خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا‘ جعلی اسلحہ لائسنس وزارت داخلہ کی ملی بھگت سے جاری ہوئے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ریڈیو نیوز + آن لائن) سپریم کورٹ نے وزارت داخلہ کی جانب سے جعلی اسلحہ لائسنس کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ یہ بہت بڑا سکینڈل ہے جس میں قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا‘ جعلی اسلحہ لائسنس وزارت داخلہ کی ملی بھگت سے جاری ہوئے۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق سپریم کورٹ نے جعلی اسلحہ لائسنس کےس میں جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ کو آج طلب کر لیا ہے جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ یہ بہت بڑا سکینڈل ہے جس میں ملک کو بڑا مالی نقصان پہنچایا گیا۔ عدالت نے مقدمہ کی تیاری نہ کرنے پر ڈپٹی اٹارنی جنرل علیم عباسی پر برہمی کا اظہار کیا اور انہیں آج مقدمہ کی تیاری کر کے آنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ ملزم شہزاد کے وکیل طارق محمود نے کہا جعلسازی سے میرے موکل کا تعلق نہیں وزارت د اخلہ نے باقاعدہ اشتہار دیا تھا جس کی روشنی میں میرے موکل نے ٹھیکہ لیا‘ اگر کوئی جعلسازی ہوئی ہے تو اس میں وزارت داخلہ کے اہلکار ملوث ہیں جبکہ مبینہ طور پر ملوث تین سیکشن آفیسر ضمانت کرا چکے ہیں‘ چیف جسٹس نے کہا حکومت نے ضمانت منسوخی کے لئے عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا‘ مزید سماعت آج 17مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔ ریڈیو نیوز کے مطابق جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے نامکمل تفتیش پر ایف آئی اے کے انسپکٹر آفتاب اور کیس کی تیاری کے بغیر آنے پر ڈپٹی اٹارنی جنرل علیم عباسی کی سخت سرزنش کی اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک غیرمتعلقہ شخص کس طرح وزارت داخلہ میں بغیر کسی اتھارٹی کے اسلحہ لائسنس جاری کرتا رہا؟ یہ سب وزارت داخلہ کے ملازمین کی ملی بھگت سے کیا گیا ہے۔ جسٹس (ر) طارق محمود نے کہا کہ چالان اسلئے پیش نہیں کیا گیا کیونکہ سائبر کرائم کیلئے عدالت نہیں جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مجھے آج ہی کیس بھجوایا گیا ہے۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے ریمارکس میں کہا یہ بڑا سکینڈل ہے جس میں قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا‘ ملزم شہزاد کے وکیل طارق محمود نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ ان کے موکل کو جعلسازی میں پھنسایا جارہا ہے۔ میرے موکل کا کمپیوٹر سرور عارضی طور پر استعمال کیا گیا تھا اب سارا الزام میرے موکل پر ڈال کر وزارت داخلہ کے اپنے ملوث سیکشن آفیسروں کو بچایا جا رہا ہے انہیں عدالت سے بری بھی کر دیا گیا جبکہ میرا ملزم ابھی تک جیل میں ہے ایف آئی اے کے انکوائری آفیسر نے عدالت کو بتایا کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا‘ چیف جسٹس نے کہا معاہدہ نہیں ہوا تھا تو مذکورہ ملزم وزارت داخلہ میں کیسے گھس گئے تھے یہ ایک حساس اور بڑا سکینڈل ہے۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل علیم عباسی کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا آپ کیس کو پڑھ کر کیوں نہیں آتے آپ کو کسی سوال کا جواب معلوم نہیں صرف فائلیں بغل میں دبا کر آگئے ہیں آئندہ سماعت پر مکمل تیاری کر کے آئیں۔