’’بااثر‘‘ نجی اسکولوںکی فیسوں میں لوٹ مار…
لفظ’ با اثر ‘ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔جب ’’ با اثر نجی اسکول‘‘ کہا جا ئے تو ہر خاص و عام بخوبی جان جاتا ہے کہ یہاں ’’ با اثر ‘‘سے مراد اِ ن نجی اسکولوں کی پُشت پر ایک با اثر طاقت ہے جِس کے سامنے قانون اور قاعدے کی کوئی حیثیت نہیں۔کیا محکمہء تعلیم اور کیا کوئی اور ادارہ…یہ ہی سب سے مقتدر ہیں۔ یہاں گلی محلے کے ’ انگریزی ناموں ‘ والے اسکول مراد نہیںبلکہ صرف وہ دو چار اسکول ہیں جو آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی ۔اِس کی ایک مِثال پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے حکم دیا کہ اسلام آباد کے گھروں میں قائم کردہ تمام کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں کہیں اور منتقل کر دی جائیں۔اِس پر تیز رفتاری سے عمل ہوتا نظر بھی آیا ۔بیوٹی پارلر، ٹیوشن سنیٹر،بوتیک، پراپرٹی والے اور ایسے بہت سے دوسرے لوگ وہاںسے چلے گئے۔ لیکن رہائشی علاقوں میں مکانوں کے بیچ، یہ نام نہاد’ خواص ‘‘ اسکول ’’ ڈنکے کی چوٹ‘‘ پر بدستور قائم رہے۔ چوہدری نثار اپنے دور کے دبنگ وزیر کہلائے جاتے ہیں لیکن ان اسکولوں کو رہائشی علاقے سے نکالنا تو دور کی بات …اِن کے وہاں سے ہٹائے جانے کے بارے میں ایک لفظ نہیں بولے۔ جب ہی تویہ اسکول اپنے آپ کو با اثر کہلاتے ہیں۔ اِس سے اندازہ لگا لیجئے کہ چونکہ وہ ’ با اثر ‘ ہیں لہٰذ ا قاعدے قانون سے مبرا ہیں۔اس لئے ان کا استحقاق ہے کہ وہ جو جی چاہے کر یں کوئی اُن سے پوچھ کے تو دکھائے !
والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو اِن ’ اشرافیہ ‘ اسکولوں میں بھیجتے ہیں لیکن آئے دن کی بڑھتی ہوئی فیسوں نے عام آدمی کا بھُرکس نکال دیا ہے ۔مالی طور پر کمزور والدین اخبارات میں ایڈیٹر کے نام ڈاک میں ان با اثر اسکو لوں کے بارے میں لکھ کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں ، جو شائع ہوتا رہتا ہے۔ البتہ کورٹ کچہری جانے کی حیثیت ولے والدین انفرادی اور اجتما عی طور پر اِن با اثر اسکولوں کے خلاف کیس کر چکے ہیں لیکن ابھی تک تو کوئی بال بیکا بھی نہیں ہو سکا۔یہ جب چا ہیںفیس بڑھا دیں اور بقول ’ انکل سرگم‘… ’’ کر لو جو کرنا ہے‘‘۔ ایساہی کچھ سندھ کے اسکولوں کا احوال ہے
اصولی طور پر نجی اسکول اپنی ٹیوشن فیس میں من مانے اضافے کا حق نہیں رکھتے۔اِن نجی اسکولوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ والدین اور اسکول انتظامیہ کے مابین ایک تحریری معاہدہ ہوتا ہے جِس کی رو سے فیسوں میں 5 فی صد سالانہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن نجی اسکول از خود فیسوں میں اضافے کے مجاز نہیں، اِس کے لئے صوبائی محکمہ اسکول ایجوکیشن کے متعلقہ سیکشن ڈائرکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنزکی منظوری درکار ہوتی ہے ۔کچھ عرصہ سے ملک میں جاری عدالتی ہلچل میں اِن نام نہاد اشرافیہ اسکولوں کی فیسوں میں ناجائز اضافے کے کیس بھی اعلی عدالتوں میں شنوائی کو پہنچے۔ اِس ضمن میںہائی کورٹ نے اپنے حکم نامے میں نجی اسکولوں کی فیسوں میں سالانہ 5 فی صد اضافے کی شِق ختم کر کے نیا’ طریقہ کار‘ وضع کرنے کی ہدایت کی کہ فیسوں کے تعین کا ’ طریقہ کار ‘ مسابقت کی بنیاد پر بنایا جائے ۔واضح ہو کہ 5 مارچ کو جاری ہونے والے عدالتی حُکم نامے میں 90دن کے اندر نئی قانون سازی کی ہدایت کی تھی۔
