گزشتہ روز نیوزی لینڈکے مشہور شہرکرائسٹ چرچ میں دو مساجد پربیک وقت جمعے کی نماز کے دوران ایک شخص نے بہیمانہ اندازمیںرائفل سے فائرنگ کرکے 50 مسلمانوں کو شہید کردیا۔ دنیاکی تاریخ میںایسے سفاکانہ قتل عام کی مثال مشکل ہی سے نظر آئیگی۔ اس اندوہناک واقعہ کو نائن الیون سے تعبیرکرناچاہیے جہاںنہتے و لاچارلوگوں کوبے رحمانہ طور پر قتل کردیاگیا۔ لیکن جیسا کہ ہم ذکرکرینگے، اس کووہ اہمیت اور توجہ حاصل نہیںہوسکی جو غیرمسلموںکیساتھ ایسا واقع پیش آنے پر دی جاتی ہے۔ہمیںاس واقع کی تفصیلات سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ہم یہاں نسبتاً تفصیل سے یہ بات رکھنا چاہتے ہیںکہ مغرب اور مشرق میں تقابل، تناظر، معیار، کسوٹی اور بنیادی قدر کی خلیج شائد ناقابل عبور ہوتی جارہی ہے۔ حیرت انگیز طور پر مغربی میڈیا اس سارے واقعے کو تشدد کا رنگ دے رہاہے۔ حملہ آوروںسے متعلق ساری معلومات بہت دیرتک خفیہ رکھی گئیں۔ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم نے اپنے ابتدائی اظہار خیال میں اس کو انتہاپسندانہ تشدد کی کارروائی قرار دیتے ہوئے اسکی مذمت کی لیکن اس کو ’’دہشتگردی‘‘ کی واردات قرار دینے سے احتراز کیا۔ (بعدازاں ایک دوسرے موقع پر انہوں نے اس کو دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا)۔
اس واقعہ کا دنیاکے میڈیا پراثر یوں لگتاہے کہ لفظ ’’دہشتگردی‘‘ ڈکشنری سے نکال دیا گیا ہے۔ سارے میڈیاکو باضابطہ ہدایت دی گئی کہ یہ لفظ استعمال نہیں ہوگا۔ کیونکہ "دہشت گردی کا نشانہ بننے والے نہ مغربی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی "دہشتگرد" مسلمان ہے۔ مغربی دنیا کا ورکنگ مفروضہ یہ ہے کہ "دہشتگردی" صرف مسلمانوں کا کام ہے۔ غیرمسلم جس کا تعلق مغرب سے ہے، وہ کبھی کبھار اعصاب کے دباؤ یا نفسیاتی بیماری کی وجہ سے تشدد کی طرف مائل ہوجاتا ہے لہذا اسے سزا دینے سے پہلے ان حالات اور عوامل کا جائزہ لیا جانا چاہیے جنہوں نے اسے تشدد پر مجبور کردیا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ درحقیقت ہمدردی کا مستحق اور اعلاج کا امیدوار ہو۔ اس صورتحال کا جائزہ لیے بغیر اس سے سرزد ہونیوالے گناہوں کا بوجھ اس پر ڈالنا انصاف کی بات نہیں ہے۔
مغرب کے تجزیہ نگار جارحانہ انداز میں مسلمان ’’دہشتگردوں‘‘ کا محاسبہ کرتے تھے اور اس کام میں نہ صرف انکی زبان نہیں تھکتی تھی بلکہ ان کے منہ سے غصے اور نفرت کا جھاگ نکل رہا ہوتا تھا۔ یہ کسی اس طرح کے احتمال کو قابل قبول نہیں سمجھتے تھے کہ مسلمان بھی اعصابی یا نفسیاتی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے اور کسی ہمدردی کا مستحق ہوتا۔ ان موقعوں پر تو یہ حضرات آگ بگولہ ہوکر منہ نوچنے کو دوڑتے ہیں کہ کسی کی یہ مجال کیسے ہوئی کہ وہ ’’دہشتگردی‘‘ کا کوئی جواز ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرے۔ ایسا کرنا انکی نظر میں ’’دہشتگردی‘‘ کو قانونی جواز فراہم کرنے کے مترادف ہے اور اگر یہ بات چل نکلے تو ’’دہشتگردوں‘‘ کیلئے ہمدردیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
بعدازاں حملہ آور کی شناخت سامنے آگئی ہے۔ یہ ایک آسٹریلین ہے جس کا نام بریننٹن ٹیرنٹ ہے۔ وہ ایک نسل پرست سفید فام ہے جو سفید فام لوگوں کی برتری پر یقین رکھتا ہے اور اسکی مسلمان دشمنی خصوصاً اور رنگدار لوگوں سے عموماً اس منشور سے عیاں ہے جو اس نے خود تصنیف کیا ہے۔ 73 صفحات پر پھیلے اس منشور کا عنوان اس نے ’’عظیم تبدیلی‘‘ Great Replacement رکھا ہے جس میں وہ مسلمانوں پر حملے کرنے کا پروگرام رکھتا ہے۔ اس منشور کی بنیاد وہی سازشی نظریات ہیں جن کا پرچار فرانس میں انتہا پسند لیڈر میرین لی پین کرتی رہی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یورپ میں سفید فام لوگوں کی آبادی کم ہورہی ہے خود ان میں کم بچوں کو پیدا کرنے کے رجحان کی وجہ سے اور امیگریشن کرکے آنے والوں مسلمانوں کی وجہ سے۔ اس کا کہنا تھا وہ انتہا پسندی کیطرف یوں مائل ہوا کہ فرانس میں لی پین کو شکست ہوگئی اور سٹاک ہوم میں ایک ٹرک سوار نے 11 سالہ بچے کو کچل کر ہلاک کردیا۔ اس کا یہ بھی دعوی ہے کہ وہ امریکی نیوی کا سیل (SEAL) رہا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہم اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں جو ایک دائیں بازو کے انتہا پسند، تشدد پسند دہشت گرد نے کیا ہے لیکن جس ردعمل نے رونگٹے کھڑے کردیئے ہیں وہ کوینز لینڈ کے ایک سینٹر فریزر ایننگ کا ہے جس نے اسے ایک تفصیلی بیان میں شائع کیا ہے۔ موصوف کہنا ہے کہ: ’’میں اپنی کمیونٹی کے اندر کسی قسم کے بھی تشدد کا سخت مخالف ہوں لہذا اس گن مین کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ باوجویکہ اس طرح کا ہتھیاروں سے لیس خود ساختہ حفاظتی عمل کسی طرح بھی قبول نہیں کیا جا سکتا، یہ واقعہ بہرحال ہماری کمیونٹی (آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ دونوں ممالک میں) میں بڑھتے ہوئے اس خوف کی عکاسی کرتا ہے،، جو درحقیقت مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی سے پیدا ہورہا ہے۔ جیسا ہمیشہ ہوتا ہے، بائیں بازو کا میڈیا اور سیاستدان اب اس واقعہ کو گن قوانین اور قومیت کے بڑھتے رجحان کا شاخسانہ قرار دینگے۔ لیکن یہ سادگی اور بیوقوفی ہوگی۔ ’’نیوزی لینڈ کی سڑکوں پر بہنے والے خون کی حقیقی وجہ ملک میں لاگو امیگریشن پروگرام ہے جس نے اول مسلمان انتہا پسندوں کو اس ملک میں آنے کی اجازت دی۔ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اگرچہ آج مسلمان تشدد کا شکار ہوئے ہیں، لیکن اکثر وہ ان واقعات کو جنم دیتے ہیں۔ ساری دنیا میں مسلمان اپنے دین کے نام پر لوگوں کو ایک بڑے پیمانے پر مار رہے ہیں۔ (اس سے آگے کچھ باتیں دین اسلام اور نبی ﷺ کے بارے میں ہیں جونا قابل بیان ہیں)۔ حق بات یہ ہے کہ اسلام کسی عام مذہب کیطرح نہیں ہے۔ یہ فاشزم کا مذہبی مساوی ہے۔ اور صرف یہ حقیقت کہ اس مذموم مذہب کے پیروکار اس واقعہ میں قاتل نہیں تھے اس بات کیلئے کافی نہیں ہے کہ وہ اسکے ذمہ دار نہیں ہیں۔ جیسا ہم انجیل (26:52 ) میں پڑھتے ہیں ’’وہ جو تلوار اٹھاتے ہیں، تلوار ہی سے ختم ہوجائینگے‘‘ لہذا وہ جو ایسے دین کے پیرکار ہیں جو ان کو تلوار اٹھانے کی تعلیم دیتا ہے وہ اس پر حیران نہ ہوں جب وہ خود تلوار کا شکار ہوجائیں‘‘۔
یہ تحریر ایک بیمار ذہن کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ خیالات ایسے شخص کے ہیں جو صلیبی جنگوں کے دور میں رہ رہا ہے۔ اس کو جدید دور میں قانون کی حکمرانی کا درس نہیں پڑھایا گیا یا اس نے اس کو بھلادیا ہے۔ حیرت اور بدقسمتی کے بات یہ ہے کہ یہ خود قانون بنانے والوں میں سے ہے۔ یہ کیا کہنا چاہ رہا ہے؟ کیا قانون بننے کے بعد جس نے اسکے حق میں ووٹ نہ دیا ہو، وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اس کو نہیں مانتا؟ اگریہ بات مان لی جائے کہ قانون کہتا کچھ ہے اور اس کا مطلب کچھ اور ہے، تو یہ تو ایسے فساد کو جنم دیگا جو کسی بھی معاشرے اور سوسائٹی کو تباہ و برباد کردیگا۔ امیگریشن کے قانون کے تحت جو لوگ ان دو ممالک میں آئے ہیں کیا وہ نکل جائیں؟ کیا کسی شخص پر یہ الزام لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنا ملک چھوڑ کر قانوناً ہجرت کرکے اور اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ایک دوسرے معاشرے کی تعمیر میں صرف کرکے کوئی جرم کیا ہے؟ اور اگر وہ کسی سینٹر فریزر جیسے خیالات کے حامل شخص کے ہاتھوں قتل ہوجائے تو وہ خود اپنے قتل کا ذمہ دار ہے۔
خوش قسمتی سے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے قانون سازوں کی ایک بڑی تعداد نے سینٹر فریزر ایننگ کے اس بیان کی مذمت کی ہے۔ دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اعلی ترین انسانی اقدار کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں اور اسکے حصول کیلئے اپنا حصہ ڈالیں۔ کسی کی تکلیف اور غم کو اپنی خوشیوں کا باعث بنانے سے ہم ایک ایسے گرداب میں گھر جائیں گے جو ہماری تباہی و بربادی پر ختم ہوگا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024