سندھ کا 14 کھرب کا ٹیکس فری بجٹ
سندھ اسمبلی میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپوزیشن کے احتجاج کے دوران مالی سال 2021-22ء کا بجٹ پیش کر دیا۔ 14 کھرب روپے سے زائد مالیت کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز ہے جبکہ امن و امان کے لیے 119 ارب ، صحت کیلئے 172 ارب اور تعلیم کیلئے 240 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
مرکز اور پنجاب کی طرح سندھ کا بجٹ بھی خسارے کا ہے۔ سندھ کا مجموعی بجٹ 1477.903 ارب روپے کا ہے ، رواں سال صوبائی بجٹ میں 19.1 فیصد اضافہ کیا گیا ہے ، بجٹ میں خسارے کا تخمینہ 25.738 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ خسارے کے اس بجٹ میں حکومت کی طرف سے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہیاور کم از کم اجرت 25 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے ۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ آجر کی طرف سے آجیر کو حکومتی پالیسی کے مطابق ادائیگی نہیں کی جاتی۔ اگر کی جائے تو بھی 25 ہزار میں گھر چلانا مشکل ہے۔ اسی طرح تنخواہوں میں کیا گیا 20 فیصد اضافہ بھی مہنگائی کی نسبت کم ہے۔ مرکز اور پنجاب کی طرف سے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اتنے کم اضافے کی وجہ وسائل کی کمی بتائی گئی ہے۔ کیا سندھ کے پاس اتنے وسائل ہیں؟ اگر ہیں تو اور ’’دو‘‘ کہتے ہوئے سندھ حکومت مرکز کے گلے کیوں پڑ رہی ہے۔ پوائنٹ سکورنگ کے بجائے حقائق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ سندھ حکومت کے پاس ایسا کوئی فارمولا ہے تو دوسرے صوبوں کو بھی بتائے تاکہ وہ بھی اتنا ہی اضافہ کر دیں۔ اپنے بجٹ کے لیے صوبوں کو وسائل میں خود کفیل ہونا چاہیے۔ سندھ بجٹ کا ٹیکس فری ہونا خوش آئند ہے۔ ترقیاتی کاموں کے فنڈ میں 43.5 فیصد اضافہ بھی مناسب ہے۔ شہریوں کی فلاح و بہبودکے لیے 16 ارب رکھے گئے ہیں۔ آج جدید دور میں آئی ٹی کی اہمیت مسلمہ ہے جس کا سندھ بجٹ میں خیال رکھتے ہوئے 1.70 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ حکومت کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس بجٹ کے بعد منی بجٹ نہ آئے۔