آزاد کشمیر الیکشن: حکومت اور اپوزیشن کے لئے ٹیسٹ کیس
آزاد کشمیر الیکشن ہمارے یہاں حکومت اور اپوزیشن کے لئے ٹیسٹ کیس ہوتا ہے،جس طرح بائی الیکشن (ضمنی الیکشن)ایک پیرا میٹر ہوتا ہے کہ عوام میں مقبولیت کا معیار پرکھا جاتا ہے۔آزادکشمیر الیکشن اس لئے بھی بہت اہم ہیں کہ پاکستان کی تمام پارٹیوں کے منشور میں کشمیر ہمیشہ اہمیت نمبرون رہاہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے لئے ہزار سال جنگ کا اعلان کیا ،پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد بھی ’’اعلان تاشقند‘‘کے بعد ہوا تھا جس میں کہا گیا کہ سودا (اعلان تاشقند)کی صورت میں ہوا حالانکہ اس طرح ’’شملہ‘‘اور نواز شریف صاحب نے واجپائی کے ساتھ ’’اعلان لاہور‘‘ بھی کیا تھا،آزاد کشمیر الیکشن میں پاکستان میں 12 مہاجرین کے حلقے ہیں،جن میں 6 ویلی سے تعلق والے کشمیر اور 6 جموں و دیگر پر مشتمل ہیں،ان میں وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے جو کہ ان حلقوں پر حکمران ہوتے ہیں ،جس طرح کراچی سے 2 ممبر اسمبلی ایم کیو ایم سے منتخب ہوتے ہیں،تقریباً 10 حلقے پنجاب سے ہیں،جہاں پی ٹی آئی حکمران ہے مگر ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھیں تو مسلم لیگ (ن)مضبوط پوزیشن میں ہیں۔پی ٹی آئی کے ٹکٹ عمران خان وزیراعظم کے دستخط سے جاری ہوئے جو کہ پارٹی کے سربراہ ہیں۔اس طرح بلاول بھٹو اور شہباز شریف نے اپنی جماعتوں کے ٹکٹ جاری کئے جو کہ مذکورہ جماعتوں کے پارلیمانی بورڈز کی منظوری/سفارشات سے ہوئے۔ آزاد کشمیر کی اکثریت کی مسلمہ رائے ہے کہ پی ٹی آئی آسانی سے حکومت بنائے گی،عوام بطور’’تبدیلی ‘‘عمران خان کو پسند کرتے ہیں۔’’7 لاکھ صحت کارڈ‘‘اور غربت کے خاتمے کے لئے ثانیہ نشتر کا احساس پروگرام گھر گھر تک گیا جو کہ ضرورت مند تھے ،ضرورت صرف اس امر کی تھی اور ہے کہ عمران خان کا پیغام گھر گھر جانا چاہئے،مگر پی ٹی آئی آزادکشمیر اندرونی خلفشار کا شکار ہے،ایک جانب 20 سالہ جدوجہد کے حامل نوجوان پی ٹی آئی کا ہراول دستہ ہیں،دوسری جانب سال ہا سال ایوان اقتدار کے مزے حاصل کرنے والے عین الیکشن کے ،موقعے پی ٹی آئی کا مفلر پہن کر کے کے سب سے بڑے ’’تبدیلی کا نشان ‘‘بن گئے۔میر پور سما ہنی ایسے لوگ شامل ہوئے جو کہ 5 سال اقتدار میں رہے اور پی ٹی آئی کے لیڈروں کو گالیاں دیتے ہیں،آج وہ پی ٹی آئی کے درینہ کارکنوں کے لیڈر بن گئے،صرف گذشتہ 2017 آزادکشمیر الیکشن میں جو پی ٹی آئی کے ساتھ ان کو تو کم از کم عزت ،وقار اور احترام دیں۔ایک ایک حلقے میں دیکھیں تو ہر جانب ’’پیرا شوٹر‘‘کی آمد ہے۔آزاد کشمیر کی عوام کی بہتری ،ترقی،روزگار،کاروبار اور ملازمت کے لئے ایک مضبوط ،خوشحال اور ایسی پارٹی کی حکومت ہو جس کے مرکز کے ساتھ بہتر اور مضبوط تعلقات ہوں۔آزاد کشمیر میں گذشتہ پانچ سالوں سے پی ایم ایل این کی حکومت ہے مگر مرکز میں پی ٹی آئی کی ،کوئی بہتر حکمت عملی اختیار نہ کی گئی۔آزاد کشمیر عوام کی بہتری کی جگہ مسلم لیگ کے نظریے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘پر سارا زور لگا رہا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کو آزاد کشمیر کے ماضی کے سیاسی تجربات کو پیش نظر رکھنا ہو گا،ہار جیت صرف چند ہزار کے ووٹوں سے ہو گی ۔