کراچی سمیت صوبے کے نجی اسکولوں کی فیسوں کے تعین اور اِس میں اضافے کے لئے نئی قانون سازی کے سلسلے میں صوبائی محکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے صرف نمائشی اقدام ہی سامنے آئے ہیں۔ عدالتی حکم کی روشنی میں سرے سے قانون سازی کے لئے اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا سکاجس کے باعث شہر کے’ با اثر‘ نجی اسکولوں نے نئے تعلیمی سال کے لئے ابھی سے فیسوں میں اضافے کے لئے کمر کس لی ہے ۔صوبائی محکمہ اسکول ایجوکیشن کے متعلقہ سیکشن ڈائرکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز کی جانب سے عدالتی حکم کے باوجود نجی اسکولوں کی فیسوں کے تعین اور اس میں سالانہ اضافے کے حوالے سے کسی طریقہ کار کی تیاری کی جا رہی ہے اور نہ ہی نجی اسکولوں کی فیسوں کو بڑھانے کا کوئی قابلِ قبول طریقہ سوچا جا رہا ہے۔اس ضمن میں کوئی کمیٹی قائم ہی نہیں کی گئی جو کراچی سمیت سندھ میں نجی اسکولوں کے لئے فیس مقرر کر سکے اور اجلاس بلا کر سفارشات محکمہ اسکول ایجوکیشن کے حوالے کر سکے۔ ذرائع کے مطابق ڈائریکٹر پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز سندھ ، ڈاکٹر منسوب صدیقی نے اس سلسلے میں محض ’ مصنوعی‘ خانہ پُری کرتے ہوئے ایک ’نوٹ‘ سیکریٹری اسکول ایجوکیشن اقبال درانی کو بھجوایا ہے جس میں 2005سے 2018تک نجی اسکولوں اور والدین کی جانب سے کی جانے والی قانونی جنگ کی تفصیل فراہم کی ہے۔آخر میں 5مارچ کے عدالتی حُکم نامے کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اِس عدالتی حکم نامے کے بعد انہوں نے اس آرڈر کی تصدیق شدہ کاپی عدالت سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ نئے قوانین کی تیاری کے لئے ایڈووکیٹ جنرل سے وقت مانگا ہے ،نیز مزید ایک اسپیشل سیکریٹری برائے تعلیم سے اس سلسلے میں راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ملاقات کی، ادھر ذرائع کہتے ہیں کہ اگر صوبائی حکومت نجی اسکولوں کی فیسوں کے تعین اور اس میں اضافے کے لئے 90 روز میں قانون سازی نہ کر سکی تو اس کا براہِ راست فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر کے نجی اسکول اپنی من مانی فیسوں کا تعین اور اس میں سالانہ اضافہ کریں گے جِس سے والدین کی جانب سے کی جانے والی قانونی جدوجہد ایک دفعہ پھر ناکام ہو جائے گی۔
اِس ساری کہانی میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ڈائریکٹوریٹ آف پرایئویٹ انسٹی ٹیوشنز میں تعینات ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ڈاکٹر منسوب صدیقی وہ واحد افسر ہیں جو صوبائی محکمہ اسکول ایجوکیشن میں گزشتہ 14سال سے مسلسل تعینات ہیں۔اُن کی اِس مسلسل تعیناتی کے سبب با اثر نجی اسکولوں کی انتظامیہ اور اِن میں ’اعتماد سازی ‘کی فضا اِس حد تک بن گئی ہے کہ وہ اِن اسکولوں کے خلاف کسی بھی شکایت پر کان دھرتے ہیں اور نہ ہی اِن اسکولوں کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے۔’’ کیس عدالت میں چل رہا ہے…‘‘ کا بہانہ بنا کر والدین اور صحافیوں کو ٹال دیا جاتا ہے۔
محکمہ اسکول ایجوکیشن اور حکومتِ سندھ میں بیٹھے سرکاری افسران بھی ان کے ذریعے اِن نام نہاد ’ اشرافیہ‘ اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخل کرانے کے لئے انہی کو تعینات رکھنا چاہتے ہیں تاہم موصوف کی 14برس کی مسلسل تعیناتی سے پورا ڈائر یکٹو ریٹ آف پرایئویٹ انسٹی ٹیوشنز غیر فعال ہو کر رہ گیاہے۔ مزید ستم یہ کہ فون پر بات سُننا تو الگ رہا… وہ تو اپنے دفتر سے بھی عدالتی کیسوں کا بہانہ بنا کر اکثر غائب رہتے ہیں۔ موصوف کا زیادہ تر دفتری وقت اِن اسکولوں میںسرکاری افسران کے بچوں کے داخلے کرانے میں لگ جاتا ہے۔ذرائع کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ضمن میں مسئلہ کو سلجھانے کے لئے ایک مناسب طریق کار تیار کر لیا ہے اور محکمہ قانون سے تعلق رکھنے والے افراد کی کمیٹی جلد بن جائے گی ۔ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے سلسلے میںالیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ ملاقاتوں کے ساتھ انسداد پولیو مہم اور دیگر سرکاری مصروفیات کی وجہ سے نجی اسکولوں کی فیسوں کے معاملہ کو دیکھنے کا وقت نہیں نکال پا رہا ہوں۔ کیا کمال کی بات کہی کہ جو اُن کے منصب کا اصل کام ہے اُس کے کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں۔