روشن قومی افق اوربہترملکی معیشت کیلئے بجٹ میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ریلیف دینے کی ضرورت
سجاد اظہر پیرزادہ
sajjadpeerzada1@hotmail.com
قومی افق کو ‘ مساوات پر مبنی نظام قائم کر کے روشن کیا جاسکتاہے، قومی افق اور ملکی معیشت سنوارنے میں رئیل سٹیٹ سیکٹربنیادی حیثیت رکھتا ہے۔وطن میں سیاسی و معاشی حالات چاہے کتنے بھی بُرے آئے ہوں ‘ رئیل سٹیٹ سیکٹرنے مگرپاکستان کی معیشت کو سہارا دئیے رکھا ہے ۔یہ وطن کی معیشت مضبوط بنانے کے سلسلہ وار عزم کا ہی ایک ثبوت ہے کہ آج بھی سر ما یہ کاررئیل سٹیٹ سیکٹرمیں سرمایہ کاری کومحفوظ سمجھتے ہیں۔محفوظ سرمایہ کاری کے ذریعے ملکی و قومی خوشحالی میںمگر ایک ٹھہرائو آگیا ہے۔اِس ٹھہرائو کا سبب ٹیکسز کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہے۔ جون 2016میں رئیل سٹیٹ سیکٹر میں ٹیکسز کی شرح اور ایف بی آر کی شرح میں100فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔تب سے لے کر آج تک یہ سیکٹر بحران کا شکار چلا آرہا ہے۔نہ صرف رئیل سٹیٹ سیکٹر میں بحران کا سیلاب آیا‘ بلکہ اِس سیکٹر سے جڑی وہ 72انڈسٹریز بھی ہچکولے کھا رہی ہیں‘وطن کی معاشی حالت کو جو سہارا دیتی ہیں۔بجائے اس کے کہ وطنی معیشت کے لئے اہم 72 انڈسٹریز کو مشکل سے نکالا جائے‘ بازگشت اب یہ سنائی دے رہی ہے کہ اس بجٹ میں پراپرٹی کی ویلیو کو رئیل مارکیٹ ویلیو پر لے جایا جا رہا ہے۔نہ صرف یہ کام سیکٹر کے لئے زہر قاتل ہوگا‘ بلکہ ملکی کی سیاسی و معاشی صورتحال شدید خطرے سے دوچار بھی ہوجائے گی۔
اس سلسے میں فیڈیریشن آف رئیلٹرز کے ایگزیکٹو ممبر اور جنرل سیکٹری رئیل سٹیٹ کنسلٹنٹ ایسو سی ایشن احسن ملک وطن کو افراتفری کی موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لئے بتاتے ہیں کہ ’’انصاف پر مبنی نظام قائم کر کے ملک و قوم کو معاشی بحران سے نکالا جاسکتا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ یک دم بڑھانے کی بجائے‘ پراپرٹی کی قیمتوں کو سات سے آٹھ سالوں میں بتدریج مارکیٹ ویلیو کے برابر لے جایا جائے۔یہ امر افسوسناک ہے کہ ہمیں اس کاروبار میں بد دیانتی اور جھو ٹ کے نظام پر چلنے پر مجبو ر کیا جاتا ہے۔ رئیل سٹیٹ کنسلٹنٹس کسی پراپرٹی کی خریدوفروخت کا عمل ‘ جب مکمل کرتے ہیں تو پراپرٹی کی منتقلی کے وقت ہمار ی تین مختلف باتیں ہوتی ہیں۔نمبر1: علاقے کے D.C نے اس پراپرٹی کی ایک قیمت کا تعین کیا ہوتا ہے۔ 2: F.B.R یعنی وفاق نے اسی پراپرٹی کی قیمت کا کچھ اور تعین کیا ہوتا ہے۔ 3: رئیل ماریکٹ جس میں اس پراپرٹی کی ڈیل ہوتی ہے وہ کچھ اور ہوتی ہے۔ ملک کے قوانین بنانے اور انہیں عمل کروانے والے لوگوں اور اس کاروبار سے وابستہ لوگوں میں کوئی باہمی ربط نہیں اور نہ ان کورئیل سٹیٹ سے متعلقہ قوانین بنانے میں اعتماد میں لیا جاتا ہے،کسی بھی ملک کی معیشت کا سب سے اہم جزو یہ ہوتا ہے کہ ملکی معیشت کو چلانے والوں اور ملک کی ترقی اور فلاح و بہبود کے منصوبے بنانے والوں کو یہ پتہ ہو کہ ملک میں گردش کرنے والا سرمایہ کہاںاور کس مقدار میں لگا ہوا ہے، اس مکمل معلومات کے بغیر اندازوں پر بننے والے بجٹ اور ملکی ترقی کے منصوبے صرف قیاس پر بنتے ہیںجو کبھی بھی قابل عمل نہیں ہوتے،رئیل سٹیٹ کنسلٹنٹ ایسو سی ایشن ملک کی واحد تنظیم ہے جو معاملات کو دیکھتے ہوئے اگلے بجٹ کے لیے حکومت پاکستان کو چند تجاویز پیش کرتی ہے جس پر اگر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تورئیل سٹیٹ میں لگی ہوئی ـ’’نان ڈکلیئرڈ امائونٹ ‘‘ ملکی معیشت میں شامل ہو کر ملک کے تابناک مستقبل کے لیے سنگ میل ثابت ہو گی۔ رئیل سٹیٹ کنسلٹنٹ ایسو سی ایشن حکومت پاکستان کو یہ گا رنٹی دیتی ہے کہ اگر ہماری دی ہوئی سفارشات پر عمل کیاگیا تو نہ صرف رئیل سٹیٹ کے کام سے جھوٹ اور بدیانتی ختم ہو گی بلکہ ایک ایک روپیہ ملک کی معیشت میں شامل ہوگااور حکومت کے سالانہ ریونیو میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگا،2016میںٹیکسوںمیں 100فیصداضافہ واپس لیا جائے اور تین سال تک ٹیکسز منجمد کئے جائیں۔حکومت 2فیصد کی شرح رئیل اسٹیٹس پر رضاکارانہ ایمنسٹی کا اعلان کرے تاکہ لوگ ان تمام رقوم کو جو پچھلے 70سال سے رئیل سٹیٹ میں لگی ہوئی ہیں آج کی رئیل ویلیو تک لا سکیں اور اس کی کوئی اپر لمٹ نہ ہو بلکہ جس رقم پر پراپرٹی خریدی جائے وہاں تک 236W کو استعمال کیا جا سکے۔ حکومت قانوناً یہ اختیار حاصل کر لے کہ اگر کسی بھی پراپرٹی پر شک ہو کہ رئیل ویلیو سے کم پر ٹرانسفر کروائی جا رہی ہے تو وہ اس کی بتائی ہوئی قیمت 10فیصد زیادہ ادا کرکے اسے خود خرید لے۔ بیرون ملک سے آنے والے پیسے اور جن کے پاس اپنی وائٹ منی ہے انہیں اختیار دیا جائے کہ وہ پراپرٹی 236W یعنی رضاکارانہ ایمنسٹی کی رقم ادا کیے بغیر خرید سکتے ہیں۔ ویلتھ ٹیکس کا نظام ابھی تک نہیں ہے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ویلتھ ٹیکس کو مستقبل میں بھی لاگو نہیں کیا جا ئے گا۔ ٹیکس کے اس نظام کو فکس کیا جائے اور اس میں حکومت کبھی بھی اضافہ نہ کرے کیونکہ ہر سال پراپرٹی کی قیمتیں بڑھنے سے اسی تناسب کو قائم رکھنے پر حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوتا چلے گا۔ حکومت تمام سرکاری‘ نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کا اپنا چیک سسٹم رکھے اور ان کی ٹرانسفر فیس اور باقی فیسیز جو وہ مختلف مد میں لیتے ہیں وہ کسی قانون کے تابع رکھے جائیں اور اس سارے عمل میں یہ ادارے وہاں کی رئیل سٹیٹ یونین سے مشاورت اور رضامندی ضرور حاصل کریں۔-5 8مرلہ یعنی 150 گز اور 60 لاکھ تک کسی بھی پلاٹ/ مکان کی خریداری کو کسی بھی قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے کیونکہ ایسی پراپرٹی/ مکان سفید پوش طبقہ اپنی ساری زندگی کی کمائی سے بناتے ہیں۔ بددیانتی کے اس نظام کی وجہ سے ملک کا بینکنگ سسٹم تباہی کا شکار ہے کیونکہ سب خریدار اتنی ہی رقم بینک کے ذریعے جائیداد خریدتے ہوئے ادا کرتے ہیں جس قدر ایف بی آر کی ویلیو ہے یا کلکٹر ویلیو ہے اور سارا پیسہ کیش کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔چونکہ بیکنگ کے ذریعے آنے والی رقوم پر بہت زیادہ رقم کی کٹوتی ہوتی ہے جو 0.03 سے 0.06 تک ہوتی ہے اس لئے لوگ اپنی نقد رقم کو ڈالرز اور دیگر غیرملکی کرنسیوں کی صورت میں رکھتے اور ادا کرتے ہیں، اس عمل سے ہمارے ملکی پیسہ کی قیمت بھی گرتی چلی جا رہی ہے۔رئیل سٹیٹ کنسلٹنٹس کے بینک اکائونٹس کو اس کٹوتی سے مستشنی قرار دیا جائے کیونکہ رئیل سٹیٹ کنسلٹنٹس کے اکائونٹس میں زیادہ پیسہ کسٹمرز کا گردش کرتاہے۔ اگر اسی قدر پہ جائیداد کی خرید و فروخت ٹیکسز کو قائم رکھا گیا تو مجبوری میں جائیداد کی منتقلی کا متبادل طریقہ کار اپنانے پر لوگ مجبور ہو جائیں گے جس سے حکومت کے خزانے میں ایک روپیہ کی بھی آمدن نہ ہو گی اور کچھ جگہوں پر یہ متبادل نظام خرید و فروخت شروع بھی ہو چکا ہے۔ بیرون ملک سے پاکستانیوں کو فائلر کا سٹیٹس دیا جائے ۔کہ رئیل سٹیٹ کنسلٹنٹس کے2% سروس چارجز (کمیشن)کو قانونی حیثیت دی جائے۔ ہنگامی قدم اٹھائیں جہاں سے انوسٹمنٹ کے ٹرم واپس پاکستان کی طرف ہوں۔اگر جائیداد کی خرید و فروخت پر انہی ٹیکسز کو برقرار رکھا گیا تو مجبوری میں جائیداد کی منتقلی کا متبادل طریقہ کار اپنانے پر لوگ مجبو ر ہو جا ئیں گے جس سے حکومتی خزانے میں آمدن نہ ہو گی ۔ کچھ جگہوں پر متبادل نظام خریدوفروخت شروع بھی ہو چکا ہے،حکومت رئیل سٹیٹ کی تجاویز زیر غور لائے تاکہ وطن میں کاروبار سچائی اوردیانت داری کی بنیادوں پر قائم ہو سکے‘‘۔