اتوار ‘ 9؍ رجب المرجب ‘ 1440ھ‘ 17؍ مارچ 2019ء
کارکن 23 مارچ کو جیل کے باہر جمع نہ ہوں۔ نواز شریف
یہ اچھا فیصلہ ہے۔ یوم پاکستان پر کسی ایسے اجتماع کی ضرورت نہیں جو اس دن کے حوالے سے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی وجہ بنے۔ اس وقت میاں جی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں۔ عارضہ قلب کے سبب وہ علیل ہیں۔ حکومت کی طرف سے انہیں جس عطار کے دوا خانے سے دوا دارو فراہم کرنے کا بندوبست ہوتا ہے میاں جی کو اس پر اعتماد نہیں۔ انہیں گلہ ہے کہ روزانہ حکومت عطار کی دکان بدلتی رہتی ہے۔ اب وہ آئے روز خانہ بدوشوں کی طرح کبھی یہاں کبھی وہاں آنے جانے سے رہے۔ اس لیے انہوں نے مناسب یہی سمجھا ہے کہ وہ جیل ہی راضی برضا رہیں۔ عوام سے انہوں نے کہا ہے کہ وہ جیل کے باہر جمع ہونے کی کوشش نہ کریں۔ ویسے بھی باہر شورو غل ہو گا تو اس کا جیل میں ان پر بھی برا اثر ہو گا۔ شور و غل ان کے لیے اچھا نہیں۔ ویسے سچ کہیں تو میاں جی بھی بخوبی جانتے ہیں کہ مسلم لیگ کے پاس وہ کارکن ہیں ہی نہیں جو جی کڑا کر کے گرم دوپہر کا مزہ لے سکیں۔ مسلم لیگ میں سب ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھ کر کھانے والے اے سی برانڈ کے لیڈر ہیں۔ سب کو چھوڑیں لاہور کی کچھ نہیں تو ایک کروڑ آبادی میں سے ایک لاکھ نہ سہی 10 ہزار ہی جمع ہو جائیں تو بلے بلے ہو جائے۔ مگر وہ سارے ساجھے، ماجھے، گامے، پہلوان، چودھری، خواجے نیب سے جان بچانے کے چکر میں اندرون خانہ چپ رہ کر چمڑی بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تاکہ ان کے اندرون خانہ دو نمبر کاروبار چلتے رہیں۔ اگر 23 مارچ کو میاں جی منع نہ کرتے تو کوٹ لکھپت کے باہر …؎
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے
والے بورڈ لگانے پڑتے تو شاید کوئی بھولا بھٹکا کارکن آ ہی جاتا۔
٭٭٭٭٭
میوزک فیلڈ میں اس لیے آیا کہ سیاست میں حصہ لے سکوں۔ جواد احمد
جواد صاحب کا نکتہ نظر اچھا ہے۔ انہیں اس طرح سوچنے کا حق ہے مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ریکارڈ بھی انہیں سامنے رکھنا ہو گا۔ ہماری سیاسی تاریخ میں کوئی سُریلا سیاست کے میدان میں کامیاب نہیں ہوا۔ نہ ہی کوئی خوبرو فنکار یا فنکارہ اس میدان میں جھنڈے گاڑ سکی۔ اگر عوام فنکاروں اور گلوکاروں کے اتنے اتنی ہی شیدائی ہوتے جتنے ان کی فلموں کے ہیں اور انہیں کار سیاست چلانے کا ماہر سمجھتے تو آج کم از کم مسرت شاہین خیبر پی کے سے اور ابرار الحق سیالکوٹ سے ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کر سکتے تھے۔ مگر اچھے خاصے ووٹ حاصل کرنے کے باوجود انہیں کامیابی نہیں ملی۔ اب اگر وزیراعظم عمران خان کو دیکھ کر کسی کے دل میں آگے بڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ خاں صاحب نے بھی کامل 20 برس اس کوچہ سیاست کی خاک چھانی ہے۔ تب کہیں جا کرگوہر مقصود حاصل کر پائے۔ اس پر بھی مخالفین کسی ایمپائر کی انگلی کوزیادہ قصور وار قرار دیتے ہیں۔ بہرحال ہمارے فنکار اور گلوکار اگر فنی خدمات کے ساتھ سیاست کی بجائے خدمت خلق پر ہی توجہ دیں تو اس میں زیادہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ابرارالحق بھی ہسپتال چلا رہے ہیں۔ اب جواد جی بھی کوئی یتیم خانہ، سکول یا ہسپتال بنا کر نام بھی کمائیں اور ثواب بھی۔ ورنہ سیاست میں کیا رکھا ہے سوائے بدنامی کے۔ کیونکہ …؎
