دنیا میں کوئی جنگ آج تک عوام کے تعاون کے بغیر نہیں جیتی جا سکی اور نہ ہی کوئی عوامی حکومت عوام کی مرضی اورتعاون کے بغیر کسی جنگ کا خطرہ مول لیتی ہے۔
ہماری موجودہ عظیم جمہوری حکومت دنیا کی وہ واحد حکومت ہے جو عوام کے تعاون کے بغیر دہشت گردی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ وہ شاید عوام کو اس قابل ہی نہیں سمجھتی کہ اُسے اعتماد میں لیا جائے۔ ہم 2002ء سے دہشت گردی کا شکار ہیں ۔ یہ جنگ ہمارے شہروں ، گلی محلوں اور بیرون ملک کی ایمبیسی تک پہنچ چکی ہے، ملک کی کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ درجنوں کے حساب سے لوگ ایک ایک واقعے میں شہید ہورہے ہیں۔ سینکڑوں کے حساب سے زخمی ہوتے ہیں ۔
پوری قوم نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ کتنے گھر اُجڑ چکے ہیں ۔ کتنے بے گناہ لوگ اس نامراد جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ہر واقعے کے بعد صدرِ محترم اور وزیر اعظم صاحب حادثے کی پر زور مذمت کرتے ہیں ۔ بعض اوقات مرنے والوں کے ورثاء کے لیے کچھ رقم کا اعلان بھی کیا جاتا ہے ۔ وزیر داخلہ صاحب واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اکثر ان الفاظ میں گوہر افشانی فرماتے ہیں ۔
’’ دہشت گرد ہمارے عزم کو شکست نہیں دے سکتے۔ہم دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر ہی دم لیں گے۔ ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے۔ دہشت گرد مسلمان نہیں ہیں۔دہشت گرد انسان نہیں ہیں۔‘‘وغیرہ وغیرہ
وہ جو کچھ بھی ہیں اپنا کام دیدہ دلیری سے کر رہے ہیں۔ایسے حکومتی بیانات عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں خصوصاً اس لحاظ سے کہ مرنے والوں میں ان بڑے لوگوں کا کوئی عزیز رشتہ دار شامل نہیں ہوتا۔ نہ ہی ان کا کوئی عزیز رشتہ دار فوج کے اُن دستوں میں شامل ہے جو وزیرستان کی یخ بستہ ہوائوں میں اپنے وطن کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ لوگ تو اتنی بلندی اور اتنے حفاظتی قلعوں میں پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں جہاں تک ان شعلوں کا دھواں بھی نہیں پہنچ سکتا۔ان کے شہزادے تو بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز کاروں میں پولیس حفاظتی سکواڈ کے ساتھ ہی باہر نکلتے ہیں۔ اس لیے بھلا ان عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے حفاظتی حصاروں میں رہنے والے اور حفاظتی گھیروں میں باہر نکلنے والے عوامی اور جمہوری راہنمائوں کو عوام کے دکھ درد کا کیا پتہ ۔ بقول بیمار، بوڑھی مائی جیواں کے جس کا واحد بیٹا اور واحد کفیل لاہور آر اے بازار کے خود کش دھماکے میں شہید ہو گیا :’’اِن کے اپنے مرتے تو انہیں پتہ چلتا ۔ خدا کرے کہ یہ بھی ہماری طرح ‘‘
معذرت خواہ ہو ں کہ بات ذرادوسری طرف چلی گئی ہے ۔ جنگ تو قوموں کی تاریخ کا حصہ ہے ۔ اس کے بغیر کوئی قوم کندن نہیں بنتی اور اس کے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوتی مگر افسوس یہ ہے کہ جنگ اس طرح غیر ذمہ دارانہ انداز میں نہیں لڑی جاتی جس طرح ہماری حکومت لڑ رہی ہے۔
