سر راہے
پٹرول 2.13 ڈیزل 1.72 اور مٹی کا تیل 1.89 روپے لٹر مہنگا
ابھی وفاقی بجٹ کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی، اس کی منظوری تک نہیں ملی تھی کہ حکومت نے منی بجٹ پیش کر دیا ، اس پر تو منی کو حق ہے کہ وہ
’’منی بدنام ہوئی ترین جی تیرے لیے‘‘ کہتے ہوئے اس منی بجٹ کا سیاپا کرے۔ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہی تھا تو پھر یہ ایک دن کا تردد کیوں کیا گیا۔ بجٹ میں ہی یہ چھری کیوں نہ چلائی گئی۔ عوام تو تب بھی
اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے
مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے
سے آگے کچھ نہ کہہ پاتے۔ ہر بجٹ کے بعد منی بجٹ نہ لانے کا اعلان کرنے والے ہمارے حکمران کتنے ظالم ہیں کہ وقفے وقفے سے منی بجٹ کی کند چھری سے عوام کے صبر کو ذبح کر کے آزماتے ہیں۔ اب آگے آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے اور کس کس چیز کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ بجٹ کو خوشنما بنانے کے لیے جو کچھ نہیں کیا گیا اب وہ آہستہ آہستہ وقفے وقفے سے سامنے آئے گا۔ ہونا وہی ہے جو آئی ایم ایف والے چاہتے ہیں۔بس ذرا نئے انداز میں یہ سب کچھ سامنے آئے گا۔ عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالا جائے گا۔ شور پر یہی کہا جائے گا ، بھیا یہ دیکھ لیں بجٹ کتنا اعلیٰ تھا۔ اس میں کسی چیز پر ٹیکس نہیں لگایا اور نہ کسی چیز کے دام بڑھائے ۔ پٹرول کے بعد عوام اب بجلی بم ، گیس دھماکے کے اور آٹا ، گھی کے خودکش حملوں کے لیے بھی تیار رہیں۔ باقی اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس کی کسی کو پرواہ نہیں ویسے بھی یہ سب بجٹ کا حصہ نہیں ہوتے یہ عوام ، تاجروں اور دکانداروں کا معاملہ ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭
ملکہ برطانیہ سے مل کر والدہ یاد آ گئیں: جو بائیڈن
یہ تو امریکی صدر کا حسن نظر ہے یا انکساری کہ انہوں نے ملکہ برطانیہ کے احترام میں یہ جملے کہے کہ انہیں ملکہ کو دیکھ کر اپنی والدہ یاد آ گئیں۔ ورنہ ملکہ برطانیہ کو دیکھ کر تو لوگوں کو نانی یاد آجاتی ہے۔ وہ اس وقت 95 سال کی بہاریں دیکھ چکی ہیں۔ یہ تو قدرت کی شان ہے کہ وہ اتنی بہاروں، برساتوں، گرمیوں اور جاڑوں کو بسر کرنے کے باوجود اس عمر میں بھی چاق و چوبند ہیں۔ ملکہ برطانیہ تو بہت ہی خوش قسمت ہیں جو ایک بھرا پرا، پھولتا پھلتا خاندان اس عمر میں بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ نہایت خانفشانی اور ایمانداری سے تاج و تخت برطانیہ کی ذمہ داریاں بھی سرانجام دے رہی ہیں جس سے صرف ایک شخص یعنی شہزادہ چارلس کو نقصان ہو رہا ہے کہ وہ اس بڑھاپے میں بھی بادشاہ نہ بن سکے۔ اب ان کا بیٹا اور ملکہ کا پوتا ولیم یہ ذمہ داریاں سنبھالنے والا ہے۔ رہی بات جو بائیڈن کی تو وہ بھی خوش قسمت ہیں کہ انہیں امریکہ کی صدارتی ذمہ داریاں مل گئی ہیں اور وہ بھی سپر طاقت کے سربراہ ہیں۔ عمر اِن کی بھی ڈھلتی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں اس عمر میں بابے اور بے بے کو تو تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا جاتا ہے کہ وہ آرام سے بیٹھ کر اللہ اللہ کریں۔ مگر دیکھ لیں جوبائیڈن امریکہ کو چلا رہے ہیں جو ساری دنیا کو اشاروں پر چلاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
قومی اسمبلی میں ارکان اسمبلی کی بدتمیزی دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا۔ آفریدی
