رکھو ۔ سکون، امن اور پیار کے پرندے خود ہی اس پر آبیٹھیں گے ۔ پاکستان پر اللہ کا خاص کرم ہے دشمن کی ہر سازش ناکام ہوئی ہے۔ اب ہمارے اوپر ففتھ جنریشن وار کی صورت میں ایک بہت بڑی یلغار ہوئی ہے ایک سازش کے تحت اسلام کا تشخص پامال کرنے کی سازشیں جنم لے چکی ہیں اور عالمی کافرانہ نظام کے مسلمان ایجنٹ اس کے آلہ کار ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال "عورت مارچ" اور اس کا غیر مہذب نعرہ ــ"ہماراجسم ہماری مرضی " ہے جو اسلامی معاشرے کے اندر خود عورت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے ۔ کاش اس مارچ کرنے والوں کو علم ہوتا کہ عورت کی شان کیا ہے ۔بیٹی کے روپ میں ایک بیٹی کی شادی کروجنت کے حقدار بن جائو۔ بہن کا حق کھانا اسلام نے حرام قرار دیا ۔ اللہ کریم نے جناب آدم علیہ السّلام کو مٹی اور جنت کی حور کو مشک اور زعفران سے پیدا فرمایا اور اُس کی شان یہ ہے کہ سورج کو اُنگلی دکھا دے تو سورج کی روشنی ماند پڑ جائے ، مُردوں سے بات کرے تو مُردے زندہ ہو جائیں زندوںکو جھلک دکھادے تو کلیجے پھٹ جائیںہوا میں اپنا دوپٹہ لہرائے تو ساری کائنات میں خوشبو پھیل جائے لیکن اگر مٹی سے بنی ہوئی عورت تقویٰ اختیار کرے گی تو اس جنت کی عورت سے 70ہزار گنا زیادہ خوبصورت ہوگی ۔ اللہ نے عورتوں کے حقوق رکھے ہیں ۔ اسلام نے عورت کو عزت بخشی ہے مغرب نے تو عورت کو عزت نہیں دی۔ دراصل نہ یہ جسم میرا نہ مرضی میری۔ حُکم اسی کا چلے گا جو جسم دینے والا ہے اور لینے والا بھی ہے ۔ اگر نہیں مانتے تو ذرا کفن سے منہ نکال کر کہنا "میرا جسم میری مرضی " میں حکومتِ وقت اور خاص طور پر وزیرِ اعظم صاحب سے کہنا چاہتا ہوں کہ ریاستِ مدینہ بنانے کیلئے ان خرافات کا قلع قمع کرنا ہوگا اور NGOsکا سہارا لیکر جو ہمارے اوپر حملے ہو رہے ہیں یہ میری قوم کو برباد کر دیں گے۔ کرونا اللہ کا عذاب ہے اور وجہ عذاب میں ایک جرم اسلامی مملکت پاکستان میں عورت مارچ ہے اس پر ہر صورت ایک JITبننی چاہیے ذمہ داروں کا تعین کریں اور اس کے پسِ پردہ جو لوگ ہیں انھیں بھی بے نقاب کر کے قرار واقعی سزا دیں ورنہ یہ ناسور ہمارے اسلامی تشخص کو پامال کر دے گااور ہم کہنے پر مجبور ہوں گے کہ :۔
مُقامِ نقطہ کچھ یُوں بدلا
نِکھر رہے تھے بِکھر گئے
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024