’’لڑنے‘‘ کا لفظ استعمال کرنا بھی شاید زیادتی ہے بلکہ جس طرح ہماری حکومت اپنے بے گناہ لوگوں کو ’’مروا‘‘ رہی ہے ۔کیا حکومت کے چند بے تکے ، منافقانہ، اور بے مقصد بیانات مرنے والے خاندانوں کے غم کا مداوا کر سکتے ہیں ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان واحد ملک ہے جسے دہشت گردی کا سامنا ہے ؟ نہیں ایسا نہیں ہے اور بھی کئی ایک ممالک اس کا شکار ہوئے ہیں لیکن انہوں نے مناسب حکمت عملی اور مؤثر اقدامات سے حالات پر قابو پا لیا۔
دور کیوں جائیں اپنے برادر ممالک ایران اور سعودی عرب ہی کی مثالیں لے لیں۔ انہیں ہم سے زیادہ خطرات ہیں لیکن انہوں نے دہشت گردوں کو فوری اور عوام کے سامنے مثالی سزائیں دیکر دہشتگردی پر قابو پا لیا۔ایران نے دہشت گرد تنظیم جند اللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی بلوچ کو کیسے پکڑا ہے ۔ اسے کہتے ہیں مؤثر قیادت اور قومی مفادات کا تحفظ۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا نے بھی ایسے ہی حالات کا مقابلہ کیاہے اور کر رہے ہیں۔حکومتی بلند و بانگ دعووں کے برعکس دہشتگردی میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ پہلے یہ فاٹا اور شاید صوبہ سرحد کے کچھ علاقوں تک محدود تھی مگر اب یہ پاکستان کے تمام شہروں تک پھیل چکی ہے اور روز بروز بڑھ رہی ہے ۔
پچھلے سال چھوٹے بڑے تقریباً 80کے قریب خودکش دھماکے ہوئے ۔ 1237بے گناہ شہید ہوئے اور 4ہزار کے قریب زخمی ہوئے ۔ اس سال شدت مزید بڑھ گئی ہے ۔ یکم جنوری سے 12مارچ تک 15خود کش دھماکے ہو چکے ہیں جن میں 325بے گناہ لوگ شہید ہوئے اور لگ بھگ 600زخمی ہوئے اگر یہ اعداد و شمار 2002ء سے لیے جاتے ہیں تو اب تک کی شہادتیں 10ہزار سے زیادہ ہیں اور زخمیوں کی تعداد لگ بھگ 16ہزار ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ ان سب حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم طالبان کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ۔ 3ہزار سے زیادہ فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ زخمی اور معذور ہونے والے فوجیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ حکومتی اور فوجی بیانات کے مطابق سوات، مالاکنڈ، باجوڑ، خیبر ایجنسی، اورکرزئی ایجنسی اور وزیرستان سے طالبان کی صفائی ہو چکی ہے یا وہ علاقے سے بھاگ کر کہیں روپوش ہو چکے ہیں۔ اُن کی صف اول کی قیادت بھی ماری جا چکی ہے ۔باقی ماندہ طالبان پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں ۔اُن کا نیٹ ورک بھی توڑا جا چکا ہے تو پھر وہ اتنے طاقتور کیسے ہو گئے ہیں کہ پاکستان کے ہر شہر اور ہر گلی میں دھماکے کرا لیں۔
ہمارے وزیر داخلہ کے بیانات کے مطابق بلیک واٹر بھی پاکستان میں موجود نہیں ۔پنجاب کے وزیر قانون کے بیانات کے مطابق جنوبی پنجاب میں بھی کوئی طالبان موجود نہیں جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ہمارے مذہبی اور حکومتی رہنمائوں کے مستند بیانات کے مطابق ہمارے دینی مدارس میں نہ تو طالبان ہیں اور نہ ہی دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے اور تو اور کالعدم بنیاد پرست مذہبی تنظیموں کو بھی دھماکوں سے بری الذمہ قرار دے دیا گیا ہے بلکہ پنجاب کے وزیر قانون نے تو انہیں قطعاً بیگناہ قرار دیا ہے۔ تو پھر یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں تباہی مچا رکھی ہے؟ ہر خود کش حملے کے بعد حملہ آوروں کے سر اوراعضاء بھی ملتے ہیں۔ مشتبہ لوگ بھی پکڑے جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ خود کش جیکٹس سمیت بھی لوگ پکڑے گئے ہیں ۔
