’’ ایک لاٹری جو اسلام آباد پولیس کی لگ گئی،،
اللہ بخشے آغا اسلم مرحوم کہا کرتے تھے کہ اگر پولیس کا سپاہی نہ چاہے تو علاقے کا بدمعاش خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو پان سگریٹ کے کھوکھے سے پان نہیں کھا سکتا۔ آغا اسلم پنجاب تعلقات عامہ کے افسر تھے اور ایک طویل عرصے تک لاہور اور پنجاب پولیس کے شعبہ تعلقات عامہ سے متعلق رہے تھے۔ ان کی عمر پولیس اور عوام کے معاملات حل کرتے اور صحافیوں کیساتھ ہی گزری اس لئے ان کے کہے پر میں آنکھ بند کر کے یقین لے آیا۔ بڑی حد تک صورتحال یہ ہے کہ صوبائی پولیس کو عموماً برا سمجھا جاتا ہے، بالخصوص سندھ اور پنجاب کی۔ پچھلے دور حکومت میں کہا جاتا تھا کہ خیبر پختونخواہ کی پولیس میں اصلاحات لائی گئی ہیں اور وہ بہت بہتر ہیں۔ اب کیا حالات ہیںکچھ زیادہ خبر نہیں؟
موٹروے اور اسلام آباد پولیس کی عمومی شہرت بہت اچھی سمجھی جاتی تھی اور کہا جاتا تھا کہ آخر یہ بھی تو پولیس ہے اور انسان ہیں۔ یہ تو رشوت نہیں لیتے اور نہ یہ برے طریقے سے پیش آتے ہیں۔ اسلام آباد میں بسنے والے ہم سب اسی خوش فہمی میں بہت عرصے سے مبتلا تھے لیکن افسوس کہ پچھلے کچھ عرصے سے میری ملاقاتیوں نے یہ خوش فہمی بھی ختم کر دی ہے۔
سب سے پہلے ہم آپ کو چوہدری ساجد اقبال کا قصہ سناتے ہیں جو جی نائن مرکز میں کاروبار کرتے ہیں اور انھوں نے کچھ عرصہ قبل شاہ اللہ دتہ کے علاقے میں مقامی لوگوں کیساتھ معاہدے کے تحت کچھ زمین خریدی۔ پیسے ادا کر دیئے، کاغذوں میں نقشے وغیرہ بنا کر اسے پلاٹ بھی دکھائے گئے جس میںسے اس نے کچھ فروخت کر دیئے۔ خریداروں میں کچھ سمندر پار پاکستانی بھی تھے۔ جب قبضے کی باری آئی تو اب یہ سب مل کر تھانے اور عدالتوں کے چکر لگانے میں مصروف ہیں۔ پچھلے پانچ سال میں چوہدری ساجد اور سمندر پار پاکستانیوں کے چکر ہیں کہ ختم نہیں ہو رہے۔ متعلقہ تھانے اور اس کا عملہ رجسٹریوں، انتقالات کے باوجود ہر مرتبہ ان سب کیخلاف ایف آئی آر درج کر دیتا ہے۔
دوسرے صاحب اکرم چوہدری ہیں، یہ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے مالک ہیں۔ انھوں نے غوری ٹائون کے سروس روڈ پر ہمدان ہائٹس میں تین فلیٹس خریدے جس کی تقریباً تمام رقم ادا کر دی تھی لیکن آج تک نہ کسی فلیٹ کا اندر سے منہ دیکھا اور نہ قبضہ لے پائے۔ اس پراجیکٹ کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ سی ڈی اے نے اس کو منظور ہی نہیں کیا۔ وہ اس کے کاغذات اور فائل کی کاپی کیلئے گئے تو دفتر والوں نے ٹکا سا جواب دیا۔ اس عمارت کی فائل میں صرف ایک کاغذ ہے جو غیر قانونی تعمیر پر جاری شدہ ایک نوٹس ہے تاہم سالہاسال یہ عمارت بنتی رہی، اس کی بکنگ جاری رہی۔ وہ پیسے وصول کرتے رہے اور سی ڈی اے لمبی تان کر سوتی رہی۔ متعلقہ پولیس نے چار ماہ کے ٹال مٹول کے بعد ایک ڈھیلی ڈھالی ایف آئی آر درج کی جسکا مقصد ملزمان کو گرفتار کرنا نہیں بلکہ انھیں ریلیف مہیا کرنا تھا کہ وہ 420 تعزیرات پاکستان کے تحت درج اس مقدمہ میں جلد از جلداپنی ضمانت کرا سکیں ۔
