موسمی تغیر اور غذائی تحفظ،پاکستان کیلئے توازن پیدا کرنیکا کام
سال2021 نےWorld Economic Day (WED) کی میزبانی کی مشعلEcosystem Restoration کے تھیم کے ساتھ پاکستان کے حوالے کر دی ہے۔2020 کی گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس رپورٹ کے مطابق پاکستان سب سے زیادہ خطرے کی زد میں آنے والے ملکوں میں پانچویں نمبر پر ہے،جسے موسمیاتی تبدیلیوں کے ایسے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے جن کی جڑیں اس کی آبادی کے طبقات اور جغرافیائی حالات میں پیوست ہیں۔اس کے نتائج پہلے ہی بڑھتے ہوئے درجہ حرارت،گلیشیئز کے پگھلنے،بن موسم کی بارشوں، آندھیوں اورایکو سسٹم کی زبوں حالی کی شکل میں بدلتے ہوئے موسمی پیٹرنز سے عیاں ہیں۔اس کے علاوہ آبی ذخائر میں کمی اور پانی کے نقصانات میں اضافہ جیسے دوسرے ایسے عوامل بھی ہیں جو زرعی شعبہ میں فصلوں کے بدلتے ہوئے پیٹرنز کا باعث بن رہے ہیں جن سے ملک میں غذائی تحفظ کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔جیسا کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے عالمی غذائی تحفظ نے تشریح کی ہے،غذائی تحفظ کا مطلب یہ ہے کہ سب لوگوں کو ہمہ وقت کافی، محفوط اور غذائیت سے بھرپور ایسی خوراک تک جسمانی، سماجی اور معاشی رسائی حاصل ہوجو ایک فعال اور صحت مند زندگی کے لیے ان کی کھانے پینے کی ترجیحات اور غذائی ضروریات کو پورا کرسکے۔پاکستان کی حکومت موسمیاتی تبدیلیوں ،غذائی تحفظ اور مجموعی قومی پیداوار کی سست شرح نمِو،جو مالی سال2019-20 میں منفی0.4 فیصدتھی اور فی کس آمدنی کے 1625 امریکی ڈالر سے کم ہو کر1325 امریکی ڈالر ہو جانے کی وجہ سے مسلسل بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ کی مجموعی مشکلات کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔تاہم،مالی سال2020-21 کے لیے مقرر کردہ مجموعی قومی پیداوار کی3.94 فیصد کی شرح نمو آج کل گرما گرم بحث کا موضوع ہے۔بد قسمتی سے مذکورہ بالا اثرات میں شدت پیدا کرتے ہوئے آبادی میں 2 فیصد سالانہ اضافہ کی شرح نے مالی سال2019-20 میں پاکستان میں غربت کوجو4.4 فیصد تھی،بڑھا کر5.4 فیصد کر دیااور اس عرصہ میں غربت ان لوگوں تک پھیل گئی جو پہلے کبھی بھی غریب نہیں تھے۔اگر چہCovid-19 کی عالمی وباء نے بھی پیداوار میں کمی،بے روز گاری میں اضافے اور نچلے متوسط طبقے کی اجرتوں کو کم کرنے میں کردار ادا کیا ہے،تاہم اب پاکستان کو غذائی تحفظ کے چیلنجز کاسامنا ہے اور اسے پام آئل کی خطیر مقدار سمیت گندم، چینی اورخورنی تیل جیسے کھانے پینے کے بڑے آئٹمز کو درآمد کرنا پڑے گا۔ادارہ ء شماریات (بیورو آف اسٹیٹسٹکس) کے مطابق 2020-21 کے پہلے 10 ماہ کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی درآمدات6.9 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئیں اور ان میں سر فہرست پام آئل سمیت خورنی تیل شامل تھے۔پاکستان سالانہ 3.15 بلین ڈالر مالیت سے زیادہ کا 4.5 ملین ٹن خورنی تیل استعمال کرتا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کے بعد یہ دوسرا سب سے بڑا خرچہ ہے۔اس سے قطع نظر کہ کوئی گھرانہ کس زمرے میں آتا ہے،خورنی تیل پاکستانی گھرانوں میں کھانے میں استعمال ہونے والا ایک اہم جزو ہے،غریب سے غریب گھرانے بھی اپنی غذائیت کا کچھ حصہ پام آئل سمیت کسی بھی قسم/ برانڈ کے خورنی تیل کے استعمال سے حاصل کرتے ہیں۔تاہم،مختلف قسم کے روغنیات کے صحت کے فوائد کے بارے میں صارفین کا شعور کم ہے۔