ہمیشہ حکومتی بیان ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا ہے ۔ اخباری بیانات کے مطابق اب تک تقریباً 2800 ایسے مشتبہ یا اصلی خودکش بمبار حکومتی تحویل میں ہیں۔ اس کے بعد ان کا کوئی پتہ نہیں چلتا کہ یہ کون لوگ تھے یا ہیں ، ان کی جڑیں کہاں ملتی ہیں، ان کی پشت پر کون لوگ ہیں؟
آخر یہ لوگ آسمان سے تو نہیں اترے۔ حکومت کیوں نہیں ایسے لوگوں کو عوام کے سامنے لاتی۔ کیونکہ ان کے پس منظر ، ان کے سرپرست، ان کے خاندانوں کے متعلق چپ کا روزہ رکھ لیتی ہے۔ حکومت کیوں عوام کو اعتماد میں نہیں لیتی؟
ان حملوں کے تجزیے سے صاف نظر آتا ہے کہ یہ سب:
\\\"Well conceived, well planned and well executed\\\"
یعنی شاندار سوچ، شاندار منصوبہ بندی اور شاندار کارکردگی کے مظہر ہیں۔ ایسے حملے عام عوام یا عام تنظیم کے بس میں نہیں۔ ان کی پشت پر یقینا کوئی طاقتور ایجنسی کام کر رہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تحریک طالبان افغانستان سی آئی اے کی پیدا کردہ ہے اور تحریک طالبان پاکستان ’’را‘‘ اور’’ موساد‘‘ کا مشترکہ کارنامہ ہے۔ یہ حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی ماہر ایجنسی کام کر رہی ہے جو یقینا ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتی ۔ لیکن اس سلسلے میں بھی حکومتی رویہ ناقابل فہم ہے۔
2002ء سے اب تک بھارت میں جتنے بھی حملے ہوئے ہیں بھارت نے پاکستان پر الزام لگانے میں ایک سیکنڈ بھی دیر نہیں لگائی۔ ہمیں پوری دنیا کے سامنے ننگا کر دیا ۔دو دفعہ اپنی افواج با مقصدِ جنگ ہماری سرحدوں پر لے آیا۔ہم قصور وار تھے یا نہیںلیکن بھارت نے ہمیں مجرم ثابت کر کے ہی دم لیا۔ لیکن ہم اُس کا نام لیتے ہوئے بھی کانپتے ہیں۔
اب 12مارچ کے لاہور بم دھماکوں کا واقعہ ہی لے لیں جس نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ۔ شام کو بیان آیا کہ بھارت ملوث ہے ، دوسرے دن بیان آیا ’’شاید‘‘ بھارت ملوث ہے۔
اسی دوران بھارت کے وزیر داخلہ چدم برم کا بیان آیا کہ بھارت ملوث نہیں ۔ساتھ دھمکی بھی تھی کہ اگر اب پاکستان نے ممبئی طرز کا حملہ کیا تو پاکستان کو سبق سکھا دیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی ہماری حکومت کا رویہ تبدیل ہو گیا۔’’ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں ، شاید بھارت ملوث ہو۔‘‘ اس سے ہماری حکومت اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت یا تو نا اہل ہے یا بزدل یا پھر دونوں ۔ یہ وہ جنگ ہے جہاں عوام کا’’ مارے جانے‘‘ کے علاوہ کوئی اور کردارنہیں ، نہ ہی اس سلسلے میں حکومت کچھ بتاتی ہے۔ حکومت اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کی اسیر بن چکی ہے۔
ویسے بھی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ’’کرپٹ، نااہل، ذاتی مفادات کے اسیر قائدین ایرانی قائدین جیسی کارکردگی کے اہل نہیں ہو سکتے۔جس ملک میں سب سے بڑے صوبے کا وزیر قانون ووٹ حاصل کرنے کے لیے کالعدم دہشتگرد تنظیم کے لیڈروں کو اپنی سرکاری گاڑی میں لے کر پورے پروٹوکول کے ساتھ گھمائیں وہاں دہشت گردی پر قابو پانا ناممکن ہے۔
اب تو یقین ہوتا جا رہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان 1971ء کی مکتی باہنی کا ہی دوسرا جنم ہے۔ہماری موجودہ فوجی کاروائی کی طرح وہاں بھی 25مارچ 1971ء کو ایک فوجی کاروائی ہوئی تھی۔خدا کرے کہ اب کوئی اور یحییٰ خان ثابت نہ ہو۔
