سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 121 ارب کی کٹوتی ...... امریکی مفادات کی جنگ میں کتنا کھویا‘ کیا پایا؟
وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی (سالانہ ترقیاتی پروگرام) میں کٹوتی کر دی ہے‘ تاہم فیصلہ کیا ہے کہ سماجی سیکٹرز کے منصوبوں پر اس کا اثر نہیں پڑیگا۔ گزشتہ روز اس سلسلہ میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت پلاننگ کمیشن کے اجلاس میں پی ایس ڈی پی کے بارے میں بریفنگ دی گئی جس کیمطابق وفاقی پی ایس ڈی پی کا حجم 421‘ ارب روپے سے کم کرکے 300 ارب روپے کردیا گیا ہے اس طرح 121 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی ہے جس کی وجوہات دہشتگردی کیخلاف جنگ کے اخراجات‘ فرینڈز آف پاکستان کی جانب سے امداد کی فراہمی کیلئے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں تاخیر اور مالی مشکلات بتائی گئی ہیں۔ اجلاس کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے بتایا کہ پی ایس ڈی پی کا حجم 250 ارب روپے کرنے کی تجویز آئی تھی‘ تاہم انہوں نے اسے 300 ارب روپے کر دیا ہے تاکہ کٹوتی سے سماجی سیکٹرز کے منصوبے متاثر نہ ہوں۔ وزیراعظم نے پلاننگ کمیشن کو ہدایت کی کہ صوبوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔
یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں امریکی مفادات کی جنگ میں اس کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے ہزاروں قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ قومی معیشت کو بھی برباد کیا‘ اقتصادی ترقی کا پہیہ بھی جامد کرایا‘ جبکہ امریکی مفادات کی اس جنگ کے باعث دہشتگردی اور خودکش حملوں کو فروغ حاصل ہونے سے ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری کا عمل بھی رک گیا مگر امریکہ نے نہ صرف ہمیں پہنچنے والے بھاری نقصان کی تلافی کیلئے کوئی اقدام نہیںکیا بلکہ دہشت گردی کے تدارک کیلئے پاکستان کے کردار کو شک کی نگاہوں سے بھی دیکھا‘ ’’ڈومور‘‘ کے تقاضے بھی جاری رکھے اور ڈرون حملوں کے ذریعہ ہماری سالمیت کو نقصان پہنچانے اور بے گناہ شہریوں بشمول خواتین اور بچوں کے قتل عام کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
کیری لوگر کے قانون کے تحت پاکستان کیلئے امریکی کانگرس نے سالانہ ایک عشاریہ پانچ ارب ڈالر کی جو امداد منظور کی‘ وہ فراہم کرنے سے پہلے ہی اسکے استعمال پر کڑی شرائط عائد کردیں اور ممکنہ استعمال کی جانچ پڑتال کیلئے آڈٹ ٹیم کے نام پر امریکی جاسوس ہماری سرزمین میں پھیلا دیئے۔ دوسری جانب فرینڈز آف پاکستان کے نام پر قائم تنظیم نے اپنے دو مختلف اجلاسوں میں پاکستان کو چھ سے 9 ارب ڈالر کی امداد دینے کے وعدے کئے مگر ان میں سے اب تک ایک وعدہ بھی ایفاء نہیں ہو سکا جبکہ ان دعوئوں کی بنیاد پر متوقع آمدنی کو پیش نظر رکھ کر رواں مالی سال کا وفاقی بجٹ تیار کیا گیا تھا‘ اس لئے متوقع آمدنی میں سے اگر پاکستان کو اب تک ایک دھیلا بھی نہیں ملا تو اس کا نزلہ بجٹ میں مخصوص ترقیاتی منصوبوں پر ہی گرنا تھا۔ چنانچہ پرائی آگ میں کودنے کا قومی معیشت کی بربادی کی صورت میں جو نقصان ممکن تھا‘ وہ اب عفریت بن کر سامنے کھڑا نظر آرہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر شروع کی گئی امریکی مفادات کی اس جنگ میں ہمیں اب تک 36 سے 38 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے‘ جس کی تلافی امریکی کانگرس کی منظور کردہ ہماری سالانہ گرانٹ اور فرینڈز آف پاکستان کی اعلان کردہ چھ سے 9ارب ڈالر تک کی امداد سے ہرگز ممکن نہیں جبکہ ابھی تک یہ امداد مل بھی نہیں پائی اور مزید کچھ عرصہ تک بھی یہ امداد ملنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ فرینڈز آف پاکستان کی بے وفائی کے نتیجہ میں آج ہمارا قومی بجٹ غیرمتوازن ہوا ہے اور سالانہ ترقیاتی فنڈز میں کم و بیش 45 فیصد کٹوتی کی مجبوری لاحق ہوئی ہے تو کل کو ملکی اور قومی تعمیرنو کے منصوبے بھی اسی طرح غارت ہو جائینگے۔ قومی معیشت سنبھل نہیں پائے گی تو قومی ترقی کا خواب بھلا خاک شرمندۂ تعبیر ہوگا؟
حد تو یہ ہے کہ جس ’’صنم بے وفا‘‘ کی خاطر اپنی سلامتی تک کو دائو پر لگایا گیا‘ وہ ہم سے اپنا دامن ہی نہیں بچا رہا‘ ہمیں آنکھیں بھی دکھا رہا ہے اور ہمارے موذی دشمن بھارت کو ہمارے مقابلے میں دفاعی لحاظ سے طاقتور بھی بنا رہا ہے۔ ہمارے مروت کے مارے حکمرانوں نے پھر بھی اپنا پلّو اسی بے وفا کے ساتھ باندھا ہوا ہے اور اسکے مفادات کے تحفظ کی جنگ بدستور جاری رکھی ہوئی ہے‘ نتیجتاً ہمیں ردعمل میں بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کا سامنا ہے۔ امریکی ڈرون حملے بھی ہماری دھرتی کا سینہ چھلنی کر رہے ہیں‘ انسانی دکھوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور ہماری اندرونی کمزوریوں سے ہمارے دشمن بھارت کو بھی فائدہ اٹھانے کا مکمل موقع ملا ہوا ہے جو افغانستان کے راستے اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد بھجوا کر ہمارے ملک کے چپے چپے میں خوف و دہشت کی فضاء گرم کر چکا ہے۔ اگر یہ سلسلہ مزید کچھ عرصہ تک جاری رہا تو ہمارے افغانستان اور عراق جیسے حالات سے دوچار ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔
اس تناظر میں ہمیں خود کو امریکی مفادات کی جنگ میں شریک رکھنے کی کیا ضرورت ہے‘ اس لئے حالات اور قومی مفادات کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار فی الفور ترک کرکے جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں جاری فوجی اپریشن بند کر دیا جائے‘ آئندہ کوئی ڈرون جہاز ہماری دھرتی پر حملے کی نیت سے ہماری فضائی حدود میں داخل ہو تو اسے مار گرایا جائے اور امریکہ کے ہاتھوں اب تک پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کا اس سے ہرجانہ طلب کیا جائے جس کیلئے عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کرنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ قومی حمیت و غیرت کے منافی کڑی شرائط پر مبنی امریکی خیرات کے ٹکڑوں کو ٹھوکر مار دی جائے اور اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے ملکی اور قومی تعمیر نو کا آغاز کر دیا جائے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے تئیں بڑا معرکہ مارا ہے کہ پی ایس ڈی پی کے حجم میں پچاس ارب روپے کی کتوٹی رکوالی ہے‘ اسکے باوجود سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 121 ارب روپے کی کٹوتی ہو گی جو معمولی رقم نہیں ہے اور اس کٹوتی کی بنیاد پر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے مشکل ہی سے پایہ تکمیل کو پہنچ پائیں گے۔
