ایک ٹی وی پروگرام میں تین مہمان ڈاکٹر بابر اعوان، سینٹر ایس ایم ظفر اور ڈاکٹر ہود بہائے مدعو تھے جو سوات امن معاہدہ پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ اول الذکر دونوں حضرات نے ’سوات امن معاہدے‘ کی ضرورت اہمیت افادیت اور موزونیت (Justification) کے حوالے سے دلائل دئیے جبکہ ڈاکٹر ہود بہائے نے فرمایا کہ یہ معاہدہ سوات اور قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ ختم کرنے کے مترادف ہے۔ ان کے لب و لہجہ میں شریعت الٰہی سے بیزاری ، اسلام کے نظام عدل کیخلاف بغض اور فوج کیخلاف نفرت کے جذبات چھپائے نہیں چھپ رہے تھے۔ انہوں نے فوج کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’شروع دن سے پاکستانی فوج کو یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ وہ مجاہد فوج ہے اس لئے اب وہ اپنے ’’ مجاہد بھائیوں‘‘ کے خلاف کیسے لڑ سکتی ہے‘‘۔
اس میں کسی شک کی بات نہیں کہ پاکستان کی فوج مجاہد فوج ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے جن معنوں میں یہ لفظ استعمال کیا اسے سن کر قرآن حکیم کی وہ آیت یاد آ گئی جس میں رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ:
’’اے نبیؐ جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بے شک آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعاً جھوٹے ہیں‘‘۔ (المنافقون!)
پاکستانی فوج کے ’مجاہد‘ ہونے میں کسی کو شک نہیں۔ اس کا ماٹو ایمان تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ فوج کو پرویز مشرف نے اس اعزاز سے محروم کر کے امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا۔ گذشتہ آٹھ برسوں میں کم از کم دو ہزار فوجی جن میں ہر رینک کے افسران شامل ہیں۔ اس جنگ میں شہید ہوئے پرویز مشرف نے بحیثیت آرمی چیف فوج سے وہ کام لیا جو درحقیقت اس کا کام نہیں تھا اور اب سیکولر امریکی لابی کے نام نہاد دانشور فوج اور عوام کے درمیان محبت اور احترام کے رشتوں کو مزید کمزور کرنے کے درپے ہیں۔
’سوات امن معاہدہ‘ کو ملک بھر کے اہل دانش نے تحسین کی نظر سے دیکھا ہے۔ یہ اقدام پاکستان کے آئین پر عمل درآمد کے مترادف ہے۔
قرارداد مقاصد جو آئین کا حصہ ہے میں شریعت مطہرہ ہی کو ملک کا سپریم لاء قرار دیا گیا ہے۔ صوبہ سرحد کی حکمران پارٹی اے این پی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے عوامی امنگوں اور ملی خواہشات کو جماعتی نظریات پر مقدم رکھا اور اکثریت رائے کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا۔ گذشتہ آٹھ برسوں کی آمریت نے عوامی خواہشات کے برعکس امریکی ڈکٹیشن پر چلتے ہوئے اپنے کلمہ گو بھائیوں کی قتل وغارت کا سلسلہ جاری رکھا اور امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ بنا کر سارے ملک کو اس کی خواہشات کی صلیب پر لٹکائے رکھا۔
