ہر سال جب بھی بہار کی عطر بیز ہوائیں چلتی ہیں،کلیاں چٹختی ہیں اور موسم بسنتی ہوجاتا ہے تو حبیب جالب کے تذکرے ،باتیں ،اوریادیں جگر چھلنی کردیتی ہیں۔میں شاعر تو نہیں مگریہ وحشت طاری ہوتی ہے کہ ان موسموں میں اب حبیب جالب ہمارے درمیان نہیں ۔وہ جو بہار ہوکہ خزاں، سردی ہویا قیامت کی گرمی ہر وقت اور ہر حالت میں ظالموں سے لڑتارہتا تھا۔جس کے اشعار ابرورعد کاجلال لیکر حکمرانوں کوللکارتے ۔جس کی مترنم شاعری دراصل تلوار کا لہجہ ہوتی ۔جس نے ایوب خاں ،یحی خاں، ذولفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کے خلاف اسی تسلسل سے لکھا جس تسلسل کے ساتھ انہوں نے حکومت کی اور سیاسی مخالفین کی زندگیوں کو عذاب بنادیا۔جالب کی خوبی تھی کہ اس کا کلام خود ہی اپنے زمان ومکان کی نشاندہی کرتا ہے۔اگریہ کہا جائے کہ ایسے دستور کو صبح بے نور کو ۔میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا تو ذہن میں فوراً ایوب خاں کے دور حکومت اور 1962ء کے خود ساختہ آئین کی طرف مڑجاتاہے۔/ محبت گولیوں سے بو رہے ہو،وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو۔/گماں تم کو کہ منزل کٹ رہی ہے ،یقین مجھ کو کہ منزل کھورہے ہو/۔کہیں سنائی دے تو یحی خاں،فوجی ایکشن ،سنہرابنگال جو پامال ہوگیا اور ان کروڑوں مشرقی پاکستانیوں کی یادرلادیتی ہے جو یحییٰ خاں اور بھارتی افواج کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ظلمت کو ضیاصرصر کو صباء بندے کو خدا کیا لکھنا جیسی نظم پڑھنے یاسننے کو ملے توبے ساختہ ضیاء الحق کامنحوس دور حکومت یاد آجاتا ہے ۔ویسے تو ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے بھی ایسا بہت سا کلام ہے جسے سن کر وہ دور بھی یاد آجاتا ہے مگر حبیب جالب چونکہ ایک انقلابی شاعر ہی نہیں ایک عظیم سیاسی کارکن بھی تھااس لئے جب ذوالفقارعلی بھٹو کو ضیاء الحق نے تختہ دار پرلٹکادیا اور جس طرح بھٹو نے مصلحت کی بجائے موت کو گلے لگایا تو جالب نے اپنا سارا وہ کلام جو اس نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لکھا تھا،یہ کہہ کراس سے دستبردار ہوگیاکہ "بھٹو نے اپنی خامیوں کا کفارہ اداکردیا ہے"چلتے چلتے ایوب خاںکے دور حکومت کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا جو گوجرانوالہ بار میں شیخ اسلم ایڈووکیٹ ہمیں سنایا کرتے تھے۔شیخ صاحب بائونڈری کمشن کے ممبر،سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اور سندھ کے گورنر شیخ دین محمد کے بیٹے تھے۔ڈسٹرکٹ اٹارنی کے عہدے سے ریٹائر ہوکر باقی ساری زندگی گوجرانوالہ بار کو زعفران زار بنانے کے علاوہ دیگر وکلاء کو اپنے تجربات اور علم سے فیض یاب کرتے رہے ۔بڑے بذلہ سنج ،مرنجان مرنج اور دبنگ آدمی تھے۔ان کے سب ساتھی اور ہمجولی آہستہ آہستہ دنیا سے کوچ کرگئے ،کچھ ان سے پہلے اور کچھ بعد میں۔ان کے نیاز مندوں میں میرے علاوہ ملک شوکت علی اعوان ،چوہدری اعجاز چھٹہ،ملک نواز،شیخ احمد ریاض ،چوہدری عارف چٹھہ اور چند وکلاء ہی باقی رہ گئے ہیںاللہ سب کو صحت اور لمبی عمر عطا کرے ۔(آمین)ٓواقعہ سنانے سے پہلے بتادوں کہ حبیب جالب جب بھی گوجرانوالہ آتے تو بار میں ان کا آنا لازمی ہوتا ایک تو چوہدری جلیل احمد خاں اور دوسرے شیخ اسلم صاحب کی وجہ سے ،ویسے تو مجھ ایسے بھی چاہنے والے بہت تھے۔میراتعلق تو لاہور سے قائم ہوچکا تھا جو مرتے دم تک رہا۔جالب کا جب آناہوتاتودوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے شیخ اسلم کی ذہانت اور جرات کی بڑی تعریف کرتے۔جگر دارآدمی کو جگر دار آدمی ویسے بھی بھاتا ہے اور اس کی عزت وہ دل سے کرتا ہے۔واقعہ یہ تھاکہ 1965کی جنگ میں حبیب جالب پر D.P.Rیعنی "ڈیفینس آف پاکستان رولز"کے تحت مقدمہ درج ہوگیا یہ منحوس اور کالا قانون 1973ء کے آئین کی تخلیق کے بعد بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ قائم رہا ۔