کاغذ کی قیمت میں اضافے سے نصافی کتابوں کی قیمت میں دس فیصد اضافہ ہو جائیگا‘ طلبہ کیلئے نصابی کتب خریدنا ناممکن ہو جائیگا‘ حکومت قابو پائے۔
اگر مہنگائی اتنی ہی عزیز ہے تو سامانِ تعیش کو مہنگا کریں‘ ملک میں قیمتی شرابوں کی درآمد بند کریں‘ ارباب حکومت اپنے محلات میں قیمتی درآمدی اشیائ‘ آرائش و زیبائش کیلئے مت منگوائیں۔ 1947ء سے لے کر آج تک ہم علم کے دشمن اور تعیش کے دوست رہے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ آج قوموں کی صف میں جس جگہ کھڑے ہیں‘ وہاں کوئی گدھا بھی کھڑا ہونا اپنی توہین سمجھتا ہے اور اس طرح رسوائی اور ترقی نہ کرنے کا سبب علم کی ناقدری ہے اور علم سارے کا سارا کاغذ پر چھپتا ہے‘ پھر قوم کے نونہالوں تک پہنچتا ہے‘ اس کے بعد سکالر‘ سائنس دان اور قابل افراد پیدا ہوتے ہیں چونکہ ہمارا ملک ایک غریب ملک ہے اور علم کی خاطر مصارف نہیں اٹھا سکتا۔ مگر افسوس کہ عیش و نشاط کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔
کاغذ کی قیمت میں اضافے سے کتابیں اتنی مہنگی ہو جائیں گی کہ طلبہ کیلئے نصابی کتابیں خریدنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ کاغذ کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پنجاب ٹیکسٹ بنک بورڈ سال رواں میں کلاس اول سے کلاس دہم تک کی نصابی کتب کی قیمتوں میں اضافہ کر رہا ہے اور آئندہ ماہ چھپنے والی تمام نصابی کتابیں اور کاپیاں جس میں کالج اور یونیورسٹی کی سطح کی نصابی کتب بھی شامل ہیں۔
کاغذ کی قیمتوں کے اضافے کے باعث تقریباً دس فیصد مہنگی ہو جائیں گی‘ حکومت پاکستان کاغذ کی مہنگائی پر فوراً قابو پائے وگرنہ یہ ملک اور بھی جہالت کی تاریکی میں ڈوب جائیگا۔
٭…٭…٭…٭
وزیر دفاع چودھری احمد مختار نے کہا ہے کہ دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح شواہد مل گئے‘ حکومت بھارت کیخلاف شواہد کی تحقیقات کر رہی ہے‘ قوم جلد فوج کے ساتھ مل کر دہشت گردی کو ملک سے باہر نکال دیگی۔
وزیر دفاع کا بیان یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ اپنا دفاع کر رہے ہوں‘ پولیس افسران نے انہیں جو سب اچھا کی تصویر دکھا دی ہے‘ وہ انہوں نے قوم سے بیان کر دی کہ یہ کیسی عجیب بات ہے‘ ایک طرف تو وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ شواہد مل گئے ہیں‘ دوسری طرف وہ یہ فرما رہے ہیں کہ شواہد پر تحقیقات کر رہے ہیں۔
ہماری ہر حکومت مذاکرات اور تحقیقات کی بڑی شوقین رہی ہے‘ اس لئے ان دونوں سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اور بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ بہرحال تکا ہی سہی‘ مگر بیٹھا ٹھیک ہے کہ واقعتاً یہ ’’را‘‘ کی کارستانی ہے مگر ’’را‘‘ اکیلی نہیں‘ اسکے چچا زاد بھائی بلیک واٹر والے بھی اس میں شامل ہیں۔ اسکے علاوہ بھی سی آئی اے اور دیگر کئی امریکہ نواز پاکستان دشمن ایجنسیاں اس عمل میں شامل ہیں‘ مقصد پاکستان کو کمزور کرنا‘ افراتفری پھیلانا‘ کاروبار کو روکنا اور پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں کمزور کرنا ہے۔
اگر پاکستان امریکہ کو نکال باہر نہیں کر سکتا‘ ڈرون طیاروں کے حملے نہیں روک سکتا تو دہشت گردوں کو ملک سے باہر کیسے نکال سکتا ہے‘ ایسے دہشت گرد جن کو وہ ڈالروں کے پیڑے کھلاتا ہے۔
یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اس وقت ملک میں جس قدر خودکش قسم کی بیروزگاری موجود ہے‘ اسکے ہوتے ہوئے بے روزگار نوجوان بھی ڈالروں کی چکاچوند میں آکر اپنے ہی بھائیوں کا خون کر سکتے ہیں کیونکہ بھوک اور غربت سے زیادہ ظالم کوئی چیز نہیں ہے۔