عوام کے مسائل میں تو پہلے ہی بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے‘ آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے قرضوں کی شرائط کی بنیاد پر بجلی‘ پانی‘ گیس کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے‘ اشیائے خورد و نوش بھی انکی پہنچ سے باہر ہیں اور امن و امان کی خرابی کے باعث عوام کیلئے روزگار کے دروازے بھی بند ہو چکے ہیں‘ اگر اب سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سوا کھرب روپے کے قریب کٹوتی کے باعث عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر بھی کام نہ شروع ہو سکا تو یہ صورتحال عوام کو زندہ درگور کرنے کی نہج تک لے جائیگی۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں کٹوتی کے بجائے حکمران اپنی عیاشیاں اور اللے تللے ختم کریں‘ ایوان صدر‘ وزیراعظم ہائوس‘ گورنرز اور وزراء اعلیٰ ہائوسز کے سالانہ خرچے کم کر دیئے جائیں‘ مراعات یافتہ حکمران طبقہ خود بھی قربانی دے اور اپنی تنخواہوں اور الائونسز میں نمایاں کمی کرے‘ سرکاری دوروں کے شاہانہ اخراجات سے ہاتھ روک لیا جائے اور کفایت شعاری کو معمولات زندگی کا حصہ بنایا جائے‘ بے وسیلہ عوام تو پہلے ہی مزید بوجھ برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہیں‘ امریکی مفادات کی بے فیض جنگ میں کودنے اور حکمرانوں کی بدانتظامیوں کی سزا آخر عوام ہی کیوں بھگتیں‘ انہیں اب سکھ کا سانس لینے دیا جائے ورنہ انکے اکھڑتے ہوئے سانس بہت ساری اکھاڑ پچھاڑ کی نوبت لے آئیں گے۔
وزیر داخلہ کو ’’قومی خدمت‘‘ پر ستارہ بسالت دیا جائے
وزیر داخلہ رحمن ملک کے اس بیان پر کہ ایران دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث عبدالمالک ریگی سے پاکستانی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ برآمد ہوا ہے۔ اس سے نہ صرف نادرا کی عالمی شہرت کو دھچکا لگا ہے بلکہ شدید مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ نادرا کا عالمی سطح پر مقابلہ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ ہے یہ محکمہ دونوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان سے بہت آگے تھا۔ وزیر داخلہ کے بیان کے بعد اسے عالمی ٹھیکے میں 30 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ نادراکے پاس کئی ممالک میں شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ کے ٹھیکے ہیں نادرا کے سالانہ اخراجات 5ارب روپے ہیں۔ صرف تنخواہوں کی مد میں 2 ارب روپے سالانہ ادا کرنا ہوتے ہیں۔ حکومت اتنے بڑے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی۔ نادرا اپنے اخراجات عالمی سطح پر ٹھیکے حاصل کرکے پورے کر رہا ہے۔ وزیر داخلہ کے غیر ذمہ دارانہ بیان سے نادرا کو 30 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر داخلہ کے بیان کے بعد ثابت بھی ہو گیا کہ ریگی کے پاس نادرا کا جاری کردہ نہیں بلکہ جعلی شناختی کارڈ تھا۔ نادرا جو وزیر داخلہ کے ماتحت ہے جسکے معاملات سے وزیر داخلہ بخوبی واقف ہیں اسکے باوجود بغیر تصدیق کے بیان دیکر اپنے ہی ایک ادارے کو نہ صرف عالمی سطح پر بدنام کر دیا بلکہ 30 ارب روپے کے ٹھیکے سے محروم کر دیا۔ نادرا کو اس ٹھیکے سے باہر کرانے میں بھارت کا اسرائیل سے زیادہ کردار ہے‘ جو اب بھی وزیر داخلہ رحمن ملک کے بیان کی بھرپور طریقے سے تشہیر کر رہا ہے۔ ملک صاحب کو اس ’’قومی خدمت‘‘ پر ستارہ بسالت ملنا چاہیے۔
بھارتی ٹی وی کیبل بند کریں
