ب نیشنل سٹیڈیم کراچی میں سٹیج سجے گا
حافظ محمد عمران
اب نیشنل سٹیڈیم کراچی میں سٹیج سجے گا، سیٹی بھی بجے گی اور کھیل بھی جمے گا۔ کراچی کے شائقین کرکٹ کا پرزور مطالبہ پورا ہونے کو ہے۔ پاکستان سپر لیگ کا فائنل 25 مارچ کو کراچی میں کھیلا جا رہا ہے۔ 2017 کے دوران لاہور میں پی ایس ایل فائنل، ورلڈ الیون اور سری لنکا کی آمد کے بعد ملک کے دیگر شہروں بالخصوص کراچی کے عوام کی طرف سے سپر لیگ اور انٹرنیشنل میچوں کے انعقاد کا مطالبہ شدت سے کیا گیا تھا۔ ایک ہی شہر تک کرکٹ کی بین الاقوامی سرگرمیوں کے محدود ہونے سے بیرونی دنیا میں اچھا تاثر نہیں جاتا تھا۔ ملک میں امن و امان کی بہتر ہوتی صورتحال کے باعث کرکٹ بورڈ نے نیشنل سٹیڈیم کی رونقیں بھی بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے پاکستان سپر لیگ کا فائنل کراچی میں کروانے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کے تینوں میچوں کی میزبانی بھی کراچی کو دے دی گئی۔ ان اقدامات سے نیشنل سٹیڈیم کی رونقیں ایک مرتبہ پھر بحال ہو رہی ہیں۔ گو کہ انتظامات اور سٹیڈیم کی تزئین وآرائش اور ٹکٹوں کی فروخت کے حوالے سے خاصی شکایات ہیں۔ کئی کوتاہیاں بھی سامنے آ رہی ہیں لیکن شائقین کی توجہ جوش و جدبے اور لگن نے بہت سی خامیوں کو چھپا دیا ہے۔
پاکستان سپر لیگ کے ذریعے ملک میں کرکٹ کی بین الاقوامی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں۔ امن و امان کی اس فضا نے ملک دشمنوں کو بے چین کر دیا ہے۔ پاکستان دشمنوں کے لئے قہقہے اور مسکراہٹیں بم دھماکوں سے کم نہیں ہیں۔ دہشت گرد اور شرپسندوں کے گروہ بے چینی کا شکار ہیں۔ انہوں نے اس کے عمل کو خراب کرنے کے لئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ رائے ونڈ میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی اس سلسلے کی کڑی ہے۔ ایسے وقت میں جب غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آ رہے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم مختصر سیریز کے لئے پاکستان آنے کا اعلان کر چکی ہے۔ ملک دشمن عناصر بھی حرکت میں ہیں۔ امید ہے کہ حساس ادارے، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہماری انتظامیہ وفاقی وصوبائی حکومتوں کے ذمہ داران اس کے سفر میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔
گزشتہ سال ہم نے پرامن انداز میں تین بڑے ایونٹس کی میزبانی کی تھی۔ زندہ دلان لاہور نے تمام رکاوٹوں اور پریشانیوں کا کھلے دل سے سامنا کیا۔ ٹریفک میں پھنسے رہے وقت ضائع ہوا لیکن ملک کی بہتری کی خاطر سب کچھ برداشت کیا۔ سٹیڈیم آنے والوں نے مثالی نظم وضبط کا مظاہرہ کیا۔ صوبائی حکومت کے وزراء بھی اس دوران سڑکوں پر ڈیوٹی دیتے نظر آئے۔ اب یہ ذمہ داری کراچی کی حکومت اور انتظامیہ پر ہے۔ سندھ کی حکومت کو مختلف معاملات میں بدانتظامی کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے لیکن اس معاملے میں چھوٹی سی غلطی سے بھی بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ صوبائی حکومت کے ذمہ داروں کو پنجاب حکومت کے وزراء اور انتظامیہ کی طرح دن رات کام کرنا ہو گا۔ یہ پاکستان کی ساکھ کا معاملہ ہے۔ پی ایس ایل فائنل کے کامیاب انعقاد سے ملکی کرکٹ میں ایک نئے سفر کا آغاز ہو گا۔ اس کے بعد ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی اور دیگر سٹیڈیم میں بھی بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے لئے راستہ ہموار ہو گا۔ دعا ہے کہ اس سارے عمل میں پاکستان کے دشمن ناکام ہوں۔ ہم مکمل امن و امان کے ساتھ پاکستان سپر لیگ کے تینوں میچوں کی میزبانی کریں۔ غیر ملکی کھلاڑی یہاں سے اچھی یادوں کے ساتھ رخصت ہوں۔ ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی مسکراتے ہوئے آئیں اور قہقہے لگاتے ہوئے واپس جائیں۔
جہاں تک پی ایس ایل میچز کا تعلق ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے میچز اس مرتبہ عوامی سطح پر ماضی کی طرح مقبولیت حاصل نہیں کر سکے۔ کھیل کا معیار بھی پہلے دو ایڈیشنز کی نسبت غیر معیاری رہا ہے۔ امپائرنگ پر بھی خاصی تنقید ہو رہی ہے۔ فرنچائز مالکان کی طرف سے بھی فاش غلطیاں ہوئی ہیں۔ قومی کرکٹرز اپنے کھیل سے سیزن تھری میں اچھا تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ البتہ ان کے منفی روئیے زیر بحث رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان نے ماہرین کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ احمد شہزاد، عمادوسیم، راحت علی حتیٰ کہ شاہدآفریدی کا جونیئر کھلاڑیوں کو آئوٹ کرکے منفی انداز اختیار کرنا کسی کو اچھا نہیں لگا۔ سہیل خان اور یاسرشاہ کی لڑائی نے بھی دونوں کھلاڑیوں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
پی ایس ایل کے معیار کو برقرار رکھنے، اس میں عوامی دلچسپی کو بڑھانے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ چوتھے سیزن سے پہلے فرنچائز کے کردار، کھلاڑیوں کے انتخاب، غیر ملکی کھلاڑیوں کی شمولیت اور امپائرنگ کو بہتر بنائے بغیر ہم اس کی دلکشی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ کرکٹ بورڈ کو مصلحت پسندی سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ سوچ اپناتے ہوئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