معرکہ اُحد میں حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی تلوار بے نیام کرکے اپنے جاں فروشوں سے سوال کیا تھا کہ اس تلوار کے حق کی پاسداری کون کرے گا تو دیگر صحابہ کرام کے ساتھ حضرت زبیربن عوام نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا تھا ،لیکن حضور نے وہ تلوار حضرت ابو دجانہ کو عطاء فرمادی تھی۔ حضرت زبیر فرماتے ہیں مجھے اس سعادت سے محروم رہ جانے پر بڑا قلق ہوا، میںنے کہا، میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ (رضی اللہ عنہا)کا بیٹا ہوں۔مجھے تو یہ تلوار عنایت نہیں ہوئی اورابودجانہ کو مل گئی۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ اس جنگ میں کون سے کارنامے انجام دیتے ہیں۔ میںنے دیکھا کہ ابو دجانہ نے اپنا سرخ رنگ کا ڈوپٹہ سرپر باندھا اورتلوار کو لہراتے ہوئے میدان کا رزار میں داخل ہوگئے۔ ان کی زبان پر یہ رجز تھے۔ انا الذی عاھد نی خلیلی،ونحن بالسفح لدیالنخیل،الا اقوم الدھر فی الکیول ،اضرب بسیف اللہ والرسول’’میں وہ ہوں جس کے ساتھ میرے خلیل نے اس وقت یہ معاہدہ کیا جب ہم کجھوروں کے پاس دامن کوہ میں تھے ،کہ میں زندگی میں کبھی پچھلی صف میں قیام نہیں کروں گا۔ (بلکہ آگے بڑھ کر)اللہ اوراس کے رسول کی تلوار سے وار کرتا رہوں گا ۔ ‘ ‘
یہ کہہ کر وہ گھمسان میں داخل ہوگئے۔ جد ھر کا رخ کرتے کشتوں کے پشتے لگاتے چلے جاتے ،جو بھی سامنے آتا اسے ڈھیر کردیتے ،میںنے دیکھا کہ صفِ دشمنان سے ایک کافر پیشِ قدمی کررہا ہے اس کے سامنے جو مسلمان آتا وہ اس کا کام تمام کردیتا ،یہاں سے ابودجانہ آگے بڑھ رہے تھے اور دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوتے جارہے تھے ،میں اپنے دل میںدعاء کررہا تھاکہ ان دونوں کی مڈبھیڑ ہو اورپھر میں ابودجانہ کی شجاعت کے جوہر دیکھوں ، سوچند لمحوں کے بعد ہی وہ ایک دوسرے کے مقابل آگئے اورچھپٹ چھپٹ کرے ایک دوسرے پروار کرنے لگے، اس مشرک نے خوب تاک کر ایک بھر پو ر وار ابودجانہ پر کیا، لیکن آپ نے اپنی سپر پر روک لیا،پھر اس شیر نے اپنی شمشیر جو ہردار لہرائی اوربجلی کی تیزی سے اس پرحملہ آور ہوئے اوراس کو دولخت کرکے رکھ دیا ،کچھ دیر بعد میںنے دیکھا کہ ابوسفیان کی زوجہ ہند جس نے اپنی اشتعال انگیزیوں سے ایک قیامت بپا کی ہوئی تھی،اچانک ابودجانہ کی تلوار کی زدمیں آگئی ،لیکن آپ نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔
جب حضرت ابودجانہ سے میری ملاقات ہوئی تومیںنے ان سے کہا آپ کے دوسرے جنگی کارنامے تو مجھے بہت پسند آئے ،لیکن ہند کو قابو کرنے بعد چھوڑ کر آپ نے اچھا نہیں کیا، مجھے اس کی وجہ سمجھ نہیں آئی،آپ نے جواب دیا:۔’’مجھے یہ بات پسند نہیں آئی کہ میں حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار سے ایک عورت کو قتل کردوں اورعورت بھی وہ جس کا اس وقت کوئی یارومددگار نہیں تھا۔‘‘
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024