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات نے ملک میں بھارتی فلموں اور ڈراموں کی کیبل پر نشریات کیخلاف حکمت عملی کیلئے معاملہ ایوان بالا میں اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بھارتی فلموں کیخلاف قائمہ کمیٹی دو بار متفقہ قرارداد منظور کر چکی ہے۔ حکومت اگر کمیٹیوں کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی تو انکی افادیت ختم ہوجائیگی‘ یاد رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ کہہ چکے ہیں کہ اگر قائمہ کمیٹی ان غیر ملکی نشریات پر پابندی کا فیصلہ کرے تو حکومت سختی سے ان پر عمل کریگی۔ وائس آف امریکہ کی پشتو نشریات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اے پی پی کیمطابق قائمہ کمیٹی نے کہا ہے کہ بھارتی فلمیں اور اشتہارات پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں۔بھارتی ٹیلی ویژن چینلز پر جو کچھ بھی نشر ہو رہا ہے یہ سب بھارتی ثقافتی یلغار کا حصہ ہے بھارت کی حکومت ایک طے شدہ پروگرام کیمطابق ثقافتی اور سیاسی محاذ پر بہت جارحانہ انداز میں پاکستان کیخلاف ایک منظم مہم شروع کئے ہوئے ہیں۔ ٹیلی ویژن ڈرامے اور نشر ہونیوالی فلموں میں ایسے پروگرام بھی دکھائے جاتے ہیں جن کا مقصد پاکستان کو صرف مسمار کرنا ہی ہے اور تمام فلموں اور ڈراموں میں مسلمانوں کو جرائم پیشہ اور انتہائی غریب شہری دکھایا جاتا ہے اور یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ غدار اور جرائم پیشہ لوگ ہیں جو بھارت میں تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں اس طرح نہ صرف مسلمانوں کو بھارت میں بدنام کیا جاتا ہے بلکہ پاکستان میں بھی انکے تاثر خراب کیا جا رہا ہے اور پاکستان کے بارے میں بھی ایسی خبریں اور افواہیں پھیلائی جاتی ہیں جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا‘ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں بھارتی ٹی وی ڈراموں اور کیبل نشریات پر پابندی عائد کی جائے بھارت اور پاکستان کے درمیان جو لوگ مشترکہ فلم سازی کے نام پر کاروبار کر رہے ہیں اسے بھی بند کیا جائے۔ پاکستان کی طرف سے کچھ پان چھالیہ فروش لوگ پان کی ٹوکریاں اٹھائے اپنے مفادات کیلئے پوری قوم کے وقار اور عزت کو تباہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام ان لوگوں سے بھی تنگ ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ اس سلسلہ میں کھل کر حکومت کو باور کرائیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی کیمطابق حل نہیں ہو جاتا‘ اس وقت تک بھارت کے ساتھ نہ تو تجارت ممکن ہے اور نہ ہی دوستی کے نام نہاد منصوبے۔
یہ امریکی چالبازی ہے
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ نیٹو افواج پاکستان افغان سرحد پر طالبان کی آر پار آمد و رفت کو روکے‘ طالبان کے افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان میں داخل ہونے کی وجہ سے ان کیخلاف پاکستان میں مہم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا بالکل درست ہے کہ امریکی و نیٹو افواج افغانستان میں اپنی ذمہ داری پورا کرنے کی بجائے‘ صورتحال کو بگاڑ رہی ہیں‘ چند ماہ قبل جب جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج آپریشن کر رہی تھی‘ اس وقت افغان سرحدوں پر کئی مورچوں کو کھلا چھوڑ کر نیٹو اور امریکی فوجی غائب ہو گئے اور ان مورچوں کی طرف سے افغان طالبان فرار ہو کر پاکستان میں داخل ہوتے رہے۔ نیٹو افواج کا ان مورچوں کو کھلا چھوڑنے کا مقصد محض پاکستانی افواج کیلئے مشکل پیدا کرنا تھا‘ افغانستان میں موجود طالبان کے گروہ‘ پاکستان میں دھکیلے جا رہے ہیں اور امریکہ کی کوشش یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانی فوج کو زیادہ سے زیادہ نقصان ہو اور افغانستان کی طرف سے بھاری اسلحہ اور بارود کے ٹرک بھی پاکستان آتے پکڑے گئے ہیں جن میں بھارتی اسلحہ اور بارود لدا ہوا تھا۔ اس طرح بلوچستان کے کئی علاقوں میں بھی بھارتی اسلحہ پکڑا گیا ہے۔ امریکہ اپنے چہیتے پارٹنر بھارت سے ہر قسم کے معاہدے بھی کر رہا ہے‘ اسے اسلحہ‘ جنگی جہاز اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی منتقل کر رہا ہے۔ امریکہ ہمارا دوست نہیں وہ پاکستان کے ساتھ صرف معاہدے کر رہا ہے‘ امداد بھارت کو دے رہا ہے۔ ہمیں امریکہ کی منافقانہ چالیں سمجھنی چاہئیں اور امریکہ پاکستان اور پاکستانی فوج کو کمزور کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ ہمیں اس سے آگاہ ہو کر اس جنگ سے پیچھا چھڑا لینا چاہئے۔
یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں امریکی مفادات کی جنگ میں اس کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے ہزاروں قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ قومی معیشت کو بھی برباد کیا‘ اقتصادی ترقی کا پہیہ بھی جامد کرایا‘ جبکہ امریکی مفادات کی اس جنگ کے باعث دہشتگردی اور خودکش حملوں کو فروغ حاصل ہونے سے ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری کا عمل بھی رک گیا مگر امریکہ نے نہ صرف ہمیں پہنچنے والے بھاری نقصان کی تلافی کیلئے کوئی اقدام نہیںکیا بلکہ دہشت گردی کے تدارک کیلئے پاکستان کے کردار کو شک کی نگاہوں سے بھی دیکھا‘ ’’ڈومور‘‘ کے تقاضے بھی جاری رکھے اور ڈرون حملوں کے ذریعہ ہماری سالمیت کو نقصان پہنچانے اور بے گناہ شہریوں بشمول خواتین اور بچوں کے قتل عام کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
کیری لوگر کے قانون کے تحت پاکستان کیلئے امریکی کانگرس نے سالانہ ایک عشاریہ پانچ ارب ڈالر کی جو امداد منظور کی‘ وہ فراہم کرنے سے پہلے ہی اسکے استعمال پر کڑی شرائط عائد کردیں اور ممکنہ استعمال کی جانچ پڑتال کیلئے آڈٹ ٹیم کے نام پر امریکی جاسوس ہماری سرزمین میں پھیلا دیئے۔ دوسری جانب فرینڈز آف پاکستان کے نام پر قائم تنظیم نے اپنے دو مختلف اجلاسوں میں پاکستان کو چھ سے 9 ارب ڈالر کی امداد دینے کے وعدے کئے مگر ان میں سے اب تک ایک وعدہ بھی ایفاء نہیں ہو سکا جبکہ ان دعوئوں کی بنیاد پر متوقع آمدنی کو پیش نظر رکھ کر رواں مالی سال کا وفاقی بجٹ تیار کیا گیا تھا‘ اس لئے متوقع آمدنی میں سے اگر پاکستان کو اب تک ایک دھیلا بھی نہیں ملا تو اس کا نزلہ بجٹ میں مخصوص ترقیاتی منصوبوں پر ہی گرنا تھا۔ چنانچہ پرائی آگ میں کودنے کا قومی معیشت کی بربادی کی صورت میں جو نقصان ممکن تھا‘ وہ اب عفریت بن کر سامنے کھڑا نظر آرہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر شروع کی گئی امریکی مفادات کی اس جنگ میں ہمیں اب تک 36 سے 38 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے‘ جس کی تلافی امریکی کانگرس کی منظور کردہ ہماری سالانہ گرانٹ اور فرینڈز آف پاکستان کی اعلان کردہ چھ سے 9ارب ڈالر تک کی امداد سے ہرگز ممکن نہیں جبکہ ابھی تک یہ امداد مل بھی نہیں پائی اور مزید کچھ عرصہ تک بھی یہ امداد ملنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ فرینڈز آف پاکستان کی بے وفائی کے نتیجہ میں آج ہمارا قومی بجٹ غیرمتوازن ہوا ہے اور سالانہ ترقیاتی فنڈز میں کم و بیش 45 فیصد کٹوتی کی مجبوری لاحق ہوئی ہے تو کل کو ملکی اور قومی تعمیرنو کے منصوبے بھی اسی طرح غارت ہو جائینگے۔ قومی معیشت سنبھل نہیں پائے گی تو قومی ترقی کا خواب بھلا خاک شرمندۂ تعبیر ہوگا؟
