نیا بجٹ اور سی پیک کی روشن نئی منزلیں
بجٹ تقریر ختم ہوتے ہی مجھے سی پیک واچ کے چیئر مین سمیع اللہ کا فون آیا ۔وہ اپنے کاروباری ادارے سمیع حیات انٹر پرائز کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں ،یہ ادارہ سی پیک میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کے اشتراک سے کام کر رہا ہے ۔اس ادارے کی کامیابی اور سی پیک کی کامیابی دونوں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں سمیع اللہ نے اچھل کر فون پر کہا کہ حالیہ بجٹ میں اور کچھ بھی نہ ہوتا اور صرف سی پیک کے منصوبوں کا ذکر ہوتا تو پھر بھی یہ ایک کامیاب بجٹ تصور کیا جاتا ۔میں چونک گیا کہ آخر اس بجٹ میں سی پیک کے بارے میں کیا لکھ دیا گیا ہے،میں نے سی پیک واچ کے جنرل سیکرٹری شبیر عثمانی اور کوآرڈینیٹر سی ایم رضوان کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ بجٹ کے اندر جھانکیں اور مجھے بتائیں کہ آخر سمیع اللہ صاحب کی باچھیں کیوں کھلی ہوئی ہیں۔دونوں نوجوانوں نے بجٹ دستاویزات کی جانچ پڑتال کی اور جو کچھ بتایا اس سے میری آنکھیں بھی چمک اٹھیں۔
سی پیک ایک منصوبہ نہیں ایک گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے ،سی پیک کے ساتھ جڑے ہوئے چین کے عظیم الشان منصوبے دنیا کے تین بر اعظموں کو آپس میں تجارتی طور پر منسلک کریں گے۔اس منصوبے میں سی پیک کو مرکزی اورا عصابی حیثیت حاصل ہے کیونکہ گوادر سے زیادہ گہرے پانی کی بندر گاہ چین کو اپنے ارد گرد کہیں نصیب نہیں ہے ۔سی پیک آج کے پاکستان کی بھی نہیں مستقبل کی نسلوں کی تقدیر بھی بدل کر رکھ دے گا ،یہی وجہ ہے اس منصوبے کی مخالفت میں کئی طاقتیں سر گرم عمل ہیں،بھارت اسرائیل اور امریکہ کو سی پیک ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اسے ناکام بنانے کے لیے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔سی پیک کے خلاف تخریب کاری اور دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کی جارہی ہے ۔پاکستان کی مغربی سرحد پر درجنوں افغان شہروں میں بھارتی کونسل خانے قائم ہیں یہاں سے را کے سازشی اڈوں میں کلبھوشنوں کی فوج پاکستان میں دہشت گردی کے لیے لانچ کی جاتی ہے۔
سی پیک کے بارے میں پاکستان کے ارادے مصمم اور اٹل ہیں۔سمیع اللہ صاحب کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان اس پروگرام کو بھی وہی اہمیت دیتا ہے جو اس نے اپنے ایٹمی پروگرام کو دی تھی،پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لیے ایک دنیا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی لیکن پاکستان نے کسی مخالفت یا دشمنی کو خاطر میں لائے بغیر اسے مکمل کر دکھایا حتیٰ کہ ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے اربوں ڈا لر کی امداد کو پاکستان نے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا ۔ایٹمی پروگرام پاکستان کے ایمان کا حصہ تھا اسے پاکستان کسی قیمت پر ترک نہیں کر سکتا تھا ۔اسی طرح سی پیک بھی پاکستان کے ایمان کا جزو لاینفک ہے۔پاکستان اس پروگرام کو بھی مکمل کرنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہے، چین ہماری پشت پر ہے اس لیے پاکستان دنیا کی قسمت کو بدلنے والے اس پروگرام کی تکمیل کے لیے ڈٹا ہوا ہے ۔
اب میں آپ کے سامنے شبیر عثمانی اور سی ایم رضوان کی ریسرچ رپورٹ کا خلاصہ پیش کرتا ہوں ۔ان نوجوانوں نے بڑی عرق ریزی سے بجٹ کے اعداد و شمارکو چھلنی سے چھان کر سی پیک کے منصوبوں کی تفصیل مرتب کی ہے ۔قوم کے لیے پہلی خوش خبری کی بات تو یہ ہے کہ سی پیک اتھارٹی کا بل پارلیمنٹ سے منظور ہو چکا ہے،اس طرح لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی مہارت اور راہنمائی سی پیک کے منصوبوں کی کامیابی کو یقینی بنائے گی۔ پی ایس ڈی پی کی مد میں سی پیک کے لیے ستاسی ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے ۔قارئین کے لیے میرا مشورہ ہے کہ وہ کیلکولیٹر ہاتھ میں پکڑ لیں اور پاکستان کے شمالی مغربی اور جنوبی جغرافیے پر نظر
ڈالتے جائیں تو انہیں سی پیک کے منصوبے کا ایک جال بچھا ہوا نظر آئے گا ۔قراقرم کی چوٹیوں سے گوادر کی بندر گاہ تک مواصلات کا ایک جدید ترین نظام تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے ۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔جھل جاہو سے بیلا سیکشن کے لیے ڈیڑھ ارب روپے ۔ خضدار سے کچلاک سیکشن این 25 کو دوطرفہ کرنے کے لیے تین ارب روپے،حیدر آباد سے سکھر موٹر وے کے لیے سات اعشاریہ سولہ ارب روپے ،کراچی سے کوئٹہ کی چمن روڈ کی مرمت اور اس کو دو طرفہ کرنے کے لیے دس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔چترال اور شندور سے گزرنے والی روڈ کی مرمت اور اس کو چوڑا کرنے کے لیے دو ارب روپے۔کراچی سے لاہور موٹر وے کے کچھ سیکشن کی تعمیر کے لیے چار اعشاریہ اکسٹھ ارب روپے ۔ پاکستان ریلویز کی مرمت اور ڈرائی پورٹ کے لیے چھ اعشاریہ ستائیس ارب روپے ۔ایم ۔۸ کا ہوشاب سے آواران کے سیکٹر کی تعمیر کے لیے دو ارب روپے،گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی تعمیر کے لیے دو ارب روپے ، ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر کے لیے تین ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اس کے علاوہ مزید کئی پروجیکٹس کے لیے بھی رقوم مختص کردی گئی ہیں جن کا کل اٹھہترارب روپے بنتا ہے ۔
قارئین یہ بجٹ میں دیے گئے سی پیک کے منصوبوں کی تفصیل کا صرف ایک حصہ ہے۔کالم کی جگہ کم ہونے کی وجہ سے میں اس کا عشر عشیر بھی بیان نہیں کرسکتا ۔میں جانتا ہوں کہ آپ ساری تفصیلات جاننا چاہتے ہیں ،میں کوشش کروں گا کہ آئندہ کے کالموں میں باقی منصوبوں کی تفصیل بھی پیش کروں ۔
سی پیک واچ کے سربراہ اور سمیع حیات انٹر پرائسز کے سی ای او سمیع اللہ کی خوشیاں بحیرئہ عرب کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مار رہی ہیں۔سی پیک کے منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے میرے قلم سے روشنی پھوٹ رہی ہے ۔یہ روشنی پاکستان کے تابناک مستقبل کی عکاس ہے ۔