ہماری موجودہ عظیم جمہوری حکومت دنیا کی وہ واحد حکومت ہے جو عوام کے تعاون کے بغیر دہشت گردی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ وہ شاید عوام کو اس قابل ہی نہیں سمجھتی کہ اُسے اعتماد میں لیا جائے۔ ہم 2002ء سے دہشت گردی کا شکار ہیں ۔ یہ جنگ ہمارے شہروں ، گلی محلوں اور بیرون ملک کی ایمبیسی تک پہنچ چکی ہے، ملک کی کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ درجنوں کے حساب سے لوگ ایک ایک واقعے میں شہید ہورہے ہیں۔ سینکڑوں کے حساب سے زخمی ہوتے ہیں ۔
پوری قوم نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ کتنے گھر اُجڑ چکے ہیں ۔ کتنے بے گناہ لوگ اس نامراد جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ہر واقعے کے بعد صدرِ محترم اور وزیر اعظم صاحب حادثے کی پر زور مذمت کرتے ہیں ۔ بعض اوقات مرنے والوں کے ورثاء کے لیے کچھ رقم کا اعلان بھی کیا جاتا ہے ۔ وزیر داخلہ صاحب واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اکثر ان الفاظ میں گوہر افشانی فرماتے ہیں ۔
’’ دہشت گرد ہمارے عزم کو شکست نہیں دے سکتے۔ہم دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر ہی دم لیں گے۔ ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے۔ دہشت گرد مسلمان نہیں ہیں۔دہشت گرد انسان نہیں ہیں۔‘‘وغیرہ وغیرہ
وہ جو کچھ بھی ہیں اپنا کام دیدہ دلیری سے کر رہے ہیں۔ایسے حکومتی بیانات عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں خصوصاً اس لحاظ سے کہ مرنے والوں میں ان بڑے لوگوں کا کوئی عزیز رشتہ دار شامل نہیں ہوتا۔ نہ ہی ان کا کوئی عزیز رشتہ دار فوج کے اُن دستوں میں شامل ہے جو وزیرستان کی یخ بستہ ہوائوں میں اپنے وطن کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ لوگ تو اتنی بلندی اور اتنے حفاظتی قلعوں میں پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں جہاں تک ان شعلوں کا دھواں بھی نہیں پہنچ سکتا۔ان کے شہزادے تو بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز کاروں میں پولیس حفاظتی سکواڈ کے ساتھ ہی باہر نکلتے ہیں۔ اس لیے بھلا ان عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے حفاظتی حصاروں میں رہنے والے اور حفاظتی گھیروں میں باہر نکلنے والے عوامی اور جمہوری راہنمائوں کو عوام کے دکھ درد کا کیا پتہ ۔ بقول بیمار، بوڑھی مائی جیواں کے جس کا واحد بیٹا اور واحد کفیل لاہور آر اے بازار کے خود کش دھماکے میں شہید ہو گیا :’’اِن کے اپنے مرتے تو انہیں پتہ چلتا ۔ خدا کرے کہ یہ بھی ہماری طرح ‘‘
معذرت خواہ ہو ں کہ بات ذرادوسری طرف چلی گئی ہے ۔ جنگ تو قوموں کی تاریخ کا حصہ ہے ۔ اس کے بغیر کوئی قوم کندن نہیں بنتی اور اس کے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوتی مگر افسوس یہ ہے کہ جنگ اس طرح غیر ذمہ دارانہ انداز میں نہیں لڑی جاتی جس طرح ہماری حکومت لڑ رہی ہے۔
’’لڑنے‘‘ کا لفظ استعمال کرنا بھی شاید زیادتی ہے بلکہ جس طرح ہماری حکومت اپنے بے گناہ لوگوں کو ’’مروا‘‘ رہی ہے ۔کیا حکومت کے چند بے تکے ، منافقانہ، اور بے مقصد بیانات مرنے والے خاندانوں کے غم کا مداوا کر سکتے ہیں ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان واحد ملک ہے جسے دہشت گردی کا سامنا ہے ؟ نہیں ایسا نہیں ہے اور بھی کئی ایک ممالک اس کا شکار ہوئے ہیں لیکن انہوں نے مناسب حکمت عملی اور مؤثر اقدامات سے حالات پر قابو پا لیا۔