پاکستان مقامی طور پرپیدا ہونے والے تلہن سے اپنی خورنی تیل کی صرف20 سے30 فیصد مانگ پوری کر سکتا ہے،باقی70 سے80 فیصد کی کمی درآمدات سے پوری کی جاتی ہے،کھانے پینے کی اشیاء کی درآمدات میں پام آئل/ روغن کا حصہ 34 فیصد سے زیادہ بنتا ہے،مالی سال2020-21 میں یہ اندازاً3.3MMTرہا،یعنی اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 6 فیصد زیادہ؛اس طرح پاکستان پام آئل/ روغنیات کا تیسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ بن گیا۔پاکستان میں پام آئل زیادہ تر پکانے کے تیل یا گھی(بناسپتی)کی شکل میں فوڈ کی کھپت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور فوڈ انڈسٹری میں یہ دونوں قسمیں تلنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔آبادی میں مسلسل اضافے،تیل کی بہت زیادہ کھپت اور دوسر ے تلہن کی کم/ غیر مستقل ملکی پیداوار کے باعث پام آئل کی درآمد مسلسل بڑھے گی،جیسا کہ گزشتہ 7 سالوں میں 4.5 فیصد کی سالانہ شرح اضافہ سے ظاہر ہے۔خورنی تیل کی تیزی سے بڑھتی ہوئی کھپت/ مانگ کو زیادہ تفصیل،خاص طور سے ان مختلف آراء اور مفروضوں کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جو پام آئل سمیت ہر خورنی تیل پر چسپاں ہیں۔آج کل زیادہ جدید،پائیدار اور ماحول دوست انداز میں پام آئل کی فارمنگ کی جا رہی ہے۔اس وقت انڈونیشی اور ملائشین ذرائع جن سے پاکستان پام آئل درآمد کرتاہے Indonesian Sustainable Palm Oil (ISPO)اور Malaysian Sustainable Palm Oil (MSPO) فریم ورکس کے تحت ریگولیٹیڈ ہیں۔
چنانچہ،پام آئل کی مانگ، سپلائی اور کھپت کے پیٹرننز کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان کو ایک طویل مدت کے لیے انڈونیشیا اور ملائشیا سےISPO اورMSPOسرٹیفائیڈ پام آئل کی درآمد پر انحصار کرنا پڑے گا۔دوسری طرف انڈونیشیا اور ملائشیا،دونوں ملکوں میں پام آئل کی نئی فصل سے سپلائی خاطر خواہ حد تک بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے اور پام آئل اور پامOlein کی بین الاقوامی قیمتیں مسلسل کم ہو رہی ہیں۔لہٰذا، پاکستان کو اپنے فوڈ آئٹمز کے درآمدی امکان کی بجائے دو طرفہ برآمدات میں اضافے کے لیے برآمدی ملکوں کے ساتھ ترجیحی تجارتی سمجھوتوں (PTAs) پر دستخط کے امکانات پر غور کرنا چاہیئے۔پاکستان نے اربوں درختوں اور مینگروز کی شجر کاری کے ذریعے دنیا میں سب سے زیادہ قابل تعریف کوششوں سے ملک کو سر سبز و شاداب بنانے اور ایکو سسٹم ریسٹوریشن فنڈ قائم کر کے ملک کے ایکو سسٹم کی بحالی کا اپنا عزم ظاہر کیا ہے۔مگر پاکستان کو موسمیاتی تغیرات کے چیلنجز اور فوڈ آئٹمز کی پیداوار کے درمیان ایک حقیقت پسندانہ انداز فکر اور متوازن سوچ اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔لہٰذا، خورنی تیل کی درآمد پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ایک طویل المدت " فوڈ سیکیورٹی پلان" تیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔مارکیٹ کے موجودہ منظر نامے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ پام آئل کی ایک پائیدار سپلائی چین با کفایت قیمت پرپاکستان کی فوڈ سیکیورٹی کے لیے کلیدی عنصر رہے گی۔در حقیقت،کھپت والے ایک بڑے ملک کی حیثیت سے پاکستان، انڈونیشیا اور ملائشیا جیسے بڑے پیداواری ممالک کے ساتھ مجموعی سپلائی چین میں ان کی مدد اور تجاویز کے لیے پائیدار پام آئل،خاص طور سے MSPO اورISPO سرٹیفکیشن فریم ورکس کے تحت سر ٹیفائیڈ پام آئل کے فروغ کے بارے میں موجودہ خدشات کو شیئر اور ان پر بات چیت بھی کر سکتا ہے۔