گورنر پنجاب کا کامیاب دورۂ امریکہ
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی ساری زندگی سماجی خدمت سے عبارت ہے۔ برطانیہ ہو یا پاکستان‘ سکاٹ لینڈ ہو یا پنجاب‘ عوام انہیں ایک سماجی خدمت گار کے طور پر جانتے اور پہچانتے ہیں۔ سرور فائونڈیشن کے تحت غریب لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کی خاطر واٹر فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب‘ پسماندہ علاقوں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا‘ ہنر گاہوں کا قیام اور انکے ذریعے خواتین کو ہنر مند بنا کر معاشی لحاظ سے اپنے پائوں پر کھڑا کرنا‘ صحت عامہ کی سہولتیں عام آدمی تک پہنچانا… ان تمام فلاحی اقدامات کے پس پردہ خلقِ خدا کی زندگیوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کا جذبہ اور عزم کار فرما ہے۔ اس سرزمین پاک سے انہیں انتہا درجے کا عشق ہے جس کی خاطر انہوں نے اپنی برطانوی شہریت ترک کر دی وگرنہ برطانیہ کی پارلیمنٹ کے منتخب رکن کی حیثیت سے انہیں وہاں کی سیاست اور معاشرت میں بے پناہ عزت اورپذیرائی حاصل تھی۔ اگست 2013ء میں وہ گورنر پنجاب کے منصب پر فائز ہوئے اور پاکستان کیلئے جی ایس پی پلس سٹیٹس حاصل کرنے کیلئے ان تھک جدوجہد شروع کر دی۔ جنوری 2014ء میں انکی کوششیں رنگ لائیں اور یورپین کمیشن نے پاکستان کو یہ سٹیٹس دے دیا جس کے نتیجہ میں 28 یورپی ممالک کو پاکستانی برآمدات میں دوگنا سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا اور پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت کو خاطر خواہ فروغ حاصل ہوا۔ حال ہی میں انہی کی کاوشوں سے امریکی ریاست کیلی فورنیا کی اسمبلی نے ایک بل کے ذریعے کیلی فورنیا اور صوبہ پنجاب کو سسٹر سٹیٹس قرار دے دیا ہے۔ اپنی 45 سالہ سیاسی و سماجی زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے دیار مغرب میں بسر کیا ہے اور اپنی ان تھک محنت ‘ خلوص اور لگن کے طفیل اہل مغرب کے دلوں میں اپنے لیے ایک قابل رشک مقام پیدا کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کے پالیسی ساز انکی باتوں پر خاص دھیان دیتے ہیں۔ انکی کوششوں کی بدولت برطانیہ نے پاکستان کیلئے اپنی سالانہ امداد میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر جس وحشیانہ انداز میں مظالم ڈھائے گئے‘ اسکی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل خون کے آنسو روئے ہیں۔ چوہدری محمد سرور بھی ان حالات و واقعات پر خاصے مضطرب ہوئے اور ان کا یہی اضطراب انہیں گزشتہ دنوں ریاست ہائے متحدہ امریکہ لے گیا جہاں انہوں نے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین پر نہ صرف پاکستانی مسلمانوں بلکہ بحیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ کے موقف اور جذبات کی بھرپور ترجمانی کی اور وہاں کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ اس دورے کے حوالے سے انکے تاثرات براہ راست جاننے کیلئے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘ لاہور میں ایک خصوصی نشست کا انعقاد کیا۔ نشست کا وقت ساڑھے دس بجے مقرر تھا اور وہ عین وقت پر تشریف لے آئے۔ گورنر پنجاب نے اردو اور پنجابی زبان میں فی البدیہہ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بارہ دنوں پر مشتمل اپنے دورے میں امریکی معاشرے کے ایک سو سے زائد سرکردہ افراد سے ملاقاتیں کیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ امریکہ میں مختلف سطحوں کے منتخب نمائندوں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھنے والے حلقوں کا ذہن تبدیل ہو رہا ہے اور ان کے دل و دماغ میں کشمیر اور فلسطین کے نہتے اور مظلوم عوام سے ہمدردی کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں۔ جب وہ ٹی وی سکرین اور سوشل میڈیا پر انسانیت سوز مظالم کے مناظر دیکھتے ہیں تو انکے دل بھی تڑپتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کو کشمیر اور فلسطین کے مسائل کے اصل حقائق سے آگاہ کرنے میں خود ہم سے کوتاہی کا ارتکاب ہوا ہے‘ لہٰذا اب ہمیں اس کی تلافی کیلئے مربوط کوششیں کرنا ہوں گی اور امریکی کانگریس کے اراکین تک اپنی آواز زیادہ زور دار انداز میں پہنچانا ہو گی۔
گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور بھارت مسلمانوں کیخلاف دہشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہیں مگر دنیا انہیں دہشت گرد نہیں کہہ رہی۔ اگر دنیا میں کہیں بھی کوئی مسلمان دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث ہو تو اسے دین اسلام کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ اسکے برعکس کہیں کوئی عیسائی‘ یہودی یا ہندو دہشت گردی کے واقعہ میں ملوث ہو جائے تو اسے اس کا انفرادی فعل قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ صریحاً ناانصافی ہے۔ میرے نزدیک دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘ لہٰذا دہشت گردی کو کسی خاص مذہب سے جوڑنے کی بجائے پوری عالمی برادری کو اس عفریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے اور دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث درندوں کیخلاف ایک جیسا بیانیہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسلام تو سلامتی اور امن کا پیامبر ہے جس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ اور یورپ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیر اور فلسطین کی حقیقی صورتحال اور اسلامو فوبیا کی لہر کے بارے مسلمانوں کا موقف وہاں کے منتخب نمائندوں اور عام لوگوں تک پہنچائیں اور بالخصوص انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو سامنے لائیں۔
چوہدری محمد سرور نے افغانستان کی صورت حال اور امریکہ کی پاکستان میں فضائی اڈے لینے کی خواہش پر بھی بات کی اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ایسا کبھی نہ ہو گا کیوں کہ افغان جنگ کے باعث ہم پہلے ہی ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ پُر امن افغانستان ہم سب کے مفاد میں ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے ہم سے جو کچھ بن پڑا‘ وہ ضرور کرینگے۔ گورنر پنجاب نے بتایا کہ دورۂ امریکہ کے دوران پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ سکھوں نے بھی مختلف اجتماعات میں پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ اس تناظر میں مَیں امریکہ میں مقیم سکھ کمیونٹی کو پاکستان کیلئے ایک بہت بڑا اثاثہ سمجھتا ہوں۔ اگر پاکستان اور سکھ بھارت کیخلاف مشترکہ جدوجہد شروع کر دیں تو ناقابل شکست ثابت ہونگے۔ چوہدری محمد سرور کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا بالکل سادہ اور فوری حل یہ ہے کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کا بنیادی حق خودارادیت دے دیا جائے۔ بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقبوضہ وادی میں غیر کشمیریوں کو بسا کر آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے در پے ہے جس کے خلاف کشمیری مسلمان سراپا احتجاج ہیں اور پاکستان ان کے اصولوں پر مبنی موقف کی بھرپور تائید و حمایت کرتا ہے۔
گورنر پنجاب نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سابق چیئرمین محترم مجید نظامی کی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ مشعل ان ہی کی روشن کی ہوئی ہے اور اس کی لَو کو مزید تیز کرنے کیلئے میرا ہر قسم کا تعاون اس قومی نظریاتی ادارے کے ہمیشہ شامل حال رہے گا۔ قبل ازیں نشست کے صدر اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین میاں فاروق الطاف نے اپنے خطاب میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل اسلام دشمن قوتوں کے پیدا کردہ ہیں۔ مسئلہ کشمیر برطانیہ اور بھارت کی بے ایمانی جبکہ مسئلہ فلسطین برطانیہ اور دیگر استعماری قوتوں کے مکروہ گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے۔ انہوں نے فلسطین کے حالیہ بحران کے دوران حکومت پاکستان کے دیگر اسلامی ممالک کے تعاون سے سفارتی محاذ پر سرگرم کردار کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ہمارے کشمیری اور فلسطینی بھائیوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے طفیل وہ بہت جلد بھارتی اور صہیونی استبداد سے نجات حاصل کر لیں گے۔ نشست میں معروف تجزیہ کار سلمان غنی نے بھی اظہار خیال کیا۔
٭٭٭