محمد انیس الرحمن
متحدہ کے ساتھ پرانی تنخواہ پر معاملات طے کرنے کے لئے صدر زرداری نے ملاقاتوں کا جو شیڈول طے کیا اس میں ٹائمنگ خاصی سوچ بچار کے بعد ترتیب دی گئی تھی۔اسلام آباد کے بعض ذرائع تو یہاں تک کہتے ہیں کہ چند ہفتے قبل مونس الہی پر لائی جانے والی ”قانونی سختی“ بھی شاید اسی ٹائمنگ کا حصہ تھی۔قیاس آرائیاں کچھ بھی ہوں یہ بات طے ہے کہ دوستی کے پردے میں کراچی اور حیدرآباد پر قبضے کی جنگ پی پی اور متحدہ کے درمیان روز اول سے جاری ہے ۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اپنے آپ کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہنے والی پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا سیاسی اثررسوخ کھو چکی ہے اور یہی حال اب اسے سندھ کے دو بڑے شہروں میں اجنبی بنائے دے رہا ہے۔ خیبر پی کے اور بلوچستان میں اتحادی جماعتوں نے اس ”سب سے بڑی جماعت“ کی قبا سیاست کو پیوند زدہ کررکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق میں امریکی چھتر سایہ کے نیچے قائم ہونے والی ”جمہوری حکومت“ کو ان جوڑ توڑ کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس سے آج پیپلز پارٹی گذر رہی ہے۔ایسی صورت میں طاقت کے ایوان کے قریب تصور کئے جانے والے چند وزراءمخصوص ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ جس طرح وفاقی وزیر داخلہ بظاہر تو داخلہ کے وزیر ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ ان کی ذمہ داری ”متحدہ کے امور“نمٹانا ہیں اور تاحال وہ یہ ”ذمہ داری“ خاصی محنت سے نبھا رہے ہیں ۔
سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے جب کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف سخت زبان استعمال کی تو متحدہ نے شدید ردعمل دے کر بظاہر پیپلز پارٹی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا اس کے بعد آسمان نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی کے ایک وفد کے ساتھ سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نائن زیرو یاترہ میں رحمان ملک کے ہمراہ قدرے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ اب پیپلز پارٹی کو اس سیاسی جھٹکے کا جواب بھی ایک جھٹکے سے دینا تھا اور یہ جھٹکا لگانے کے لئے بھی حسب سابق ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو سامنے لایا گیا اور انہوں نے پیپلز امن کمیٹی کے حق میں بیان دے کر ٹھہرے ہوئے پانی میں پھر پتھر پھینک دیاجس پر متحدہ نے پھر روایتی سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ۔ لیکن اب کی مرتبہ ایوان صدر نے رحمن ملک کوحرکت دینے سے پہلے قاف لیگ کے چوہدری برادران کو چارے کے طور پر استعمال کیا ۔ رحمن ملک کی لندن میں الطاف حسین سے ملاقات سے قبل چوہدری برادران کی صدر زرداری سے ملاقات نے حکومت کے پلڑے میں کچھ وزن بڑھا دیا تھا۔ صدر زرداری نے قاف لیگ کو معاف کرکے متحدہ کو واضح پیغام دے دیاکہ ”تم نہیں تو اور سہی“۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مونس الہی پر مقدمات نہ بنتے تو کیا ”قاتل لیگ“ والے چودھری برادران صدر زرداری کے ساتھ بیٹھ سکتے تھے؟ ماضی میں چونکہ زرداری صاحب نے مقدمات اور جیلوں کا بہت سامنا کیا ہے اس لئے وہ اس کے استعمال کے تمام حربوں سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ غالبا یہی نسخہ انہوں نے اس مرتبہ چوہدری برادران پراستعمال کیا ہے ۔ کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ نواز شریف قاف لیگ کے دیگر ارکان کو تو قبول کرلیں گے لیکن چوہدری برادران کو نہیں۔اس لئے انہوں نے پاکستانی سیاست میں پیپلز پارٹی کا سندھ کارڈ محفوظ بنانے کے لئے ہر طریقہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر زرداری کے اہم ترین نو رتنوں نے انہیں خبر دے دی ہے کہ انتخابات کے بغیر موجودہ سال نکالنا مشکل ہوگا اور اگر اس سال ہی الیکشن ہوجاتے ہیں تو پنجاب میں پی پی پہلے سے زیادہ بری حالت میں آجائے گی اس صورتحال کو متوازن کرنے کے لئے سندھ میں پیپلز پارٹی کی نشستوں میں اضافہ انتہائی ضروری ہوگا جو یقینی بات ہے کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں ”شفاف انتخابات“ کے بغیر ممکن نہیں اور اگر ان شہروں میں انتخابات پھر متحدہ کے سیاسی اثر ورسوخ کے میںہوئے تو یہاں بھی صورتحال پیپلز پارٹی کے حق میں پہلے سے خراب نکلے گی۔ پنجاب میں ن لیگ کو جھٹکا دینے کے لئے عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے ساتھ مستقبل قریب میں وفاق کسی بھی شکل میں پینگیں بڑھا سکتا ہے کیونکہ پنجاب میں نواز شریف کی بے لچک سیاست نے نون لیگ کے ووٹ بینک کو خاصا نقصان پہنچایا ہے عمران خان جس انقلابی سیاست کی بات کررہے ہیں اس نے موجودہ مایوس کن سیاسی صورتحال میں نوجوانوں کو خاصا متحرک کیا ہے لیکن اس معاملے میں عمران کی جماعت پیپلز پارٹی کا ووٹ کم توڑ سکے گی جبکہ زیادہ نقصان نون لیگ کو اٹھانا پڑے گا اور ایوان صدر اس بات سے اچھی طرح واقف ہے۔
اس میں شک نہیں کہ چوہدری برادران نے پیپلز پارٹی کے ساتھ ”جمہوریت کی بقا “کے نام پر جو قدم اٹھایا ہے وہ انہیں بڑی حد تک سیاسی خودکشی کی جانب دھکیل سکتا ہے۔ صدر زرداری انہیں اسی وقت تک استعمال کریں گے جب تک متحدہ کو قومی اسمبلی میں کسی بھی ممکنہ حملے کے جواب میں نکیل ڈالنا مقصود ہو۔جہاں نواز شریف کے طرز عمل نے مسلم لیگوں کے اتحاد کے خواں حلقوں کو مایوس کیا ہے وہاں چوہدری برادران کا پیپلز پارٹی کے ساتھ قربتیں بڑھانا بھی زیادہ پسند نہیں کیا گیا ۔بظاہر یہ شریف برادران اور چوہدری برادران کی ذاتی لڑائی لگتی ہے لیکن اس کا نقصان مسلم لیگ کے ورکر کو ہوا ہے۔جولائی کا مہینہ بعض زیرک حلقوں کے نزدیک موجودہ پاکستانی سیاست میں فیصلہ کن مہینہ ہوسکتا ہے۔ اس مہینے سے پہلے جو تبدیلیاں آہستہ آہستہ ہورہی ہیں وہ یکدم تیزی اختیار کرلیں گی۔ بلوچستان اور کراچی کے مسائل کا حل ہی پاکستان کے مسائل کا حل ہے اور اس حل کی جانب جولائی کے بعد تیزی اور طاقت سے توجہ دی جاسکتی ہے۔۔۔
متحدہ کے ساتھ پرانی تنخواہ پر معاملات طے کرنے کے لئے صدر زرداری نے ملاقاتوں کا جو شیڈول طے کیا اس میں ٹائمنگ خاصی سوچ بچار کے بعد ترتیب دی گئی تھی۔اسلام آباد کے بعض ذرائع تو یہاں تک کہتے ہیں کہ چند ہفتے قبل مونس الہی پر لائی جانے والی ”قانونی سختی“ بھی شاید اسی ٹائمنگ کا حصہ تھی۔قیاس آرائیاں کچھ بھی ہوں یہ بات طے ہے کہ دوستی کے پردے میں کراچی اور حیدرآباد پر قبضے کی جنگ پی پی اور متحدہ کے درمیان روز اول سے جاری ہے ۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اپنے آپ کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہنے والی پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا سیاسی اثررسوخ کھو چکی ہے اور یہی حال اب اسے سندھ کے دو بڑے شہروں میں اجنبی بنائے دے رہا ہے۔ خیبر پی کے اور بلوچستان میں اتحادی جماعتوں نے اس ”سب سے بڑی جماعت“ کی قبا سیاست کو پیوند زدہ کررکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق میں امریکی چھتر سایہ کے نیچے قائم ہونے والی ”جمہوری حکومت“ کو ان جوڑ توڑ کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس سے آج پیپلز پارٹی گذر رہی ہے۔ایسی صورت میں طاقت کے ایوان کے قریب تصور کئے جانے والے چند وزراءمخصوص ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ جس طرح وفاقی وزیر داخلہ بظاہر تو داخلہ کے وزیر ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ ان کی ذمہ داری ”متحدہ کے امور“نمٹانا ہیں اور تاحال وہ یہ ”ذمہ داری“ خاصی محنت سے نبھا رہے ہیں ۔
سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے جب کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف سخت زبان استعمال کی تو متحدہ نے شدید ردعمل دے کر بظاہر پیپلز پارٹی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا اس کے بعد آسمان نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی کے ایک وفد کے ساتھ سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نائن زیرو یاترہ میں رحمان ملک کے ہمراہ قدرے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ اب پیپلز پارٹی کو اس سیاسی جھٹکے کا جواب بھی ایک جھٹکے سے دینا تھا اور یہ جھٹکا لگانے کے لئے بھی حسب سابق ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو سامنے لایا گیا اور انہوں نے پیپلز امن کمیٹی کے حق میں بیان دے کر ٹھہرے ہوئے پانی میں پھر پتھر پھینک دیاجس پر متحدہ نے پھر روایتی سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ۔ لیکن اب کی مرتبہ ایوان صدر نے رحمن ملک کوحرکت دینے سے پہلے قاف لیگ کے چوہدری برادران کو چارے کے طور پر استعمال کیا ۔ رحمن ملک کی لندن میں الطاف حسین سے ملاقات سے قبل چوہدری برادران کی صدر زرداری سے ملاقات نے حکومت کے پلڑے میں کچھ وزن بڑھا دیا تھا۔ صدر زرداری نے قاف لیگ کو معاف کرکے متحدہ کو واضح پیغام دے دیاکہ ”تم نہیں تو اور سہی“۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مونس الہی پر مقدمات نہ بنتے تو کیا ”قاتل لیگ“ والے چودھری برادران صدر زرداری کے ساتھ بیٹھ سکتے تھے؟ ماضی میں چونکہ زرداری صاحب نے مقدمات اور جیلوں کا بہت سامنا کیا ہے اس لئے وہ اس کے استعمال کے تمام حربوں سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ غالبا یہی نسخہ انہوں نے اس مرتبہ چوہدری برادران پراستعمال کیا ہے ۔ کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ نواز شریف قاف لیگ کے دیگر ارکان کو تو قبول کرلیں گے لیکن چوہدری برادران کو نہیں۔اس لئے انہوں نے پاکستانی سیاست میں پیپلز پارٹی کا سندھ کارڈ محفوظ بنانے کے لئے ہر طریقہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر زرداری کے اہم ترین نو رتنوں نے انہیں خبر دے دی ہے کہ انتخابات کے بغیر موجودہ سال نکالنا مشکل ہوگا اور اگر اس سال ہی الیکشن ہوجاتے ہیں تو پنجاب میں پی پی پہلے سے زیادہ بری حالت میں آجائے گی اس صورتحال کو متوازن کرنے کے لئے سندھ میں پیپلز پارٹی کی نشستوں میں اضافہ انتہائی ضروری ہوگا جو یقینی بات ہے کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں ”شفاف انتخابات“ کے بغیر ممکن نہیں اور اگر ان شہروں میں انتخابات پھر متحدہ کے سیاسی اثر ورسوخ کے میںہوئے تو یہاں بھی صورتحال پیپلز پارٹی کے حق میں پہلے سے خراب نکلے گی۔ پنجاب میں ن لیگ کو جھٹکا دینے کے لئے عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے ساتھ مستقبل قریب میں وفاق کسی بھی شکل میں پینگیں بڑھا سکتا ہے کیونکہ پنجاب میں نواز شریف کی بے لچک سیاست نے نون لیگ کے ووٹ بینک کو خاصا نقصان پہنچایا ہے عمران خان جس انقلابی سیاست کی بات کررہے ہیں اس نے موجودہ مایوس کن سیاسی صورتحال میں نوجوانوں کو خاصا متحرک کیا ہے لیکن اس معاملے میں عمران کی جماعت پیپلز پارٹی کا ووٹ کم توڑ سکے گی جبکہ زیادہ نقصان نون لیگ کو اٹھانا پڑے گا اور ایوان صدر اس بات سے اچھی طرح واقف ہے۔
اس میں شک نہیں کہ چوہدری برادران نے پیپلز پارٹی کے ساتھ ”جمہوریت کی بقا “کے نام پر جو قدم اٹھایا ہے وہ انہیں بڑی حد تک سیاسی خودکشی کی جانب دھکیل سکتا ہے۔ صدر زرداری انہیں اسی وقت تک استعمال کریں گے جب تک متحدہ کو قومی اسمبلی میں کسی بھی ممکنہ حملے کے جواب میں نکیل ڈالنا مقصود ہو۔جہاں نواز شریف کے طرز عمل نے مسلم لیگوں کے اتحاد کے خواں حلقوں کو مایوس کیا ہے وہاں چوہدری برادران کا پیپلز پارٹی کے ساتھ قربتیں بڑھانا بھی زیادہ پسند نہیں کیا گیا ۔بظاہر یہ شریف برادران اور چوہدری برادران کی ذاتی لڑائی لگتی ہے لیکن اس کا نقصان مسلم لیگ کے ورکر کو ہوا ہے۔جولائی کا مہینہ بعض زیرک حلقوں کے نزدیک موجودہ پاکستانی سیاست میں فیصلہ کن مہینہ ہوسکتا ہے۔ اس مہینے سے پہلے جو تبدیلیاں آہستہ آہستہ ہورہی ہیں وہ یکدم تیزی اختیار کرلیں گی۔ بلوچستان اور کراچی کے مسائل کا حل ہی پاکستان کے مسائل کا حل ہے اور اس حل کی جانب جولائی کے بعد تیزی اور طاقت سے توجہ دی جاسکتی ہے۔۔۔