حد تو یہ ہے کہ جس ’’صنم بے وفا‘‘ کی خاطر اپنی سلامتی تک کو دائو پر لگایا گیا‘ وہ ہم سے اپنا دامن ہی نہیں بچا رہا‘ ہمیں آنکھیں بھی دکھا رہا ہے اور ہمارے موذی دشمن بھارت کو ہمارے مقابلے میں دفاعی لحاظ سے طاقتور بھی بنا رہا ہے۔ ہمارے مروت کے مارے حکمرانوں نے پھر بھی اپنا پلّو اسی بے وفا کے ساتھ باندھا ہوا ہے اور اسکے مفادات کے تحفظ کی جنگ بدستور جاری رکھی ہوئی ہے‘ نتیجتاً ہمیں ردعمل میں بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کا سامنا ہے۔ امریکی ڈرون حملے بھی ہماری دھرتی کا سینہ چھلنی کر رہے ہیں‘ انسانی دکھوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور ہماری اندرونی کمزوریوں سے ہمارے دشمن بھارت کو بھی فائدہ اٹھانے کا مکمل موقع ملا ہوا ہے جو افغانستان کے راستے اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد بھجوا کر ہمارے ملک کے چپے چپے میں خوف و دہشت کی فضاء گرم کر چکا ہے۔ اگر یہ سلسلہ مزید کچھ عرصہ تک جاری رہا تو ہمارے افغانستان اور عراق جیسے حالات سے دوچار ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔
اس تناظر میں ہمیں خود کو امریکی مفادات کی جنگ میں شریک رکھنے کی کیا ضرورت ہے‘ اس لئے حالات اور قومی مفادات کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار فی الفور ترک کرکے جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں جاری فوجی اپریشن بند کر دیا جائے‘ آئندہ کوئی ڈرون جہاز ہماری دھرتی پر حملے کی نیت سے ہماری فضائی حدود میں داخل ہو تو اسے مار گرایا جائے اور امریکہ کے ہاتھوں اب تک پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کا اس سے ہرجانہ طلب کیا جائے جس کیلئے عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کرنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ قومی حمیت و غیرت کے منافی کڑی شرائط پر مبنی امریکی خیرات کے ٹکڑوں کو ٹھوکر مار دی جائے اور اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے ملکی اور قومی تعمیر نو کا آغاز کر دیا جائے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے تئیں بڑا معرکہ مارا ہے کہ پی ایس ڈی پی کے حجم میں پچاس ارب روپے کی کتوٹی رکوالی ہے‘ اسکے باوجود سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 121 ارب روپے کی کٹوتی ہو گی جو معمولی رقم نہیں ہے اور اس کٹوتی کی بنیاد پر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے مشکل ہی سے پایہ تکمیل کو پہنچ پائیں گے۔
عوام کے مسائل میں تو پہلے ہی بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے‘ آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے قرضوں کی شرائط کی بنیاد پر بجلی‘ پانی‘ گیس کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے‘ اشیائے خورد و نوش بھی انکی پہنچ سے باہر ہیں اور امن و امان کی خرابی کے باعث عوام کیلئے روزگار کے دروازے بھی بند ہو چکے ہیں‘ اگر اب سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سوا کھرب روپے کے قریب کٹوتی کے باعث عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر بھی کام نہ شروع ہو سکا تو یہ صورتحال عوام کو زندہ درگور کرنے کی نہج تک لے جائیگی۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں کٹوتی کے بجائے حکمران اپنی عیاشیاں اور اللے تللے ختم کریں‘ ایوان صدر‘ وزیراعظم ہائوس‘ گورنرز اور وزراء اعلیٰ ہائوسز کے سالانہ خرچے کم کر دیئے جائیں‘ مراعات یافتہ حکمران طبقہ خود