سوشل میڈیا کے دنیا کو اپنی لائن پر چلانے کے مظاہر سامنے آنے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا کا پہلا حملہ کارگر ثابت ہوا، اس بعد دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔ بہت کچھ ہو گا جو سب کچھ تبدیل کر کے رکھ دیگا، ابھی تو اس میڈیا کے پیچھے پائلٹس نے دنیا کو ہلا کے ہی رکھا ہے اور ان کی طرف سے ایک ٹیسٹ کیس تھا جو مکمل طور پر کامیاب ہوا ہے اور یہ کرونا کی صورت میں ہے۔ کرونا وائرس نے یوں لگتا ہے پوری دنیا کو پوری طرح جکڑ لیا ہے۔ عالمی کھلاڑی کروناوائرس سے بچائو کے طریقوں میں بتا رہے ہیں کہ یہ ایک سے دوسرے شخص کو سانس کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ یہ ایک مریض سے دوسرے شخص کو اس کے ہاتھ کے ذریعے ٹرانسفر ہوتا ہے۔ ہاتھ سے یہ دس منٹ میں خودبخود ختم ہو جاتا ہے۔ ان دس منٹ میں اگر صحت مند شخص وائرس والا ہاتھ منہ ناک یا آنکھ کو لگا لے تو وائرس جسم میں منتقل ہو جاتا ہے ، جہاں بھی اس کے لیے دو راستے ہیں۔ اگر یہ پیٹ میں چلا جائے تو یہیں ختم ہو جاتا ہے اور اگر گردوں میں چلا جائے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں اور پھر اس سے پہلے سے بیمار لوگ زیادہ متاثرہوتے ہیں یا ایسے لوگ جو عمر کے اس حصے میں ہوں کہ قوت مدافعت سے جو عاری اور تقریباً محروم ہو چکے ہوتے ہیں ۔ جوان لوگوں کی جان کو زکام سے زیادہ کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اب تک پانچ ہزار لوگ پوری دنیا میں کرونا وائرس سے ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں جو صحت مند تھا اور کرونا کا شکار ہو کر ہلاک ہو گیا ہو۔ تمام کے تمام کرونا وائرس سے مرنے والے پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا تھے یا اتنے بوڑھے تھے کہ ان کی قوت مدافعت جواب دے چکی تھی۔ پاکستان میں اب تک 34 مریض سامنے آئے ہیں اور ایک بھی ابھی تک ہلاکت نہیں ہوئی۔ کرونا کے مریض سے دوسرے لوگوں کے متاثر ہونے کا امکان انتہائی کم ہے مگر پوری دنیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ہیجان برپا کر دیا گیا۔ جس سے ریگولر میڈیا بھی بھیڑ چال کا شکار ہوا اور حکومتوں تک نے اس کا بدترین اثر قبول کرنے آدھی دنیا سے بھی زیادہ ممالک میں افراتفری مچا دی۔ مغرب میں تو پینک کی انتہا ہو گئی۔ پڑھے لکھے لوگ راشن سٹور کرنے لگے ، سپرسٹورز پر خریداروں کی لمبی قطاریں لگی ہیں۔کیا آپ دو سال کی خریداری کر لیں گے۔ مجھے تو مغربی ممالک میں اس افراتفری کے بطن سے قحط برپا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ مجھے بھی بدترین صورت حال سے دوچار ہونے کا خدشہ محسوس ہوا حالانکہ مجھے یقین ہے کہ کرونا وائرس کی اتنی شدت نہیں جتنا شور مچایا جا رہا ہے واویلا کیا جا رہا ہے۔ پوری دنیامیں اب تک پانچ ہزار ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ زکام کے باعث دنیامیں ہر روز دس ہزار لوگ مر جاتے ہیں۔ کرونا کے باعث ابھی تک صرف روزانہ تین کے حساب سے لوگ مرے ہیں یہ انتہائی انتہائی کم شرح ہے جس سے خوف کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ہم مسلمان ہیں، ہمارا اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین ہے مگر سوشل میڈیا سے ہم بھی متاثر ہو کر اس کے پراپیگنڈے کی زد میں آنے سے بھی بڑھ کر اس کا حصہ بن گئے ہیں۔ پاکستان جیسے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے ملک میں بھی کرونا کو چھلاوہ بنا کر پیش کیا گیا تو مغرب جیسی افراتفری پاکستان میں موجود نہیں لیکن خوف کی فضا پیدا ضرور کی جا رہی ہے۔ تعلیمی ادارے ، شادی ہال، سنیما، پارکیں سیرگاہیں بند کر دی گئی ہیں۔ مذہبی اجتماعات سے گریز کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ جمعہ کے اجتماعات سے گریز کی تجاویز دی جا رہی ہیں۔ معاملہ باجماعت نماز سے گریز کی طرف تو نہیں جا رہا، اسلامی تاریخ میں باجماعت نماز کی کسی بھی شکل میں ادائیگی کا حکم دیا گیا۔جس طرح سے ادارے بند ہو رہے ہیں اس سے بیروزگاری کا سیلاب امڈتا نظر آرہا ہے۔سرکاری ملازمین کی تو کسی حدتک زندگی کم اجیرن ہوگی مگر نجی شعبوں کے ملازمین اور عام مزدور کی زندگی بدترین عذاب کے بھنور میں ہچکولے کھاتی پھرے گی۔جب آمدن زیرو اور اخراجات اُتنے ہی رہیں گے تو اندازہ لگا لیں کیا حالت ہوگی۔ترقی یافتہ ممالک میں سے کئی نے بجلی گیس اور ٹرانسپورٹ فری کردی ہے۔آپ کس طرح اپنے لوگون کو ریلیف دے سکتے ہیں،یہ حکومت کے سوچنے کی بات ہے۔ سوشل میڈیا کا اقوام عالم کی رائے کو گمراہ کرنے کا پہلا والا کاری ثابت ہوا۔ اس کے کھلاڑی اپنی پہلی کاوش میں کامیاب ٹھہرے، کسی ملک نے بھی اس مہم جوئی کا پس منظر جاننے کی کوشش نہیں کی مکھی پر مکھی ماری اور معمولی بیماری کو ہوّا بنا کر مستقبل میں اپنی تقدیر سوشل میڈیا کے کھلاڑیوں کے ہاتھ میں دیدی۔ اب بھی وقت ہے دنیا اس سازش کو سمجھے اور اپنے معمولات کو پہلے کی طرح اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے جاری رکھے۔ اسی طریقے سے مستقبل میں ان کھلاڑیوں کی دنیا کو تلپٹ کر دینے والی سازشوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38