ایران میں پاکستان کے سفیر آصف علی خان درانی صحافی سے سفیر بنے ہیں۔ اسی کی دہائی میں وہ کوئٹہ میں تھے۔ ان کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ وہ 80ء کی دہائی میں چار سال تک کوئٹہ میں اسلام آباد سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ مسلم کے بیورو چیف تھے۔ مسلم اخبار میں ان کی اس دور میں بڑی تہلکہ خیز خبریں شائع ہوتی تھیں۔ کچھ عرصہ کے لئے انہوں نے غیر ملکی ایجنسی اے ایف پی کے لئے بھی کام کیا۔ پھر انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان دیا اور کامیابی کی بعد فارن سروس جائن کر لی۔ آصف درانی سے میری شناسائی کئی دہائیوں سے ہے۔ وہ بڑے کھلے دل کے شخص ہیں۔ ایران میں سفیر بننے سے قبل وہ افغانستان‘ متحدہ عرب امارات اور کئی دوسرے ملکوں میں پاکستان کے سفیر کے طور پرسفارتی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ تہران میں پاکستانی سفارتخانہ میں انہوں نے ایران کے دورے پر آئے ہوئے صحافیوں کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا۔ اس عشائیہ میں آصف درانی نے پاک ایران تعلقات پر بڑی جامع اور فکر انگیز گفتگو کی۔ وہ فارسی زبان بڑی روانی سے بولتے ہیں۔ انقلاب ایران کے بعد ایرانی سوسائٹی اور ایران کی پالیسیوں کے بارے میں انہوں نے ایک مفصل تجزیہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات کو مستحکم بنانے کیلئے محنت اور تسلسل سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی صحافیوں کے تہران میں قیام کے دوران ان کے سفارت خانہ کے افسروں خاص طور پر پریس قونصلر برج لال دوسائی ‘ پاکستان سفارتخانہ میں متعین رہے ۔ ملٹری اتاشی کیپٹن سید فیصل علی شاہ نے صحافیوں کا بہت خیال رکھا۔ لیکن صحافیوں کو ایران کی تاریخ‘ ایرانی معاشرے اور یہاں کی ثقافت پر جس شخصیت نے سب سے جامع معلومات فراہم کیں اور انہیں گائیڈ کیا وہ ایران میں پاکستان سفارت خانہ میں متعین ایک پاکستانی علی نقوی تھے۔ علی نقوی گذشتہ 30 برس سے پاکستانی سفارتخانہ میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ فارسی اور انگریزی پر کمال درجہ عبور رکھتے ہیں۔ مختلف صحافتی اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتوں کے دوران انہوں نے مترجم کا فریضہ انجام دیا۔ کیونکہ ایران میں جس بھی ادارے کے سربراہ سے بات کی جائے وہ صرف فارسی زبان میں گفتگو کرتا ہے۔ مسٹر علی نقوی کی عمر 76 برس ہے وہ سفارت خانہ سے ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن انہیں سفارتخانہ نے پھر ملازمت دے دی ہے۔ وہ ایران کی تاریخ ‘ ثقافت‘ ادب اور زبان پر انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں۔
جمعرات کے روز پاکستانی صحافیوں کو قم کا دورہ کرایا گیا۔ قم ایران کا صوبہ بھی ہے اور قم کی مذہبی حیثیت بھی ہے۔ یہاں کی دو یونیورسٹیاں المصطفیٰ اور فضہ یونیورسٹی اہل تشیع کیلئے علم و حکمت کا مرکز سمجھی جاتی ہیں۔ اس شہر میں بی بی معصومہ کا مزار بھی ہے۔ جس کی زیارت کیلئے دنیا بھر کے ملکوں سے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے زائرین لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں۔ ایران کے انقلاب کے قائد اور بانی امام خمینی اور ان کے بعد اقتدار میں آنے والے مذہبی رہنما جسے مغربی ممالک Iranian Clergy کہتے ہیں نے قم سے ہی تعلیم حاصل کی ہے۔ جب پاکستانی صحافی قم پہنچے تو انہیں حیرت ہوئی کہ یہاں آنے والے زائرین کی بڑی تعداد پاکستانیوں کی تھی۔ قم کے مدرسوں میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی زیر تعلیم ہیں جو یہاں مقیم ہیں۔
قم سے واپسی پر راستے میں ایک انتہائی اعلیٰ درجے کے ریستوران میں پاکستانی صحافیوں اور ہمارے ساتھ پاکستانی سفارت کاروں نے کھانا کھایا۔ اس ریستوران کا معیار اور یہاں صفائی کو دیکھ کر رشک آتا ہے۔ یہ سیلف سروس والا ریستوران ہے ‘ لیکن اس کا کھانا بے حد لذیذ تھا۔ اس ریستوران میں حال ہی میں جب قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق کا وفد ایران کے دورے پر آیا تھا تو اس وفد کو عشائیہ دیا گیا تھا۔ سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی کی قیادت میں آنے والے وفد کو بھی قم کے دورے کے بعد اسی ریستوران میں ضیافت دی گئی تھی۔ تہران سے قم تک کی ہائی وے انتہائی اعلیٰ معیار کی ہے۔ اس شاہراہ پر مسافروں کے لئے جو طعام گاہیں تعمیر کی گئی ہیں ان کے ساتھ بنے ہوئے ریسٹ رومز میں صفائی کا معیار بھی انتہائی اعلیٰ ہے۔ قم کے دورے کے بعد جب تہران پہنچے تو ٹریفک کے ہجوم میں پھنس کر رہ گئے۔ ہم جس وین میں ہم سوار تھے اس سے اتر کر پیدل چل کر اپنے ہوٹل پہنچے۔ خدا کا شکر ہے کہ ٹریفک کے جس ہجوم میں ہم پھنسے وہ ہوٹل سے قریب تھا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024