دور کیوں جائیں اپنے برادر ممالک ایران اور سعودی عرب ہی کی مثالیں لے لیں۔ انہیں ہم سے زیادہ خطرات ہیں لیکن انہوں نے دہشت گردوں کو فوری اور عوام کے سامنے مثالی سزائیں دیکر دہشتگردی پر قابو پا لیا۔ایران نے دہشت گرد تنظیم جند اللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی بلوچ کو کیسے پکڑا ہے ۔ اسے کہتے ہیں مؤثر قیادت اور قومی مفادات کا تحفظ۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا نے بھی ایسے ہی حالات کا مقابلہ کیاہے اور کر رہے ہیں۔حکومتی بلند و بانگ دعووں کے برعکس دہشتگردی میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ پہلے یہ فاٹا اور شاید صوبہ سرحد کے کچھ علاقوں تک محدود تھی مگر اب یہ پاکستان کے تمام شہروں تک پھیل چکی ہے اور روز بروز بڑھ رہی ہے ۔
پچھلے سال چھوٹے بڑے تقریباً 80کے قریب خودکش دھماکے ہوئے ۔ 1237بے گناہ شہید ہوئے اور 4ہزار کے قریب زخمی ہوئے ۔ اس سال شدت مزید بڑھ گئی ہے ۔ یکم جنوری سے 12مارچ تک 15خود کش دھماکے ہو چکے ہیں جن میں 325بے گناہ لوگ شہید ہوئے اور لگ بھگ 600زخمی ہوئے اگر یہ اعداد و شمار 2002ء سے لیے جاتے ہیں تو اب تک کی شہادتیں 10ہزار سے زیادہ ہیں اور زخمیوں کی تعداد لگ بھگ 16ہزار ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ ان سب حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم طالبان کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ۔ 3ہزار سے زیادہ فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ زخمی اور معذور ہونے والے فوجیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ حکومتی اور فوجی بیانات کے مطابق سوات، مالاکنڈ، باجوڑ، خیبر ایجنسی، اورکرزئی ایجنسی اور وزیرستان سے طالبان کی صفائی ہو چکی ہے یا وہ علاقے سے بھاگ کر کہیں روپوش ہو چکے ہیں۔ اُن کی صف اول کی قیادت بھی ماری جا چکی ہے ۔باقی ماندہ طالبان پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں ۔اُن کا نیٹ ورک بھی توڑا جا چکا ہے تو پھر وہ اتنے طاقتور کیسے ہو گئے ہیں کہ پاکستان کے ہر شہر اور ہر گلی میں دھماکے کرا لیں۔
ہمارے وزیر داخلہ کے بیانات کے مطابق بلیک واٹر بھی پاکستان میں موجود نہیں ۔پنجاب کے وزیر قانون کے بیانات کے مطابق جنوبی پنجاب میں بھی کوئی طالبان موجود نہیں جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ہمارے مذہبی اور حکومتی رہنمائوں کے مستند بیانات کے مطابق ہمارے دینی مدارس میں نہ تو طالبان ہیں اور نہ ہی دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے اور تو اور کالعدم بنیاد پرست مذہبی تنظیموں کو بھی دھماکوں سے بری الذمہ قرار دے دیا گیا ہے بلکہ پنجاب کے وزیر قانون نے تو انہیں قطعاً بیگناہ قرار دیا ہے۔ تو پھر یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں تباہی مچا رکھی ہے؟ ہر خود کش حملے کے بعد حملہ آوروں کے سر اوراعضاء بھی ملتے ہیں۔ مشتبہ لوگ بھی پکڑے جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ خود کش جیکٹس سمیت بھی لوگ پکڑے گئے ہیں ۔