کیا بات کہی ہے لالے دی جان نے۔ جو بھی بدتمیزی کا مجرم ہے جس نے بھی بدتمیزی کی ہے ، ان کا تو حقہ پانی بند کر دینا چاہیے۔ ہماری نئی نسل یہ سب کچھ دیکھ کر سُن کر پریشان ہی نہیں حقیقت میں شرمندہ بھی ہے۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ہمارے اعلیٰ ترین ایوان میں یہ کچھ بھی ہوتا ہے۔ ذرا عمر رسیدہ قسم کے لوگ تو بہرحال ’’اسے میخانہ کہتے ہیں یہاں پگڑی اُچھلتی ہے ‘‘ کے مفہوم سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کس طرح ایوب دور میں مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں سپیکر کو مارا گیا۔ بھٹو دور میں معزز ارکان اسمبلی کو ڈنڈا ڈولی کر کے اٹھا کر اسمبلی سے باہر پھینکا گیا۔ کس طرح شیخ رشید اس معزز قومی اسمبلی میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر بازاری زبان میں جملے کستے تھے۔ گالیاں دینا تو اب ایک عام رواج بن گیا ہے۔ اس صورتحال میں شاہد آفریدی کا دکھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ کوئی شریف آدمی ایسی زبان سن نہیں سکتا۔ ایسی زبان تو گلی محلوں کے لونڈے استعمال کرتے ہیں جنہیں بدزبان اور آوارہ سمجھ کر کوئی منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتا۔ جس ایوان میں قانون سازی ہوتی تھی وہاں جفت باری کی نوبت آ گئی ہے۔ ہے کوئی جو اس راہ کو روکے۔ ایسے عناصر کا سدباب کرے۔ کیا یہی تعلیم اور تربیت ہوتی ہے اچھے گھرانوں میں ، تعلیمی اداروں میں۔ ان پڑھے لکھے ارکان اسمبلی سے تو ہمارے عام ناخواندہ بزرگ لاکھ درجے زیادہ بہتر ہیں جو کم از کم بات کرنے کا سلیقہ تو رکھتے ہیں۔ تنقید سُننے کا حوصلہ بھی ان میں پایا جاتا ہے۔ کم از کم یہ پڑھے لکھے ارکان اسمبلی ان سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔
٭٭٭٭٭
کراچی میں تجاوزات کے خلاف مہم جاری، کئی مقامات پر جھڑپیں
صرف کراچی میں ہی کیوں یہ بے رحمانہ آپریشن جاری رہے۔ کیا دیگر شہروں میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ تمام شہر تجاوزات سے پاک ہیں۔ اگر کراچی کے علاوہ کوئٹہ، لاہور، اسلام آباد، پشاور وغیرہ میں بھی اسی برق رفتاری اور ہیوی مشینری کے ساتھ تجاوزات کو ملیامیٹ کرنے کا کام شروع ہو جائے تو کم از کم عوام اطمینان کا سانس لیں گے کہ بھائی سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو رہا ہے۔ اس طرح کراچی والوں کی بھی اشک شوئی ہوگی کہ صرف انہیں ہی تختہ مشق نہیں بنایا جا رہا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں تجاوزات مافیا اب اتنا مضبوط اور نڈر ہو گیا ہے کہ انہیں حکومت، عدالت اور قانون کسی کی بھی پروا نہیں۔ پورے ملک میں تجاوزات خودرو پودوں کی طرح اُگ رہی ہیں۔ ان کو تلف کرنے والے بھنگ پی کر سوئے ہوئے ہیں۔ کوئی روکنے والا نہیں۔ اس صورتحال میں صرف کراچی والوں پر ہی اتنا پیار جتانا مناسب نہیں لگتا۔ اس سے لامحالہ تعصب پھیل سکتا ہے۔ اب حکومت کو اشک شوئی کرتے ہوئے پورے ملک میں نہروں، نالوں، دریائوں، ریلوے لائنوں، سڑکوں کے کنارے گلی محلوں میں قائم تجاوزات کے خلاف ایک لانگ مارچ کرنا چاہئے تاکہ حقیقت میں؎
جو بھی رستے میں آئے گا کٹ جائے گا
رن کا میدان لاشوں سے پٹ جائے گا
والا منظر سامنے آئے اور جو کوئی اس راہ میں مزاحم ہو، اسے تجاوزات کے ملبے تلے دفن کرکے ایسے قانون شکن افراد کی حوصلہ شکنی ہو۔ تجاوزات مافیا سے بچائو کی یہی ایک صورت ہے۔ تخت یا تختہ۔ ورنہ یہ آکاس بیل کی طرح ہر سرکاری و نجی اراضی کو ہڑپ کرتے چلے جائیں گے۔
٭٭٭٭٭