تیسرا مقدمہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ رانا عدیل ، طاہر خورشید اور انکے دوست معاشرے کے عام لوگ ہیں، کاروباری، پڑھے لکھے اور لکھنے پڑھنے سے متعلق ایک ادارہ چلاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے کاروبار میں اضافے کیلئے ایک اور نجی فرم کو اختیار دیا اور بطور ضمانت کچھ چیک دستخط کر کے دیئے۔ ان دونوں چیکس کی مالیت 42 لاکھ روپے تھی ان چیکوں کے عوض 52 ، 55 لاکھ روپے ادا کر چکے ہیں۔ اور ان ادائیگیوں کا تمام بینک ریکارڈ اور تفصیل ان کے پاس ہے جسے وہ کسی بھی ادارے کو دکھانے کیلئے تیار ہیں۔ کہانی میں ٹوئسٹ یہ ہے کہ دوسری کمپنی کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور کوئی پولیس افسر انکا جاننے والا ہے۔ دوسری کمپنی نے چیک بائونس کرا کے تھانے میں درخواست دیدی ہے، اب رانا عدیل اور طاہر خورشید کی کمپنی دیگر پانچ سات دوستوں کے ہمراہ ہر ہفتے لاہور سے اسلام آباد آتے ہیں، کاغذات دکھاتے ہیں لیکن گلوخلاصی نہیں ہو رہی۔ یہ صرف نمونے کے تین کیس ہیں جن میں سے تفتیش ایس ایس پی کی سطح کے افسران بھی کر چکے ہیں لیکن یہ گتھیاں سلجھ نہیں رہیں۔ یہ سب لوگ اسلام آباد کے پولیس افسران کے دفاتر میں پنگ پانگ بنے ہوئے ہیں۔ رنگ روڈ راولپنڈی کا سکینڈل ہو یا کسی بھی ہائوسنگ پراجیکٹ کا معاملہ، ہر جگہ پولیس ملوث ہے۔ تھانے بک رہے ہیں جناب!
وہ تمام تھانے جن کی حدود میں کوئی نہ کوئی ہائوسنگ سوسائٹی قائم ہے یا قائم ہونے جا رہی ہے، قانونی ہے یا غیر قانونی، ایک لاٹری ہے جو اسلام آباد پولیس کی لگ گئی ہے اورمسلسل لگی ہوئی ہے۔ تھانہ کلچر کیخلاف تقریریں اور نعرے جتنے مرضی کرا لیں کوئی شخص اس نظام کو تبدیل نہیں کر سکتا ۔عمران خان، تحریک انصاف باقی پورے ملک میں انصاف کی فراہمی کیلئے دن رات محنت کر رہی ہے مگر افسوس کہ وفاقی دارالحکومت کی پولیس عضو معطل بن کر رہ گئی ہے۔ انکی وردیاں تو خوبصورت ہیں اور سنا ہے کہ اب تھانوں کی عمارتیں بھی خوبصورت ہو گئی ہیں۔ ایک ہائوسنگ کمپنی نے تھانوں کے اندر اور باہر رنگ کر کے اپنا نام بھی لکھ دیا ہے۔ کاسمیٹک تبدیلیوں کے ذریعے عمارتیں خوبصورت بنائی جا رہی ہیں لیکن پولیس افسران کے اندر سے خوف خدا ختم ہوتا جا رہا ہے۔ نظام اپنی بد صورتی کیساتھ بری طرح اسلام آباد میں عوام کی تکلیف کا باعث بنا ہوا ہے اور کوئی صاحب اختیار نہیں جسکے کان پر جوں بھی رینگے۔
انصاف کے متلاشی ایک دفتر سے دوسرے دفتر کے درمیان جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں اور تبدیلی نظام کا خوابکسی پرانے ہسپتال کے فرش پر دھیرے دھیرے موت کی آغوش میں جا رہا ہے۔ حساس سویلین ادارے کے افسران کے نام قبضہ مافیا کی فہرست میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
انا للہ و انا الیہ راجعون