ہمیشہ حکومتی بیان ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا ہے ۔ اخباری بیانات کے مطابق اب تک تقریباً 2800 ایسے مشتبہ یا اصلی خودکش بمبار حکومتی تحویل میں ہیں۔ اس کے بعد ان کا کوئی پتہ نہیں چلتا کہ یہ کون لوگ تھے یا ہیں ، ان کی جڑیں کہاں ملتی ہیں، ان کی پشت پر کون لوگ ہیں؟
آخر یہ لوگ آسمان سے تو نہیں اترے۔ حکومت کیوں نہیں ایسے لوگوں کو عوام کے سامنے لاتی۔ کیونکہ ان کے پس منظر ، ان کے سرپرست، ان کے خاندانوں کے متعلق چپ کا روزہ رکھ لیتی ہے۔ حکومت کیوں عوام کو اعتماد میں نہیں لیتی؟
ان حملوں کے تجزیے سے صاف نظر آتا ہے کہ یہ سب:
\\\"Well conceived, well planned and well executed\\\"
یعنی شاندار سوچ، شاندار منصوبہ بندی اور شاندار کارکردگی کے مظہر ہیں۔ ایسے حملے عام عوام یا عام تنظیم کے بس میں نہیں۔ ان کی پشت پر یقینا کوئی طاقتور ایجنسی کام کر رہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تحریک طالبان افغانستان سی آئی اے کی پیدا کردہ ہے اور تحریک طالبان پاکستان ’’را‘‘ اور’’ موساد‘‘ کا مشترکہ کارنامہ ہے۔ یہ حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی ماہر ایجنسی کام کر رہی ہے جو یقینا ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتی ۔ لیکن اس سلسلے میں بھی حکومتی رویہ ناقابل فہم ہے۔
2002ء سے اب تک بھارت میں جتنے بھی حملے ہوئے ہیں بھارت نے پاکستان پر الزام لگانے میں ایک سیکنڈ بھی دیر نہیں لگائی۔ ہمیں پوری دنیا کے سامنے ننگا کر دیا ۔دو دفعہ اپنی افواج با مقصدِ جنگ ہماری سرحدوں پر لے آیا۔ہم قصور وار تھے یا نہیںلیکن بھارت نے ہمیں مجرم ثابت کر کے ہی دم لیا۔ لیکن ہم اُس کا نام لیتے ہوئے بھی کانپتے ہیں۔
اب 12مارچ کے لاہور بم دھماکوں کا واقعہ ہی لے لیں جس نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ۔ شام کو بیان آیا کہ بھارت ملوث ہے ، دوسرے دن بیان آیا ’’شاید‘‘ بھارت ملوث ہے۔
اسی دوران بھارت کے وزیر داخلہ چدم برم کا بیان آیا کہ بھارت ملوث نہیں ۔ساتھ دھمکی بھی تھی کہ اگر اب پاکستان نے ممبئی طرز کا حملہ کیا تو پاکستان کو سبق سکھا دیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی ہماری حکومت کا رویہ تبدیل ہو گیا۔’’ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں ، شاید بھارت ملوث ہو۔‘‘ اس سے ہماری حکومت اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت یا تو نا اہل ہے یا بزدل یا پھر دونوں ۔ یہ وہ جنگ ہے جہاں عوام کا’’ مارے جانے‘‘ کے علاوہ کوئی اور کردارنہیں ، نہ ہی اس سلسلے میں حکومت کچھ بتاتی ہے۔ حکومت اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کی اسیر بن چکی ہے۔
ویسے بھی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ’’کرپٹ، نااہل، ذاتی مفادات کے اسیر قائدین ایرانی قائدین جیسی کارکردگی کے اہل نہیں ہو سکتے۔جس ملک میں سب سے بڑے صوبے کا وزیر قانون ووٹ حاصل کرنے کے لیے کالعدم دہشتگرد تنظیم کے لیڈروں کو اپنی سرکاری گاڑی میں لے کر پورے پروٹوکول کے ساتھ گھمائیں وہاں دہشت گردی پر قابو پانا ناممکن ہے۔
اب تو یقین ہوتا جا رہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان 1971ء کی مکتی باہنی کا ہی دوسرا جنم ہے۔ہماری موجودہ فوجی کاروائی کی طرح وہاں بھی 25مارچ 1971ء کو ایک فوجی کاروائی ہوئی تھی۔خدا کرے کہ اب کوئی اور یحییٰ خان ثابت نہ ہو۔