٭…٭…٭…٭
اتوار بازاروں میں گریڈ بی کے پھل اور سبزیاں گریڈ اے میں فروخت ہو رہی ہیں۔
اس ملک میں استادوں کو تو اگلے گریڈ ملتے نہیں‘ سبزیاں اور پھلوں کو بآسانی مل جاتے ہیں۔ یہ اتوار بازار ہیں یا بے کار بازار کہ جو امریکہ کی طرح رویہ اپنا کر سستی اشیاء فراہم کرنے کی آڑ میں مہنگائی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اتوار بازار اور یوٹیلٹی سٹور کھول کر مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ پاکستان کے تمام بازاروں کو جب تک صحیح معنوں میں اتوار بازار نہیں بنایا جاتا اور آسمان سے باتیں کرنے والی مہنگائی زمین سے ہم کلام نہیں ہوتی‘ یہاں سے مہنگائی رخصت ہو گی‘ نہ امریکہ۔
آخر حکومت کوئی ایسا نیٹ ورک بنانے میں کیوں ناکام ہے جو اشیاء کے نرخ قائم کرکے انہیں دکانوں پر آویزاں کرکے پھر انکے چیک کرنے کا بندوبست کرکے مہنگائی کو کنٹرول کرے‘ کئی مرتبہ دکانداروں کو حکم دیا گیا کہ وہ حکومت کے مقرر کردہ نرخوں کی فہرست دکانوں کے ماتھے پر لٹکا دیں‘ مگر گاہک اسی طرح مہنگائی سے لٹکے رہے۔ اتوار بازاروں کو ختم کر دینا چاہئے اور ہر بازار کو اتوار بازار بنا دینا چاہئے۔ یہی مہنگائی کے روگ کا مکمل علاج ہے۔ اگر کسی یوٹیلٹی سٹور پر اشیاء قدرے سستی ملتی ہیں تو کیا اس سے دوسرے دکانداروں نے کبھی عبرت حاصل کی؟
جس طرح دکانداروں کی جو چیزیں بے کار ہو جاتی ہیں اور ان میں کوئی نقص پڑ جاتا ہے‘ وہ انہیں سالانہ نمائش میں نکال دیتے ہیں‘ اسی طرح جو بے کار سبزیاں‘ دوسری اشیاء خورد و نوش عام بازاروں میں نہیں بک سکتیں‘ وہ اتوار بازار کی زینت بنا دی جاتی ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ انہیں آخری گریڈ سے اٹھا کر اے گریڈ دیدیا جاتا ہے۔
اگر مہنگائی اتنی ہی عزیز ہے تو سامانِ تعیش کو مہنگا کریں‘ ملک میں قیمتی شرابوں کی درآمد بند کریں‘ ارباب حکومت اپنے محلات میں قیمتی درآمدی اشیائ‘ آرائش و زیبائش کیلئے مت منگوائیں۔ 1947ء سے لے کر آج تک ہم علم کے دشمن اور تعیش کے دوست رہے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ آج قوموں کی صف میں جس جگہ کھڑے ہیں‘ وہاں کوئی گدھا بھی کھڑا ہونا اپنی توہین سمجھتا ہے اور اس طرح رسوائی اور ترقی نہ کرنے کا سبب علم کی ناقدری ہے اور علم سارے کا سارا کاغذ پر چھپتا ہے‘ پھر قوم کے نونہالوں تک پہنچتا ہے‘ اس کے بعد سکالر‘ سائنس دان اور قابل افراد پیدا ہوتے ہیں چونکہ ہمارا ملک ایک غریب ملک ہے اور علم کی خاطر مصارف نہیں اٹھا سکتا۔ مگر افسوس کہ عیش و نشاط کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔
کاغذ کی قیمت میں اضافے سے کتابیں اتنی مہنگی ہو جائیں گی کہ طلبہ کیلئے نصابی کتابیں خریدنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ کاغذ کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پنجاب ٹیکسٹ بنک بورڈ سال رواں میں کلاس اول سے کلاس دہم تک کی نصابی کتب کی قیمتوں میں اضافہ کر رہا ہے اور آئندہ ماہ چھپنے والی تمام نصابی کتابیں اور کاپیاں جس میں کالج اور یونیورسٹی کی سطح کی نصابی کتب بھی شامل ہیں۔
کاغذ کی قیمتوں کے اضافے کے باعث تقریباً دس فیصد مہنگی ہو جائیں گی‘ حکومت پاکستان کاغذ کی مہنگائی پر فوراً قابو پائے وگرنہ یہ ملک اور بھی جہالت کی تاریکی میں ڈوب جائیگا۔
٭…٭…٭…٭
