یہ ملاقات اس اعتبار سے ادھوری تھی کہ چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر طارق بنوری سے میرے سمیت کئی صحافی پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے بحران کے بارے میں کئی سوالات پوچھنا چاہتے تھے وقت کی کمی کے باعث کئی سوالات نہ پوچھے جاسکے ۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین نے خود ہی ان مسائل کا تذکرہ کر دیا جو عموماً عام شہریوں‘ اساتذہ اور تعلیم کے شعبہ کے مسائل سے آگاہ لوگوں کے ذہنوں میں ہیں۔ چیئرمین ایچ ای سی نے بتایا کہ پاکستان میں 195 یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں لیکن ان میں سے کوئی یونیورسٹی بھی عالمی رینکنگ میں کہیں بھی نہیں آتی۔ ان یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے اساتذہ یعنی فیکلٹی کے ارکان کی تدریسی صلاحیت اور قابلیت سے متعلق خود ایچ ای سی کے چیئرمین نے کہہ دیا کہ ضروری نہیں کہ اگر کوئی پڑھانے والا پی ایچ ڈی ہے تو وہ ایک اعلیٰ پائے کا استاد ہوگا۔ ایسے اساتذہ جنہوں نے کئی نسلوں کو متاثر کیا اور انتہائی قابل شاگرد پیدا کئے ان میں پڑھانے کی نہ صرف خداداد صلاحیت تھی بلکہ انہیں طلبہ کو کیا پڑھایا جائے اور کس طرح طلبہ تک ابلاغ کیا جانا چاہیے یہ فن آتا تھا۔ چیئرمین ہائیر ایجوکیشن اپنے دفتر میں صحافیوں کے ایک گروپ سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کررہے تھے کہ یونیورسٹیوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھانے والوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو کس طرح موثر طور پر پڑھا سکتے ہیں جو انہوں نے سیکھاہے وہ اسے کس طرح اپنے طلبہ وطالبات تک منتقلی کرسکتے ہیں۔
جب معیار تعلیم کا ذکرچل رہا تھا تو اعلی تعلیمی اداروں سے جاری ہونے والی جعلی ڈگریوں پر بھی بات چیت ہوئی۔ پی ایچ ڈی کی سطح پر جن مقالوںTHESISES پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی جاتی ہے ان میں چوری شدہ مواد کے استعمال پر بھی بات ہوئی ۔ فکری مواد کی اس چوری PALLAGERISM کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔ اس پر صحافیوں اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری سے تفصیلی تبادلہ خیال نہ ہو سکا ۔ پاکستان میں بعض نامور دانشوروں پر جن کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ہیں دوسروں کی تحقیق سے مواد چوری کرنے یعنی PALLAGERISM کا الزام ہے۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ نے پاکستان میں دی جانے والی تعیلم کی RELEVANCE پر بھی بات کی لیکن اس اہم موضوع پر بھی تفصیلی بات چیت نہیں ہوسکی۔ سب سے اہم بات جو ایچ ای سی کے سربراہ نے کی وہ اعلی تعلیم کے اداروں بعض یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت کے بارے میں تھی۔ انہوں نے سیاسی مداخلت کو تعلیمی معیار کی پستی کا ایک سبب قرار دیا۔ یہ سیاسی مداخلت وائس چانسلروں سے لے کر یونیورسٹی میں پڑھانے والے فیکلٹی کے ارکان کی تقرریوں تک ہورہی ہے۔ چیئرمین کی رائے تھی دنیا بھر میں یونیورسٹیاں خود مختار ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ معیار تعلیم اور تحقیق کو بہتر بنانے کے لیے فیصلے کرتی ہیں۔ پاکستان میں تو پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں میں وائس چانسلروں کی تقرری ایک سیکنڈل کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ان تقرریوں میں پاکستان کی اعلی عدالتیں فیصلے بھی سنا چکی ہیں۔ تحقیق کے میدان میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے پی ایچ ڈی کرنے والوں کے کتنے مقالے بین الاقوامی طورپر مسلمہ معیاری جریدوں میں شائع ہوتے ہیں۔ تحقیقی مقالے لکھنا بھی بڑی ریاضت اور ہنر مندی کا کام ہے۔ نجی یونیورسٹیوں میں تعلیم کا معیار کیا ہے ان یونیورسٹیوں میں پڑھانے والوں یعنی فیکلٹی کے ارکان کی قابلیت اور صلاحیت کس معیار کی ہے۔ اس بارے میں چیئرمین اعلیٰ تعلیمی کمیشن سے بات کرنے کی خواہش تھی لیکن وقت کی کمی کے باعث اس اہم ایشو پر بھی کھل کر بات نہیں ہوسکی۔ جعلی ڈگریوں کے اجرا اور ان کی روک تھام کے لیے ممکنہ طورپر کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ اس موضوع پر بھی بات چیت تشنہ ہی رہی۔ ڈاکٹر بنوری نے ملاقات کے لیے مدعو کئے جانے والے صحافیوں کو لنچ بھی کرانا تھا۔ انہوں نے لنچ پر بھی یقیناً گفتگو کی ہوگی لیکن میں اس لنچ میں شریک نہیں ہوسکا۔ اگلے روز اخبارات میں چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی گفتگو کی جو خبریں شائع ہوئیں ان میں یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت کے معاملے کو زیادہ ہائی لائٹ کیا گیا جس کا وزیراعظم نے نوٹس لیا اور چیئرمین سے فون پر گفتگو کرکے انہیں یقین دہانی کرائی کہ آئندہ یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت نہیں ہوگی۔ چیئرمین نے یقیناً وزیراعظم کو یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی شمولیت کا معاملہ اٹھایا ہوگا اور تقرریوں تبادلوں اور اعلی درسگاہوں کو فنڈز کی قلت کا ایشو وزیراعظم کے نوٹس میں ضرور لائے ہوں گے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024