اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
گزارشات سے قبل احمد فراز کا ایک مقبول اور یادگار شعر
شکوہ ظلمت شب سے تو بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
آج بابا کرمو نے پوچھا میں کچھ اشارے دونگا آپ نے بتانا ہے کہ یہ کس ملک کی بات ہے ۔پہلا اشارہ خود قرضے پہ قرضے لیتے رہتے ہیں اور شہریوں کو بچت اسکیموں کی ترغیبیں دیتے ہیں حکومت نے بتایا ہے کہ اس سال گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ اضافہ ہوا ہے ۔لیکن یہ بات اپوزیشن مان نہیں رہی۔ اس کا موقف ہے کہ پورے ملک میں گدھوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے ان کا یہ کہنا ہے سوائے چند اداروں کے سب جگہوں پر گدھے کام کرتے ہیں۔انہیں آپ جھنڈوں والی گاڑیوں میں ، ون ویلنگ بائک پرکرتب کرتے اور کچھ کو اعلی عہدوں پر بھی دیکھ سکتے ہیں ۔لہذا ان کی تعدالاکھوں سے کئی زیادہ ہے ۔ میں نے بابا کرمو سے کہا ایک کیس گدھے کے حوالے سے چل رہا ہے اگر اجازت ہو تو سنا دوں۔ کہا ضرور! ایک سابق وزیر کو واکنک ٹریک پر ایک صاحب نے گدھا کہہ دیا۔ وزیر صاحب نے کیس کر دیا ۔ ملزم بھی وکیل کے پاس گیا ۔ وکیل صاحب نے پوچھا آپ نے گدھا کیوںکہاتھا ۔مسکراتے ہوئے بولا سر یہ جس زمانے میں وزیر تھے میں میں بھی لیبر یونین کا صدرہوا کرتا تھا ۔ میں اپنے ورکروں کے مسائل لے کر ان کے پاس گیا تھا تو جناب نے گدھے کی طرح دو لتیاں مار کر آفس سے نکال دیا تھا ۔اس واقعہ کے بیس سال بعد ایک شام میں واک کر رہا تھا اور یہ وزیر صاحب بھی وہاں تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آ گیا ۔میں نے جان بوجھ کر گدھا کہا تھا۔وکیل صاحب نے مشورہ دیا کہ اب آپ نے عدالت میں یہ بیان دینا ہے یہ صاحب گدھے جیسا آہستہ آہستہ چل رہے تھے ۔میں نے انہیں گدھا کہہ کرگزرنے کے لئے راستہ مانگا تھا ۔گدھا کہنا یہ میری غلطی تھی ۔ اس پر معافی کا طلب گار ہوں ۔ملزم نے پیش یہی بیان جج دیا ۔ یہ سن کر جج صاحب نے وزیر صاحب سے پوچھا یہ اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے ۔معافی چاہتا ہے ۔اب آپ کیا چاہتے ہیں ۔وزیر صاحب نے کہا میں بھی اسے معاف کرتا ہوں ۔جس پر جج صاحب نے بری کر دیا۔ ملزم نے جج صاحب سے پوچھا جناب میں وزیر صاحب کو کبھی بھی گدھا نہیں بولوں گا لیکن کیا گدھے کو وزیر کہہ سکتا ہوں۔جج نے کہا گدھے کو آپ کچھ بھی بولیں ، کورٹ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ۔عدالت سے باہر نکل کر اس نے مسکراتے ہوئے وزیر صاحب سے کہا اچھا تو وزیر صاحب میں چلتا ہوں ۔یہ کیس سن کر بابا کرمو مسکرائے اور پوچھا کیا ملک کا نام بتانے کیلئے مزید اشاروں کی ضرورت ہے ۔سب خاموش رہے جس پر باباکرمو نے مزید اشارے دیئے یوں تو یہ ملک اسلامی ملک ہے لیکن اسلام کئی دکھائی نہیں دیتا ۔ زندگی اسلام کے مطابق بسرنہیں کرتے۔