’’یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں‘‘
اگر دم خم ہے تو لگے رہیں۔ کیا پتہ عوام کو اپنے دن بدلنے کا خیال آ ہی جائے اور ملک میں برابری کی فضا قائم ہو جائے اور آپ کی پارٹی کو کامیابی نصیب ہو۔
٭٭٭٭٭
پی ایس ایل کا سنسنی خیز فائنل آج کوئٹہ گلیڈیٹرز اور پشاور زلمی کے درمیان ہو گا
پی ایس ایل کے کراچی میں دل موہ لینے والے خوبصورت مقابلے اختتام کو پہنچ گئے۔ آخری مقابلہ جو ٹرافی جیتنے کے لیے ہے آج ہو گا ، اس سنسنی خیز مقابلے میں تیسری مرتبہ پشاور زلمی کے کھلاڑی مخالف فریق پر غضب ڈھانے ان کے ہوش اڑانے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ دوسری طرف کوئٹہ گلیڈیٹرز کے کھلاڑی بھی حریف کو ناکوں چنے چبوانے کی پوری صلاحیت کے ساتھ مدمقابل ہوں گے۔ کرکٹ کے شائقین کو طویل عرصہ تک یاد رہنے والا مقابلہ دیکھنے کوملے گا۔ اس بار دونوں ٹیموں نے جان توڑ محنت کے ساتھ مقدر بھی آزمانا ہے کیونکہ جوڑ برابر کا ہے۔ دونوں طرف دیوانہ وار مقابلے کی خواہش ہے۔ سرفراز اورسیمی میں سے کس کے سر سجتا ہے فتح کا تاج اور کون لے جاتا ہے، پی ایس ایل ٹرافی۔ اس کا فیصلہ آج رات کے ہونے والے مقابلے میں ہو جائے گا۔ تو ہو جائیے تیار ان پُرجوش لمحات کے ساتھ اپنی ٹیموں کا جوش بڑھانے کے لیے اور دیکھئے کراچی کے میدان میں لوگ کس طرح عالمی مقابلوں کے لیے پاکستان کے گرائونڈ دوبارہ کھولنے کے لیے پُرجوش انداز میں دنیا کو دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
زیادہ مایوسی کی بات روزانہ ہیلی کاپٹر پر چکر لگانا اور پارلیمان میں کم حاضری ہے: بختاور زرداری
ذہانت و فطانت میں بھٹو خانوادے کو ملکی سیاست میںمنفرد مقام حاصل ہے۔ بڑے بڑے سیاستدان ان کے بچوں سے بھی بچ کر نکلتے ہیں، وزیراعظم عمران خان گزشتہ روزارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں کا ذکر کرتے ہوئے مایوسی کا لفظ کہہ بیٹھے، بس اللہ دے اور بندہ لے، وہ بے نظیر کی ہونہار بیٹی سے بچ کر کیسے نکل سکتے تھے۔ بلاول زرداری کی ہمشیرہ بختاور زرداری نے فوراً گرفت کی، بلکہ آئینہ دکھایا کہ جناب! مایوسی کی بات پنجاب کے قانون سازوں کی تنخواہوں میں مراعات میںاضافہ نہیں، بلکہ روزانہ ہیلی کاپٹر پرچکر لگانا اور پارلیمنٹ میں کم آنا ہے۔ پھر بیرونی دورے ہیں اگر کوئی اور شعبہ ہوتا تو ہم جواب میں عمر کی رعایت سے ’’حد ادب‘‘ کی تلقین کرتے لیکن سیاست کی کلاس میں سب ہم جماعت اور اس لحاظ سے ہم سبق بھی ہیں۔ دیکھتے ہیں دوسری طرف سے کیا جواب آتا ہے۔ البتہ سناٹا نہیں خوب رونق لگی ہوئی ہے۔ کلام میں اگر تلخی نہ ہو تو مخاطب بھی محظوظ ہوتا ہے۔ فی الحال تو لگتا ہے خاں صاحب نے انہیں اپنے بچوں جیسا سمجھ کر جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ یوں بات آئی گئی ہو گئی۔ ورنہ پی ٹی آئی کے روایتی بھونپو اگر بجنے لگتے تو بختاور بی بی کو بھی کانوں میں روئی ٹھونسنا پڑتی…
٭٭٭٭٭