اپوزیشن نے چیئرمین سینٹ کا انتخاب عجب طور سے جیت لیا۔ ایوان بالا کے نومنتخب چیئرمین کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ مطلوبہ نتائج کے حصول کی تیاری بلوچستان کی صوبائی حکومت کی تبدیلی سے شروع ہو گئی تھی۔ اس حوالے سے زرداری صاحب نے جو کردار ادا کیا وہ ڈھکا چھپا نہیں۔ آناً فاناً بلوچستان میں وزیراعلیٰ تبدیل ہو گیا۔ حیرت یہ تھی کہ میثاق جمہوریت کرنے اور 90ء کی دہائی کی سیاست کے خاتمے کے علمبردار ایک بار پھر بدنام زمانہ سیاست کو زندہ کر رہے ہیں۔
3 صوبوں میں بھی بھاری رقم خرچ کر کے سینٹ الیکشن کے نتائج یکسر تبدیل کرا لئے گئے اور سینٹ انتخابات کے بعد تو یہ تک کہا جانا شروع کردیا گیا کہ جس کے پاس مطلوبہ رقم ہو وہ پاکستان کی سینٹ اور چیئرمین خرید سکتا ہے اور کیوں نہ کہا جائے حالیہ سینٹ الیکشن ہوا ہی اسی طرح کا ہے کہ دولت کے بل بوتے پر سینٹ کی نشستیں جیت لی گئیں۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت میں تبدیلی سے شروع ہونے والا کھیل اگلے مرحلے میں سینٹ الیکشن میں انتہا کو پہنچ گیا اور خاص منصوبہ بندی کے تحت سینٹ میں نشستیں جیتیں گئیں۔
جب چیئرمین سینٹ کے انتخاب کا وقت آیا تو یہاں کھل کر 90ء کی دہائی کی سیاست کی گئی اور اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ حکومت کی فتح ہوتی یا اپوزیشن کو فتح حاصل ہوئی ہے۔ میری تنقید اس طریقہ کار پر ہے جسے اختیار کر کے پاکستان کے قانون ساز ایوان بالا کو دولت کے بل بوتے پر خریدا گیا اور چیئرمین تک کے انتخاب میں جمہوریت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی گئیں۔ اس صورتحال میں کم از کم خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کرایا جاتا تو تمام چہرے بے نقاب ہو جاتے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ سینٹ کا انتخاب اس طریقے سے ہونا ہی نہیں چاہئے بلکہ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہر پارٹی کو اسکی صوبائی نشستوں کے تناسب سے سینٹ میں نشستیں مل جائیں تو دولت کا عنصر ختم ہو جائے گا یا اس میں کافی حد تک کمی آئے گی۔
چیئرمین سینٹ کے انتخاب کو یہ کہہ کر خوش آمدید کہا گیا کہ تاریخ میں پہلی بار بلوچستان سے چیئرمین منتخب ہوا ہے۔ یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ پہلی بار بلوچستان سے چیئرمین سینٹ کس طریقے سے منتخب ہوا ہے؟ چھوٹے صوبے کو سینٹ کی چیئرمین شپ دینے کی اشد ضرورت تھی اور تمام چھوٹے صوبوں کو باری باری چیئرمین سینٹ ملنا چاہئے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ بار کے انتخابات کی طرح کا طریقہ کار طے کر لیا جائے کہ 2 بار چیئرمین سینٹ پنجاب اور پھر 1-1 بار چیئرمین سینٹ 3 چھوٹے صوبوں سے باری باری منتخب ہوتا رہے اور جس صوبے کی چیئرمین کی باری ہو اس میں صرف اسی صوبے کا ممبر سینٹ ہی چیئرمین سینٹ کا الیکشن لڑنے کا اہل ہو۔
سپریم کورٹ بار کی طرز پر نظام لانے سے تمام صوبوں کو باری باری سینٹ کی چیئرمین شپ ملتی رہے گی اور ساتھ ساتھ یہ تمام گیم بھی نہیں ہوگی جس طرح کی منڈی لگا کر پہلے بلوچستان صوبائی حکومت پھر سینٹ انتخابات اور اب چیئرمین سینٹ کا انتخاب جیتا گیا۔
