قیام پاکستان کے آخری دنوںمیں برطانوی انفنٹری میں بطور کپتان خدمات سرانجام دینے والے بزرگوار فریڈ جو پیرانہ سالی کے باوجود اپنا فوجی تشخص تا ہنوز قائم رکھے ہوئے ہیں اور جن کا اکثر و بیشتر ذکر میں ان سطور میں بھی کرنا رہتا ہوں بلاناغہ لائبریری جاتا اور GAURDION THE ایسا مہنگا روزنامہ خرید کر پڑھا انہوں نے اپنے روزمرہ معمولات کا ایک حصہ بنا رکھا ہے۔ گزشتہ ہفتے وہ مجھ سے ملنے آئے تو گارڈین ’’اور نیو یارک ٹائم‘‘ ان کے ہاتھ میں تھا۔ کافی کا کپ ابھی پیش کر بھی نہ پایا تھا کہ انہوں نے پاک بھارت کشیدگی کا ذکر چھیڑتے ہوئے مجھے اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ تمہارے آبائی وطن کے بارے میں میں فکر مند ہوں جہاں میں نے بھی ایک طویل عرصہ گزارا آج یہ اخبارات صرف تمہارے لیے لیکر آیا ہوں تاکہ ان کے حوالہ سے تم سے پاک بھارت سرحدوں کی بگڑتی صورتحال پر تبادلہ خیال کر سکوں مجھے قوی اُمید ہے کہ تم مجھے وقت ضرور دو گے؟ فریڈ کی علمی اور ادبی عادت سے میں چونکہ بخوبی واقف ہوں۔ اس لیے ان کے اس مسکراتے ہوئے سوال پر کہ انہیں میں ’’وقت ضرور دوں گا‘‘ کہتے ہوئے بھی میں ’’ہاں ‘‘ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ مہمان میرے پاکستان کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے آیا تھا۔ GREAT کہتے ہوئے اُنہوں نے سب سے پہلے یہ سوال پوچھنا چاہا کہ افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کو میں جانتا ہوں؟؟
ہاں! لندن میںمیڈیا انٹریکشن کے دوران اُن سے متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں مگر آپ نے کیوں پوچھا؟ اس لیے کہ پاکستان آرمی کا یہ ترجمان بے پناہ خوبیوں کا مالک ہے دھیمہ لہجہ، دو ٹوک الفاظ میں جواب اور ARMED FORCE STRATEGY کو بیان کرنے میں اس اعلیٰ افسر کو خوب دسترس حاصل ہے۔ HE IS A GREAT LAD بی ۔ بی ۔ سی سمیت سی ۔ این ۔ این پر اس جنرل کا حالیہ عسکری تجزیہ مستقبل کی پالیسی ، افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کی حکمت عملی اوروزیراعظم عمران خان کا بھارتی جارحیت کی صورت میں مودی سرکار کے خلاف واضح موقف کو یہ ڈی جی آئی ایس پی آر جس خوبی سے پیش کر رہا ہے بلاشبہ قابلِ تعریف ہے۔ بہت شکریہ! مسٹر فریڈ! میجر جنرل آصف غور کی تعریف کرنے پر میں نے کہا! اور پھر فریڈ نے بھارتی جارحیت کا ذکر چھیڑ دیا اپنی سابقہ فوجی زندگی کا ایک حصہ میں چونکہ بھارت میں بھی گزار چکا ہوں۔ بھارتی طیاروں کی دراندازی سے آزاد کشمیر میں درختوں کا بھاری نقصان، ماحولیاتی فضا کو خراب کرنے کی بھونڈی کوشش اور پھر بھارتی میڈیا پر بم گرانے کے حوالہ سے پھیلائی غلط اطلاعات کی وجہ سے بھی بھارتی حکومت کو ندامت سے دوچار ہونا پڑا جبکہ اس کے برعکس حقیقت یہ تھی کہ پاکستان فضائیہ نے PAKISTANI TERRITORY میں داخل ہونے والے دو بھارتی جنگی طیارے مار گرائے اور ان کے ہوا بازوں کو بھی گرفتار کر لیا جن میں سے پائلٹ ابھی نندن کو جنیوا کنونشن کے رولز کے مطابق رہا کر کے اسے بھارت کے حوالے کیاجا چکا ہے۔ مگر دوسرا پائلٹ کہاں گیا؟ فریڈ سے میں نے پوچھا! یہ تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تم خود کالم نگار ہو! مجھ سے اگر پوچھنا چاہو تو میرے سابقہ فوجی تجربہ کے مطابق دوسرا گرفتار کیا گیا پائلٹ یقینی طور پر ’’بھارتی نیشنل‘‘ نہیں ہو سکتا؟ ورنہ اس کی گرفتاری کے فوراً بعد رہائی میں کیا رکاوٹ مانع تھی۔ ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ ایک COMPREHENSIVE فیلڈ ہے کسی حملہ آور ملک کے وہ دوست ممالک جن کا جغرافیائی عسکری مشن ایک ہی ہو تو ضرورت پڑنے پر ان کی دوستانہ کوآرڈینیشنز کو بھی استعمال کر لیا جاتا ہے مگر باالعموم ایسا کم ہی ہوتا ہے…؟ رہا معاملہ پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کا! تو اس حقیقت سے قطعی انکارممکن نہیں کہ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کی بنیادی وجہ ’’تنازعہ کشمیر‘‘ ہے جب تک یہ تنازعہ حل نہیں ہوتا جنوبی ایشیاء میں دیرپا امن ممکن نہیں ہو سکتا۔ میں نے فریڈ کی بات کاٹتے ہوئے کہا! ہاں ! بالکل ایسا ہی ہے نہرو رپورٹ میں بھی وضاحت موجود ہے…یو این او کی قرارداد میں بھی واضح ذکر کیا گیا ہے مگر! معاملے کے اصل فریق کشمیری ہیں جن کی رائے پر فیصلہ ہونا ہے ۔
مجھے لگ رہا تھا کہ فریڈ ’’اپنے موضوع کا فوکس دوبارہ بھارتی فضائیہ کے تباہ شدہ دو طیاروں اور بھارتی میڈیا کی مبینہ طور پر دروغ گوئی پے مبنی پراپیگنڈے پر رکھنا چاہ رہا تھا۔ چنانچہ میں نے اس کی مشکل آسان کرتے ہوئے اس کی توجہ اس کے گارڈین اخبار کی جانب مبذول کروائی تو میر پر رکھا ’’گارڈین‘‘ اس نے اٹھایا اور وہ خبر مجھے پڑھنے کی درخواست کی جس میں بھارتی طیاروں کی آزاد کشمیر کے جنگل میں درختوں پر PAY LOAD کی کارروائی سمیت بھارت میں گرائے کسی پاکستانی F-16 طیارے کی غلط اور بے بنیاد اطلاعات پر اس صورتحال کا اخبار نے چہرہ بے نقاب کیا تھا اخبار نے واضح کیا تھا کہ جس پاکستانی جنگی طیارے F-16 کو بھارت میں دکھایا گیا وہ F-16 جہاز کا ٹکرا نہیں تھا بلکہ یہ محض بھارتی میڈیا کی بھارتی عوام کو مبینہ طور پر تسلی دینے کا ایک ڈھونگ تھا جو سراسر جھوٹ پے مبنی تھا جبکہ دوسری جانب REAUTER نیوز ایجنسی نے بھی اصل حقیقت بیان کرتے ہوئے دیکھا کہ مودی سرکار نے بالا کوٹ میں ایک عمارت میں قائم جس مدرسے کوتباہ کرنے کا دعویٰ کیا وہ بھی دروغ گوئی پے مبنی تھا کہ بذریعہ سیٹلائٹ وہ عمارت بالکل اپنی اصلی حالت میں دیکھی گئی۔ ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے بھی بھارتی طیاروں کے گرائے جانے اور بھارتی میڈیا کے منفی پراپیگنڈے پر تبصرہ کیا تھا۔ افواج پاکستان کی کامیاب اسٹریٹجی اور وزیراعظم عمران خان کی بروقت اعلیٰ حکمت عملی کو بھی اخبارات میں سراہا گیا تھا۔ ’’فریڈ‘‘ اخبار سمیٹ کر مجھ سے اجازت لیتے ہوئے کھڑا ہوا ہی تھاکہ اُسے پھر کچھ یاد آ گیا۔ اپنا دایاں ہاتھ اس نے اپنی جیکٹ میں ڈالا اور کاغذ پر لکھے پاکستان بھارت کی عسکری طاقت کے اعداد و شمار میرے سامنے رکھتے ہوئے افواج پاکستان کی بہادری، دلیری اور جذبہ ایمان کی پھر تعریف کر ڈالی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024