سوات میں لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے اب اگر اس معاہدہ امن سے ایک خوشگوار نتیجہ سامنے آیا ہے تو امریکہ اور اس کے حواریوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے ہیں۔ ان سب حضرات کی خواہش ہے کہ سوات اور قبائلی علاقہ میں جنگ و جدل جاری رہے۔ فوج اور عوام آپس میں دست و گریباں رہیں اور یوں امریکہ بہادر کو اس بات کا موقع مل جائے کہ وہ پاکستان کو دہشت گرد اور ناکام ریاست ثابت کر کے اس کے ایٹمی اثاثوں پر تصرف حاصل کر سکے۔
کم و بیش ملک کے اکثر دانشوروں سیاستدانوں اور عام افراد کا یہ خیال ہے کہ ملک کے قبائلی علاقوں سے لے کر سوات اور بلوچستان تک امریکہ اسرائیل اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاں لامحدود وسائل کے ساتھ سرگرم عمل ہیں اور ان کا مقصد خاکم بدہن پاکستان کو دنیا کے نقشے سے غائب کرنا ہے۔
ان کے ذرائع ابلاغ انہی اہداف کو سامنے رکھ کر پروپیگنڈہ میں مصروف ہیں۔ ممبئی کے واقعات ان کی پیچیدہ منصوبہ بندی کا شاہکار ہیں اور تو اور خود حکومت پاکستان کی قیادت کو انہی مقاصد کے حصول کیلئے پالیسیاں تشکیل دینے پر مجبور کر دیا گیا ہے اور بدقسمتی سے ہمارا حکمران طبقہ ملک کی قیمت پر ان پالیسیوں کو جاری رکھنے پر اصرار کر رہا ہے۔
امریکہ اور نیٹو ممالک ایک طرف افغانستان میں اپنی مسلح افواج میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف ڈرون حملوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے اپنے تازہ ترین احکامات میں 17000 فوجیوں کو افغانستان میں بھجوانے کی منظوری دے دی ہے۔
یہ خبر بھی اب پایہ ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ ڈرون حملے ہمارے اپنے ہی ملک کے ائربیس سے کئے جا رہے ہیں اور حکمرانوں کی تردید پر اب عوام کو اس لئے اعتبار نہیں کہ یہ حکومت جھوٹ بولنے میں اپنا ریکارڈ مستحکم کر چکی ہے۔
سوات معاہدہ کی تفصیلات ابھی شائع نہیں ہوئیں تاہم وزیراعلیٰ سرحد جناب امیر حیدر ہوتی کا یہ بیان کہ مقامی لوگوں میں اسلحہ تقسیم کیا جائے گا‘ کچھ کھٹکتا ہے۔ قبائلی علاقہ اور طالبان کے پاس پہلے ہی نہایت فراوانی سے جدید ہتھیار آئے ہیں۔
درحقیقت خفیہ ایجنسیاں بھی اپنا لْچ تلنے میں مصروف ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ان تجربہ کار ایجنسیوں کے جال میں جکڑ لئے ہیں۔ موجودہ حالات میں ہماری خفیہ ایجنسیوں میڈیا اور پوری قوم کو نہایت چوکس رہنا پڑے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے گذشتہ دنوں اپنے کالم کااختتام اس شعر پر کیا تھا…؎
اس گھر کا سب نظام ہے غیروں کے ہاتھ میں
باہر ہے میرے نام کی تختی لگی ہوئی
اس میں کسی شک کی بات نہیں کہ پاکستان کی فوج مجاہد فوج ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے جن معنوں میں یہ لفظ استعمال کیا اسے سن کر قرآن حکیم کی وہ آیت یاد آ گئی جس میں رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ:
’’اے نبیؐ جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بے شک آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعاً جھوٹے ہیں‘‘۔ (المنافقون!)