دولت کے عنصر سے سیاست کی جان چھڑانے کیلئے متناسب نمائندگی کا طریقہ کار بہترین ہوگا اور تمام صوبوں کو چیئرمین سینٹ کی نشست کیلئے بہتر ہے کہ سپریم کورٹ بار کی طرح کا طریقہ کار طے کر لیا جائے۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت‘ سینٹ انتخاب اور اب چیئرمین کے انتخاب میں شکست کھانے والے سیاست دان اس تمام گیم کا ذمہ دار اشاروں اشاروں میں بعض دیگر قوتوں کو قرار دے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں عدلیہ اور فوج کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس کا جب دل کرتا ہے وہ جلسے ’سیمینار‘ نجی محافل اور میڈیا سے بات چیت میں ان دو انتہائی محترم اور مؤقر اداروں عدلیہ اور فوج پر تنقید کر دیتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنرل کیانی سے لیکر اب تک فوج سیاست سے مکمل طور پر کنارہ کش رہتی آ رہی ہے بلکہ فوج تو جمہوریت کے تحفظ کی ضامن بن چکی ہے۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی جانب بھی بھرپور توجہ مبذول کئے ہوئے ہے۔ اندریں حالات فوج کی جانب سے کسی بھی طرح کی مداخلت کا ادنیٰ سا تصور تک بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح عدلیہ بھی آئین وقانون کے مطابق فیصلے دے رہی ہے جنہوں نے عدلیہ کے وقار میں بے پناہ اضافہ کیا ہے البتہ کسی بھی موقع پر سیاسی بیان بازی اور ریمارکس نہیں آنے چاہئیں جس سے یہ تاثر ملے کہ منصف فریق بن رہے ہیں۔ اب تک عدلیہ نے اپنے فیصلوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ مکمل طور پر غیر جانبدار ہے۔ حکمراں جماعت کے حق میں ہی موجودہ عدلیہ نے حدیبیہ کیس نہ کھولنے کا فیصلہ دیا اسی طرح شریف فیملی کی 3 شوگر ملوں کو کھولنے کا حکم دیا گیا۔
پانامہ انکشافات تو عالمی طور پر درجنوں نامور شخصیات کے خلاف ہوئے تھے اور ان انکشافات میں مقامی طور پر کسی بھی ادارے یا شخصیت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ حکمراں یہ کسی بھی طور پر الزام نہیں لگا سکتے کہ پانامہ انکشافات بعض اداروں کے بنائے ہوئے تھے۔
عدالت عظمیٰ میں حکمرانوں پر پاناما لیکس کے تحت مقدمہ چلا اور انہیں قانون کے مطابق سزا ہوئی۔ پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ انکشافات سے لیکر سزا تک کے عمل میں فوج مکمل طور پر غیر جانبدار تھی‘ ہے اور رہے گی۔ لہٰذا حکمرانوں کو بے جا بدگمانی اور الزام تراشی سے گریز کرنا چاہئے۔
مسلح افواج کے ادارے کا استحکام ملکی دفاع و سلامتی کا ضامن ہے اور اس پر بلاجواز تنقید ملک دشمنی کے زمرے میں آتی ہے۔ اب حکمراں جماعت کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اور وہ ہر معاملے کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر خود کو فرشتہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
حقیقت میں حکمراں جماعت کو اپنے رویئے میں لازمی تبدیلی لانی ہوگی اور اب شہباز شریف کے ن لیگ کے مستقل صدر منتخب ہونے کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ اداروں پر بلا جواز تنقید کا سلسلہ بند ہو جائے گا اگر اب بھی حکمراں جماعت کے لوگوں کی اداروں پر تنقید ختم نہ ہوئی تو مستقبل کے انتخابات کے نتائج حیران کن ہو سکتے ہیں لیکن اس کے ذمہ دار حکمراں جماعت کے شعلہ بیان ہی ہوں گے!
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024