بھی قربانی دے اور اپنی تنخواہوں اور الائونسز میں نمایاں کمی کرے‘ سرکاری دوروں کے شاہانہ اخراجات سے ہاتھ روک لیا جائے اور کفایت شعاری کو معمولات زندگی کا حصہ بنایا جائے‘ بے وسیلہ عوام تو پہلے ہی مزید بوجھ برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہیں‘ امریکی مفادات کی بے فیض جنگ میں کودنے اور حکمرانوں کی بدانتظامیوں کی سزا آخر عوام ہی کیوں بھگتیں‘ انہیں اب سکھ کا سانس لینے دیا جائے ورنہ انکے اکھڑتے ہوئے سانس بہت ساری اکھاڑ پچھاڑ کی نوبت لے آئیں گے۔
وزیر داخلہ کو ’’قومی خدمت‘‘ پر ستارہ بسالت دیا جائے
وزیر داخلہ رحمن ملک کے اس بیان پر کہ ایران دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث عبدالمالک ریگی سے پاکستانی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ برآمد ہوا ہے۔ اس سے نہ صرف نادرا کی عالمی شہرت کو دھچکا لگا ہے بلکہ شدید مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ نادرا کا عالمی سطح پر مقابلہ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ ہے یہ محکمہ دونوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان سے بہت آگے تھا۔ وزیر داخلہ کے بیان کے بعد اسے عالمی ٹھیکے میں 30 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ نادراکے پاس کئی ممالک میں شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ کے ٹھیکے ہیں نادرا کے سالانہ اخراجات 5ارب روپے ہیں۔ صرف تنخواہوں کی مد میں 2 ارب روپے سالانہ ادا کرنا ہوتے ہیں۔ حکومت اتنے بڑے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی۔ نادرا اپنے اخراجات عالمی سطح پر ٹھیکے حاصل کرکے پورے کر رہا ہے۔ وزیر داخلہ کے غیر ذمہ دارانہ بیان سے نادرا کو 30 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر داخلہ کے بیان کے بعد ثابت بھی ہو گیا کہ ریگی کے پاس نادرا کا جاری کردہ نہیں بلکہ جعلی شناختی کارڈ تھا۔ نادرا جو وزیر داخلہ کے ماتحت ہے جسکے معاملات سے وزیر داخلہ بخوبی واقف ہیں اسکے باوجود بغیر تصدیق کے بیان دیکر اپنے ہی ایک ادارے کو نہ صرف عالمی سطح پر بدنام کر دیا بلکہ 30 ارب روپے کے ٹھیکے سے محروم کر دیا۔ نادرا کو اس ٹھیکے سے باہر کرانے میں بھارت کا اسرائیل سے زیادہ کردار ہے‘ جو اب بھی وزیر داخلہ رحمن ملک کے بیان کی بھرپور طریقے سے تشہیر کر رہا ہے۔ ملک صاحب کو اس ’’قومی خدمت‘‘ پر ستارہ بسالت ملنا چاہیے۔
بھارتی ٹی وی کیبل بند کریں
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات نے ملک میں بھارتی فلموں اور ڈراموں کی کیبل پر نشریات کیخلاف حکمت عملی کیلئے معاملہ ایوان بالا میں اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بھارتی فلموں کیخلاف قائمہ کمیٹی دو بار متفقہ قرارداد منظور کر چکی ہے۔ حکومت اگر کمیٹیوں کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی تو انکی افادیت ختم ہوجائیگی‘ یاد رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ کہہ چکے ہیں کہ اگر قائمہ کمیٹی ان غیر ملکی نشریات پر پابندی کا فیصلہ کرے تو حکومت سختی سے ان پر عمل کریگی۔ وائس آف امریکہ کی پشتو نشریات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اے پی پی کیمطابق قائمہ کمیٹی نے کہا ہے کہ بھارتی فلمیں اور اشتہارات پاکستان کے مفاد میں نہیں ہیں۔بھارتی ٹیلی ویژن چینلز پر جو کچھ بھی نشر ہو رہا ہے یہ سب بھارتی ثقافتی یلغار کا حصہ ہے بھارت کی حکومت ایک طے شدہ پروگرام کیمطابق ثقافتی اور سیاسی محاذ پر بہت جارحانہ انداز میں پاکستان کیخلاف ایک منظم مہم شروع کئے ہوئے ہیں۔ ٹیلی ویژن ڈرامے اور نشر ہونیوالی فلموں میں ایسے پروگرام بھی دکھائے جاتے ہیں جن کا مقصد پاکستان کو صرف مسمار کرنا ہی ہے اور تمام فلموں اور ڈراموں میں مسلمانوں کو جرائم پیشہ اور انتہائی غریب شہری دکھایا جاتا ہے اور یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ غدار اور جرائم پیشہ لوگ ہیں جو بھارت میں تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں اس طرح نہ صرف مسلمانوں کو بھارت میں بدنام کیا جاتا ہے بلکہ پاکستان میں بھی انکے تاثر خراب کیا جا رہا ہے اور پاکستان کے بارے میں بھی ایسی خبریں اور افواہیں پھیلائی جاتی ہیں جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا‘ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں بھارتی ٹی وی ڈراموں اور کیبل نشریات پر پابندی عائد کی جائے بھارت اور پاکستان کے درمیان جو لوگ مشترکہ فلم سازی کے نام پر کاروبار کر رہے ہیں اسے بھی بند کیا جائے۔ پاکستان کی طرف سے کچھ پان چھالیہ فروش لوگ پان کی ٹوکریاں اٹھائے اپنے مفادات کیلئے پوری قوم کے وقار اور عزت کو تباہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام ان لوگوں سے بھی تنگ ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ اس سلسلہ میں کھل کر حکومت کو باور کرائیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی کیمطابق حل نہیں ہو جاتا‘ اس وقت تک بھارت کے ساتھ نہ تو تجارت ممکن ہے اور نہ ہی دوستی کے نام نہاد منصوبے۔
یہ امریکی چالبازی ہے
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ نیٹو افواج پاکستان افغان سرحد پر طالبان کی آر پار آمد و رفت کو روکے‘ طالبان کے افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان میں داخل ہونے کی وجہ سے ان کیخلاف پاکستان میں مہم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا بالکل درست ہے کہ امریکی و نیٹو افواج افغانستان میں اپنی ذمہ داری پورا کرنے کی بجائے‘ صورتحال کو بگاڑ رہی ہیں‘ چند ماہ قبل جب جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج آپریشن کر رہی تھی‘ اس وقت افغان سرحدوں پر کئی مورچوں کو کھلا چھوڑ کر نیٹو اور امریکی فوجی غائب ہو گئے اور ان مورچوں کی طرف سے افغان طالبان فرار ہو کر پاکستان میں داخل ہوتے رہے۔ نیٹو افواج کا ان مورچوں کو کھلا چھوڑنے کا مقصد محض پاکستانی افواج کیلئے مشکل پیدا کرنا تھا‘ افغانستان میں موجود طالبان کے گروہ‘ پاکستان میں دھکیلے جا رہے ہیں اور امریکہ کی کوشش یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانی فوج کو زیادہ سے زیادہ نقصان ہو اور افغانستان کی طرف سے بھاری اسلحہ اور بارود کے ٹرک بھی پاکستان آتے پکڑے گئے ہیں جن میں بھارتی اسلحہ اور بارود لدا ہوا تھا۔ اس طرح بلوچستان کے کئی علاقوں میں بھی بھارتی اسلحہ پکڑا گیا ہے۔ امریکہ اپنے چہیتے پارٹنر بھارت سے ہر قسم کے معاہدے بھی کر رہا ہے‘ اسے اسلحہ‘ جنگی جہاز اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی بھی منتقل کر رہا ہے۔ امریکہ ہمارا دوست نہیں وہ پاکستان کے ساتھ صرف معاہدے کر رہا ہے‘ امداد بھارت کو دے رہا ہے۔ ہمیں امریکہ کی منافقانہ چالیں سمجھنی چاہئیں اور امریکہ پاکستان اور پاکستانی فوج کو کمزور کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ ہمیں اس سے آگاہ ہو کر اس جنگ سے پیچھا چھڑا لینا چاہئے۔