پاکستانی فوج کے ’مجاہد‘ ہونے میں کسی کو شک نہیں۔ اس کا ماٹو ایمان تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ فوج کو پرویز مشرف نے اس اعزاز سے محروم کر کے امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا۔ گذشتہ آٹھ برسوں میں کم از کم دو ہزار فوجی جن میں ہر رینک کے افسران شامل ہیں۔ اس جنگ میں شہید ہوئے پرویز مشرف نے بحیثیت آرمی چیف فوج سے وہ کام لیا جو درحقیقت اس کا کام نہیں تھا اور اب سیکولر امریکی لابی کے نام نہاد دانشور فوج اور عوام کے درمیان محبت اور احترام کے رشتوں کو مزید کمزور کرنے کے درپے ہیں۔
’سوات امن معاہدہ‘ کو ملک بھر کے اہل دانش نے تحسین کی نظر سے دیکھا ہے۔ یہ اقدام پاکستان کے آئین پر عمل درآمد کے مترادف ہے۔
قرارداد مقاصد جو آئین کا حصہ ہے میں شریعت مطہرہ ہی کو ملک کا سپریم لاء قرار دیا گیا ہے۔ صوبہ سرحد کی حکمران پارٹی اے این پی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے عوامی امنگوں اور ملی خواہشات کو جماعتی نظریات پر مقدم رکھا اور اکثریت رائے کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا۔ گذشتہ آٹھ برسوں کی آمریت نے عوامی خواہشات کے برعکس امریکی ڈکٹیشن پر چلتے ہوئے اپنے کلمہ گو بھائیوں کی قتل وغارت کا سلسلہ جاری رکھا اور امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ بنا کر سارے ملک کو اس کی خواہشات کی صلیب پر لٹکائے رکھا۔
سوات میں لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے اب اگر اس معاہدہ امن سے ایک خوشگوار نتیجہ سامنے آیا ہے تو امریکہ اور اس کے حواریوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے ہیں۔ ان سب حضرات کی خواہش ہے کہ سوات اور قبائلی علاقہ میں جنگ و جدل جاری رہے۔ فوج اور عوام آپس میں دست و گریباں رہیں اور یوں امریکہ بہادر کو اس بات کا موقع مل جائے کہ وہ پاکستان کو دہشت گرد اور ناکام ریاست ثابت کر کے اس کے ایٹمی اثاثوں پر تصرف حاصل کر سکے۔
کم و بیش ملک کے اکثر دانشوروں سیاستدانوں اور عام افراد کا یہ خیال ہے کہ ملک کے قبائلی علاقوں سے لے کر سوات اور بلوچستان تک امریکہ اسرائیل اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاں لامحدود وسائل کے ساتھ سرگرم عمل ہیں اور ان کا مقصد خاکم بدہن پاکستان کو دنیا کے نقشے سے غائب کرنا ہے۔
ان کے ذرائع ابلاغ انہی اہداف کو سامنے رکھ کر پروپیگنڈہ میں مصروف ہیں۔ ممبئی کے واقعات ان کی پیچیدہ منصوبہ بندی کا شاہکار ہیں اور تو اور خود حکومت پاکستان کی قیادت کو انہی مقاصد کے حصول کیلئے پالیسیاں تشکیل دینے پر مجبور کر دیا گیا ہے اور بدقسمتی سے ہمارا حکمران طبقہ ملک کی قیمت پر ان پالیسیوں کو جاری رکھنے پر اصرار کر رہا ہے۔
امریکہ اور نیٹو ممالک ایک طرف افغانستان میں اپنی مسلح افواج میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف ڈرون حملوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے اپنے تازہ ترین احکامات میں 17000 فوجیوں کو افغانستان میں بھجوانے کی منظوری دے دی ہے۔
یہ خبر بھی اب پایہ ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ ڈرون حملے ہمارے اپنے ہی ملک کے ائربیس سے کئے جا رہے ہیں اور حکمرانوں کی تردید پر اب عوام کو اس لئے اعتبار نہیں کہ یہ حکومت جھوٹ بولنے میں اپنا ریکارڈ مستحکم کر چکی ہے۔
سوات معاہدہ کی تفصیلات ابھی شائع نہیں ہوئیں تاہم وزیراعلیٰ سرحد جناب امیر حیدر ہوتی کا یہ بیان کہ مقامی لوگوں میں اسلحہ تقسیم کیا جائے گا‘ کچھ کھٹکتا ہے۔ قبائلی علاقہ اور طالبان کے پاس پہلے ہی نہایت فراوانی سے جدید ہتھیار آئے ہیں۔
درحقیقت خفیہ ایجنسیاں بھی اپنا لْچ تلنے میں مصروف ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ان تجربہ کار ایجنسیوں کے جال میں جکڑ لئے ہیں۔ موجودہ حالات میں ہماری خفیہ ایجنسیوں میڈیا اور پوری قوم کو نہایت چوکس رہنا پڑے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے گذشتہ دنوں اپنے کالم کااختتام اس شعر پر کیا تھا…؎
اس گھر کا سب نظام ہے غیروں کے ہاتھ میں
باہر ہے میرے نام کی تختی لگی ہوئی