وزیر دفاع چودھری احمد مختار نے کہا ہے کہ دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح شواہد مل گئے‘ حکومت بھارت کیخلاف شواہد کی تحقیقات کر رہی ہے‘ قوم جلد فوج کے ساتھ مل کر دہشت گردی کو ملک سے باہر نکال دیگی۔
وزیر دفاع کا بیان یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ اپنا دفاع کر رہے ہوں‘ پولیس افسران نے انہیں جو سب اچھا کی تصویر دکھا دی ہے‘ وہ انہوں نے قوم سے بیان کر دی کہ یہ کیسی عجیب بات ہے‘ ایک طرف تو وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ شواہد مل گئے ہیں‘ دوسری طرف وہ یہ فرما رہے ہیں کہ شواہد پر تحقیقات کر رہے ہیں۔
ہماری ہر حکومت مذاکرات اور تحقیقات کی بڑی شوقین رہی ہے‘ اس لئے ان دونوں سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اور بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ بہرحال تکا ہی سہی‘ مگر بیٹھا ٹھیک ہے کہ واقعتاً یہ ’’را‘‘ کی کارستانی ہے مگر ’’را‘‘ اکیلی نہیں‘ اسکے چچا زاد بھائی بلیک واٹر والے بھی اس میں شامل ہیں۔ اسکے علاوہ بھی سی آئی اے اور دیگر کئی امریکہ نواز پاکستان دشمن ایجنسیاں اس عمل میں شامل ہیں‘ مقصد پاکستان کو کمزور کرنا‘ افراتفری پھیلانا‘ کاروبار کو روکنا اور پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں کمزور کرنا ہے۔
اگر پاکستان امریکہ کو نکال باہر نہیں کر سکتا‘ ڈرون طیاروں کے حملے نہیں روک سکتا تو دہشت گردوں کو ملک سے باہر کیسے نکال سکتا ہے‘ ایسے دہشت گرد جن کو وہ ڈالروں کے پیڑے کھلاتا ہے۔
یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اس وقت ملک میں جس قدر خودکش قسم کی بیروزگاری موجود ہے‘ اسکے ہوتے ہوئے بے روزگار نوجوان بھی ڈالروں کی چکاچوند میں آکر اپنے ہی بھائیوں کا خون کر سکتے ہیں کیونکہ بھوک اور غربت سے زیادہ ظالم کوئی چیز نہیں ہے۔
٭…٭…٭…٭
اتوار بازاروں میں گریڈ بی کے پھل اور سبزیاں گریڈ اے میں فروخت ہو رہی ہیں۔
اس ملک میں استادوں کو تو اگلے گریڈ ملتے نہیں‘ سبزیاں اور پھلوں کو بآسانی مل جاتے ہیں۔ یہ اتوار بازار ہیں یا بے کار بازار کہ جو امریکہ کی طرح رویہ اپنا کر سستی اشیاء فراہم کرنے کی آڑ میں مہنگائی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اتوار بازار اور یوٹیلٹی سٹور کھول کر مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ پاکستان کے تمام بازاروں کو جب تک صحیح معنوں میں اتوار بازار نہیں بنایا جاتا اور آسمان سے باتیں کرنے والی مہنگائی زمین سے ہم کلام نہیں ہوتی‘ یہاں سے مہنگائی رخصت ہو گی‘ نہ امریکہ۔
آخر حکومت کوئی ایسا نیٹ ورک بنانے میں کیوں ناکام ہے جو اشیاء کے نرخ قائم کرکے انہیں دکانوں پر آویزاں کرکے پھر انکے چیک کرنے کا بندوبست کرکے مہنگائی کو کنٹرول کرے‘ کئی مرتبہ دکانداروں کو حکم دیا گیا کہ وہ حکومت کے مقرر کردہ نرخوں کی فہرست دکانوں کے ماتھے پر لٹکا دیں‘ مگر گاہک اسی طرح مہنگائی سے لٹکے رہے۔ اتوار بازاروں کو ختم کر دینا چاہئے اور ہر بازار کو اتوار بازار بنا دینا چاہئے۔ یہی مہنگائی کے روگ کا مکمل علاج ہے۔ اگر کسی یوٹیلٹی سٹور پر اشیاء قدرے سستی ملتی ہیں تو کیا اس سے دوسرے دکانداروں نے کبھی عبرت حاصل کی؟
جس طرح دکانداروں کی جو چیزیں بے کار ہو جاتی ہیں اور ان میں کوئی نقص پڑ جاتا ہے‘ وہ انہیں سالانہ نمائش میں نکال دیتے ہیں‘ اسی طرح جو بے کار سبزیاں‘ دوسری اشیاء خورد و نوش عام بازاروں میں نہیں بک سکتیں‘ وہ اتوار بازار کی زینت بنا دی جاتی ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ انہیں آخری گریڈ سے اٹھا کر اے گریڈ دیدیا جاتا ہے۔