آزاد کشمیر کے گذشتہ الیکشن میں راجہ فاروق حیدر نے اپنے حلقے میں جماعت اسلامی کو مخصوص نشست دینے کا وعدہ کیا،ایک جانب وسطی باغ سے ’’نارمہ‘‘برادری کے ووٹ مشتاق منہاس کے لئے حاصل کیے اور چکار سے جماعت کے ڈاکٹر مشتاق کی حمایت حاصل کی۔آج کل اس قسم کی انتخابی حکمت عملی کا پی ٹی آئی کو مظاہرہ کرنا چاہئے مگر وہ اس سے بے صبر اور انجان بن گئی ،آزاد کشمیر میں اصل مقابلہ پی ٹی آئی بمقابلہ پی ٹی آئی ہے۔سردار تنویر الیاس کا سوشل میڈیا کے لوگ سارا دن بیرسٹر سلطان کی دیگر جماعتوں میں شمولیت کی اطلاع دے رہے ہوتے ہیں،بیرسٹر گروپ سردار تنویر الیاس کے ذریعے شامل ہونے والوں کے ٹکٹ واپسی کی پیچ اپ کرتے نظر آتے ہیں۔کبھی مرتضٰی گیلانی کے تھپڑوں کی صدا گونجتی ہے،کئی وفاقی وزراء کے فرنٹ مینوںکے قصے،کئی قیمتی تحائف اور اپارٹمنٹ کی بات ہوتی ہے۔ایوان وزیراعظم ہائوس بنی گالا میں ایسے لوگوں کو عمران خان صاحب کے ذریعے گلے میں پی ٹی آئی کے مفلر ڈالے جاتے ہیں،جو کہ دیگر جماعتوں کے ساتھ قرآن پر عہد وفا کرتے ہیں اور آج توڑتے ہیں،یا پھر آزاد کشمیر میں پانچ سال سے پی ٹی آئی اور اس کے قائدین کو گالیاں دیتے نظر آئے۔ایسے حالات میں پندرہ یا پھر بیس سال سے ظلم ،استبدار کا مقابلہ کرنے والے پی ٹی آئی ٹائیگرز کیاں کھڑے ہیں؟ان کے جذبات کیا ہیں؟،پارٹی کے اختلافات کیا رنگ لائیں گے؟۔صرف اگر چند حلقوں کا جائزہ لیں،مثلاً حلقہ غربی باغ پی ٹی آئی کا ٹکٹ لطیف خلیق کو ملا۔مرکز ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات توصیف عباسی،ساجد جاوید عباسی سمیت آٹھ ٹکٹ کے امیدوار مخالف ،سردار عتیق خان مضبوط اپوزیشن میں ہیں،ون آن ون مقابلہ بہت قریب اور سخت ہو گا۔جتنا ووٹ تقسیم ہوگا،مسلم کانفرنس جیت جائے گی۔واسطی باغ میں گذشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار راجہ خورشید نے 14 ہزار ووٹ حاصل کیے ،نارمہ برادری کے ہیں۔اس برادری کا بیس ہزار ووٹ ہے۔کرنل نسیم مرحوم کا سارا خاندان ٹکٹ کے خلاف ہیں،بنی گالہ دھرنا بھی دیا۔آزاد کشمیر کے تقریباً تینتیس حلقوں میں ایسی ہی صورتحال ہے۔اسی طرح مہاجرین کے حلقوں میں بھی پی ٹی آئی میں محاذ آرائی ہے ۔آذاد کشمیر پی ٹی آئی کے انفارمیشن سیکریٹری ارشاد محمود انتہائی قابل،
سمجھدار،زرک اور تحریک آزادی کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرانے کی صلاحیت کے حامل ہیں،مگر خاموش ہیں۔منشور کمیٹی کے ذوالفقار عباسی نے سارے آزاد کشمیر کے عوام اور نوجوانوں کے لئے انقلابی منشور دینا تھا،عمران خان کے ویژن کے مطابق مگر وہ صرف حلقہ غربی باغ میں کلس بچا یونین کونسل میں سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غربی باغ ہی اصل میدان جنگ ہے،آزاد کشمیر پی ٹی آئی والوں کو معلوم نہیں کہ اصل جنگ مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ،جن کے ساتھ 2023 ء میں پاکستان کا انتخابی دنگل ہو گا۔پی ٹی آئی آزاد کشمیر واضع اکثریت حاصل نہیں کرتی تو اس کے اثرات پاکستان کی سیاست پر پڑیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان ! آزاد کشمیر پی ٹی آئی کو کم از کم ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لائیں ،گروپ بندی سے باہر آئیں،سردار تنویر الیاس اور بیرسٹر سلطان محمود مشترکہ جلسہ کریں۔اگر وزیراعظم آزاد کمشیر کا کوئی امیدوار پی ٹی آئی میں ’’ڈارک ہارس‘‘ہے تو سامنے لائیں۔شنید ہے کہ عثمان بزدار پلس پی ٹی آئی وزیراعظم ہوں گے،صد ریٹائرڈ فوجی آفیسر ہوں گے۔