سب جھوٹ بولتے ہیں اور دبا کے بولتے ہیں۔ آپ کو کوئی چیزخالص نہیں ملے گی ۔ یہ ہر چیز میں ملاوٹ ۔ چائے میں چھلکا ، مرچوں میں پسی اینٹ ، ادرک میں تیزاب ،تربوز میں رنگ دارٹیکہ لگا کر سرخ اور میٹھا بنا دیتے ہیں۔ ، دودھ میں پہلے پانی مکس کیا کرتے تھے مگر اب دودوھ ہی کیمیکل سے بنا کر سر عام دودھ کے نام پر زہرفروخت کرتے ہیں ۔ ناپ تول میں ڈنڈی مارنا ان کے بزنس کا حصہ ہو جیسے ۔ ہر دوسرے بزنس کا نام بسم اﷲ ،مدینہ سٹور ریسٹورینٹ اور مال بیچتے وقت قسمیں کھاتے ہیں ،لوگوں کو فول بناتے ہیں ۔ دفاتر میں رشوت کھلے عام لی اور دی جاتی ہے ۔ حرام کو برا نہیں سمجھتے ۔ مسجدوں سے بجلی کے بل میں ٹی وی لائنسنس کی فیس وصول کرتے ہیں ۔سڑک پہلے بناتے ہیں پھر اسے کھود کر بجلی گیس کی لائنیں بچھاتے ہیں ۔ حادثات میں مرنے والوں کے ورثا میں کروڑوں بانٹ دیں گے مگر حادثات کی روم تھام پر ایک روپیہ خرچ نہیں کرتے۔ اپنے عدالتی نظام کو ٹھیک نہیں کرتے ۔ اس ملک کے کیپیٹل میں عدالتیں دوکانوں میں ہیں۔جان بوجھ کر جوڈیشیل کمپلکس نہیں بناتے تاکہ عدالتی نظام پر انگلیاں اٹھتی رہیں۔ کرائم اور کرپشن عام ہے ۔ عدالتی نظام کو قانون کے مطابق ادارے چلنے نہیں دیتے ۔ اس ملک کا عدالتی نظام دنیا ساری میں ایک سو چوبیسویں نمبر پر ہے ۔کیس دائر آج کریں فیصلہ اگلی نسل سنے گی یامرنے کے بعد اسے باعزت بری کر دیا جائے گا۔ بڑی عدالتیں جج ججوں کا کیس سنے میں مصروف ہیں ۔ان کے ہاںجج خود انصاف کی تلاش میں عدالتوں میں مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں ۔ جج انڈر پریشر کام کرتے ہیں۔چھوٹی عدالتوں کے جج بچارے اگر کسی پولیس یا انتظامیہ کے خلاف فیصلہ سنا دیں تو دوسرے روز اس جج کے گھر چوری ہو جاتی ہے۔ ادارے اداروں پر حاوی ہیں ۔کوئی کام وہ نہیں کرتا جو اسے آتا ہے۔ جسے حلوہ بنانا آتا ہے وہ آلو بنا رہا ہے ۔ گدھا کڑائی عام ہے۔شہری نلکے کے نیچے بغیر پانی کے نہا رہے ہو تے ہیں۔ انسان اور حیوان اکھٹے ڈھیروں میں رزق تلاش کرتے ہیں۔ایک جگہ سے پانی پیتے ہیں۔ اس ملک میں الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے ۔سیاست دانوں کے بارے میں مشہور کر رکھاہے یہ سب گملوں کی پیداوار ہیں ۔انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ سیاست دانوں کے ساتھ گملے والے بھی بد نام ہیں۔ لیڈروں کے ساتھ اب عوام بھی چیخ رہی ہے کہ ملک میں الیکشن کرو سلیکشن نہیں ۔جعلی الیکشنوں سے غریب قوم کے پیسے ضائع نہ کرو۔ بابا کرمو نے کہا اب تو آپ سمجھ چکے ہونگے کہ میںکس ملک کی بات کر رہا ہوں ۔ سب نے یک ز بان ہو کر کہا یہ وطن ہمارا ہے جسے سب نے اجاڑا ہے مگر آج سے ہم سب مل کر اپنے حصے کی شمع روشن کرنے کا وعدہ کرتے ہیں بقول فیض احمد فیض
محبت کے علاوہ پاس اپنے کچھ نہیں ہے فیض
اسی دولت کو ہم قسمت کے مارے با نٹ لیتے ہیں