جب جالب پر مقدمہ درج ہواتو انسانی حقوق کے اصل اور اولین چیمپئن میاں محمود علی قصوری ان کی ضمانت قبل از گرفتاری کروانے عدالت چلے گئے۔اسی عدالت میں شیخ اسلم سرکاری وکیل تھے۔انہوں نے میاں صاحب سے کہا کہ جتنی مرضی ہے بحث کرلیں،سارا قانون عدالت میں بیان کردیں لیکن جب تک میں نہ چاہوں گا یہ ضمانت نہیں ہوسکتی ۔میاں صاحب مقدمے کا تمام پہلوئوں سے جائزہ لے کراس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ضمانت نہیں ہوگی۔شیخ اسلم کے ساتھ ان کا اپنا بھی ایک تعلق خاطر تھا۔انہوں نے شیخ صاحب کو درخواست کی کہ جالب میراہی نہیںتمہارا بھی دوست ہے کچھ کروکہ وہ جیل نہ جائے اور آج ہی قبل از گرفتاری ضمانت کنفرم ہوجائے۔شیخ صاحب نے چھ عدد"وڈبائن "سگریٹ کی ڈبیوں کے عوض حامی بھرلی شیخ صاحب نے کسی کے کام آناہوتا یا دوستانہ قسم کا کوئی "بوجھ"کسی پر ڈالنا ہوتا چھ ڈبیاں وڈبائن سگریٹ کا ہدیہ ضرورلیتے۔جب قصوری صاحب اور حبیب جالب ضمانت کیلئے عدالت میں پیش ہوئے تو ایف ۔آئی ۔آر کے مطابق جالب پر الزام تھا کہ اس نے کوئی ایسی نظم پڑھی ہے جس میں اس نے کہا کہ جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا توہمارے حکمران اور جرنیل غافل لوگ تھے جو معاملات کو درست طریقے سے سنبھال نہ سکے اور صرف عوام کے آہنی عزم نے ہی پاکستان کو بچایا ہے ۔قصوری صاحب نے ایف آئی آر پڑھ کر اپنے دلائل ختم کئے تو عدالت نے سرکاری وکیل شیخ اسلم کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا ۔جس پر شیخ صاحب نے اپنے کوٹ کی بغلی جیب میں سے روز نامہ"پاکستان ٹائمز"کا ایک پرچہ نکال کر عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے کہنے سے کیا ہوگا۔یہ صدر مملکت ایوب خاں کا اپنا ایک بیان ہے کہ"جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میں سورہا تھااور میرے ملٹری سیکرٹری نے جگاکر اس حملے کی بابت آگاہ کیااور یہ عوام کا عزم صمیم ہے جس نے دشمن کے دانت کھٹے کردیئے" شیخ اسلم صاحب نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ ہوسکتا ہے کہ ملزم یعنی اس شاعر نے اسی واقعہ کو اپنی شعری تخلیق میں ڈھال لیاہو۔ساتھ ہی عدالت سے یہ گذارش بھی کردی کہ جناب بہتر ہوگا کہ جب جنگ ہورہی ہے توکسی پاکستانی شاعر کو جیل نہ ڈالاجائے ۔ادیب اورشاعر جنگوں میں ہمیشہ افواج اور عوام کا حوصلہ بڑھاتے ہیں ۔آگے آپ کی مرضی ۔کوئی نیک دل جج ہوگا جس نے فورا جالب کی ضمانت کنفرم کردی اور یوں تینوں ھنسی خوشی کمرہ عدالت سے باہر آگئے ۔MRDکی جدوجہد میں حبیب جالب کے ساتھ میں کوٹ لکھپت جیل اور سنٹرل جیل ساہیوال کے بلا خانے میں چھ ماہ تک نظر بندرہا ہوں۔جیل کے بھی کئی دلچسپ واقعات ہیں ۔ایک بار کوٹ لکھپت جیل کا سپریٹنڈنٹ رشید قریشی قیدیوں کے دورے پر آیاتو جالب نے نیکراور بنیان پہن رکھی تھی ۔سپریٹنڈنٹ نے کہا کہ کم از کم میرے دورے کے موقع پر پورے کپڑے پہن لیاکریںتو جالب نے جواب دیاکہ جناب یہ بھی آپ کی نظر کاکرشمہ ہے جو یہ نیکر آپ کو نظر آرہی ہے ورنہ ہمارے کپڑے تو حکمرانوں نے کب کے اتار لئے ہیں ۔ میں توایک سیاسی کارکن ہوں،شاعرنہیں ۔میںنے حبیب جالب کو ہمیشہ سیاست کے ترازومیں تولا اور وہ ہمیشہ 24قیراط کا سونا نکلا۔ سچ کسی نے شعر میں لکھا ہو یا مجید نظامی اور آغا شورش کی طرح صحافت کی پرخار وادی میں لکھا ہو۔کسی جلسہ عام میں کہا ہو یا کسی کال کوٹھڑی میں کوئی کتاب لکھ کرہمیشہ غالب آتا ہے۔ دنیا بھر میں کسی بھی شاعر کو اتنے سامعین میسر نہیں ہو سکے جتنے حبیب جالب کو۔ وہ مزاحمتی وانقلابی شاعری کی اس کہکشاں کا ایک ایسا ستارہ تھا جس میں پبلو نارودا، ناظم حکمت، محمود درویش، رابندر ناتھ ٹیگور، ساحر لدھیانوی، سردار جعفری، مایا کووسکی اور آغا شورش قطار اندرقطار کھڑے نظر آتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38