اگرچہ اسلام آباد کا موسم ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ گرم نہیں لیکن ’’دار الحکومت‘‘ کا ’’سیاسی موسم‘‘ خاصا گرم ہے فی الحال پارلیمنٹ کے اندر ’’ٹمپریچر‘‘ تیزی سے بڑھ رہا ہے کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب اپوزیشن سپیکر ڈائس کا ’’گھیرائو‘‘ کر کے پارلیمنٹ کو نہ چلنے دیتی اس پر طرفا تماشا یہ ہے کہ اب پاکستان تحریک انصاف کے ارکان میں بھی ایوان میں اپوزیشن جیسی ہنگامہ آرائی کرنے کا ’’شوق‘‘ جنون کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ۔پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار حکومتی ارکان نے ہنگامہ آرائی کرکے اپنے ہی پیش کردہ بجٹ پر اپوزیشن لیڈر کو بحث کا آغاز نہ کرنے دے کر ایک ’’غیر جمہوری‘‘ روایت قائم کر دی ہے۔ شاید حکومتی ارکان قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط سے ہی آگاہ نہیں اپوزیشن لیڈر کی بجٹ پر تقریر کے بعد ہی بحث کا آغاز ہو سکتا ہے اگر حکومتی ارکان نے اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران یہی طرز عمل اختیار کئے رکھا تو بجٹ پر بحث شروع نہیں ہو سکے گی۔ پارلیمنٹ میں شور شرابہ، ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی جمہوریت کا حسن تصور کیا جاتا ہے اگر حکومت ہی اپوزیشن کا کام شروع کردے تو پھر اپوزیشن تو ’’خوشی‘‘ کے شادیانے ہی بجائے گی کیونکہ اپوزیشن کو جو کام کرنے میں محنت کرنا پڑتی وہ پی ٹی آئی کی وجہ سے آسانی سے ہو رہا ہے جمہوری معاشروں میں حکومت اور اپوزیشن ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں دونوں کے بغیر جمہوریت کی گاڑی نہیں چل سکتی اگر ایک پہیہ ’’کمزور‘‘ ہو تو جمہوریت کی گاڑی حادثہ کا شکار ہو سکتی ہے۔ پچھلے10ماہ کے دوران قومی اسمبلی کے 10سیشن ہو چکے ہیں شاید ہی کوئی سیشن ایسا گذرا ہو جس میں حکومت اور اپوزیشن باہم ’’گھتم گتھا‘‘ نہ ہوئے ہوں ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں پارلیمنٹ کی کارروائی کے تعطل کا شکار ہونا معمول بن گیا ہے سردست قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان ایک دوسرے سے گتھم گتھاہونے سے آگے بات نہیں بڑھی ہماری پارلیمانی تاریخ میں ایک سپیکر کو تو ہلاک کرنے کا واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔ گذشتہ10سالوں کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومتوں نے اس لئے اپنی آئینی مدت پوری کی کہ دونوں نے بڑی حد تک ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر عمل درآمد کرکے ایک دوسرے کو برداشت کیا ایک دوسرے کی حکومت گرانے میں توانائی صرف کرنے کی بجائے ’’فرینڈلی‘‘ ماحول پیدا کئے رکھا۔ اگرچہ کچھ لوگوں کے خلاف مقدمات کا اندراج ضرور ہوا لیکن سیاست دانوں سے جیلیں بھرنے کی بجائے ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی اختیار کی گئی۔ جب 2014ء میں پارلیمنٹ پر ’’حملہ‘‘ ہوا تو یہ اس وقت کی اپوزیشن ہی تھی جو پارلیمنٹ کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ آج ملک میں افسوس ناک صورت حال ہے وزیراعظم عمران خان پچھلے 10ماہ کے دوران ایک بار بھی پارلیمنٹ سے خطاب نہیں کر سکے انہیں اس بات قلق بھی ہے لیکن انہیں اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جو حکومت اور اپوزیشن کو قریب آنے کی راہ میں حائل ہیں۔ اپوزیشن کو شکایت ہے کہ حکومت کا ’’متکبرانہ‘‘ طرز ملک میں سارے فساد کی جڑ ہے ہے وزیراعظم بقول ان کے کہ ’’وہ ڈاکوئوں اور چوروں کے گروہ سے ملاقات ہی نہیں کرنا چاہتے‘‘۔ حکومتی طرز عمل کے نتیجہ میں ’’اپوزیشن موجودہ حکومت کو ’’دھاندلی‘‘ کی پیدوار اور عمران خان کو ’’سلیکٹیڈ پرائم منسٹر‘‘ کا طعنہ دیتی ہے کل تک پاکستان تحریک انصاف جو نعرہ نواز شریف کی حکومت کے خلاف لگاتی تھی وہ نعرہ آج عمران خان کی حکومت کے خلاف لگ رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے خزانہ حماد اظہر کے وفاقی بجٹ 2019-20ء پیش کرتے وقت اپوزیشن نے روایتی انداز میں ہنگامہ آرائی کر کے جہاں ان کی تقریر میں خلل ڈالا وہاں عمران خان کی موجودگی میں ان کے خلاف نعرے بازی کرکے انہیں ’’ناراض‘‘ بھی کر دیا جس کے بعد حکومت نے اپوزیشن لیڈر کو بجٹ پر بحث کا آغاز نہ کرنے دینے کا فیصلہ کیا ۔ گذشتہ ہفتہ کی سب سے بڑی ’’سیاسی‘‘ خبر سابق صدر آصف علی زرداری کی ’’جعلی اکائونٹس‘‘ کیس میں گرفتاری تھی اس کے بعد ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی گرفتاری عمل میں لائی گئی یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں آصف علی زرداری کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی درخواست بھی جمع کرادی ۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے ایوان میں آصف علی زرداری اور دیگر زیر حراست ارکان اسمبلی کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد نے تو قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر سے ملاقات بھی کی لیکن تاحال سپیکر پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے بارے میں ’’تذبذب‘‘ کا شکار ہیں ۔
دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اپوزیشن رہنماوں کی گرفتاری پر دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ ’’بڑی گرفتاریاں ہو گئیں، اللہ تعالیٰ کو پاکستان پر رحم آگیا ہے جو لوگ پکڑے جارہے ہیں اس سے ہمارے بیانیے کو تقویت ملے گی۔ کرپٹ افراد کی آگے بھی گرفتاریاں ہونگی‘‘ وزیراعظم کے بیان سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے وہ اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈال کر ہی حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی وزیر مملکت برائے خزانہ حماد اظہر کی بجٹ تقریر کے دوران احتجاج اور ہنگامہ آرائی‘‘ کے بارے میں تذبذب کا شکار تھی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کا کچھ حصہ ’’خاموشی‘‘ سے سننے کے حق میں تھے اس کے بعد حالات دیکھ کر احتجاج کرنا چاہتے تھے ان کی رائے تھی کہ اگر سپیکر آصف علی زرداری کا پروڈکشن آرڈر جاری کر دیتے ہیں تو وزیر مملکت برائے خزانہ حماد اظہر کی تقریر میں ہنگامہ آرائی نہ کی جائے لیکن سپیکر نے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کیا قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھر پور احتجاج کے حق میں تھیں سپیکر پروڈکشن آرڈر جاری کر کے اپوزیشن کو ’’منقسم‘‘ کر سکتے تھے لیکن انہوں نے یہ موقع گنوا دیا اور اپنے طرز عمل سے اپوزیشن کو ایک ’’صفحہ‘‘ پر لا کھڑا کیا مسلم لیگ (ن) کے ارکان حکومت کے خلاف پلے کارڈ بنوا کر لائے تھے سو انہوں نے اپوزیشن کے ارکان میں تقسیم کر کے اپنا ’’سیاسی شو‘‘ کامیاب کروا لیا۔ اپوزیشن رہنمائوں کی گرفتاریوں پر جمعیت علما اسلام (ف )کے امیر مولانا فضل الرحمن بڑے خوش دکھائی دیتے ہیں وہ تو کب سے تحریک شروع کرنے کے لئے پر تول رہے تھے وہ تو پوری اپوزیشن کو 10ماہ قبل ہی سڑکوں پر لانے کی کوشش کر رہے تھے شاید اللہ تعالیٰ نے ان کی سن لی ہے انہوں نے جمعیت علما ء اسلام(ف) کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس 19جون 2019ء کو اسلام آباد میں طلب کر لیا ہے جس میں آل پارٹیز کانفرنس کے انتظامات کا جائزہ لیا جائے گا آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے شیڈول کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ بلاول بھٹو زرداری آل پا رٹیز کانفرنس جلد بلانے کی خواہش رکھتے ہیں انہوں نے متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں بھی جمعیت علما اسلام (ف) کے رہنما مولانا عبدالوسیع سے آل پارٹیز کانفرنس کی تاریخ کے بارے میں استفسار بھی کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’لگتا ہے نیب نے حکومت کیخلاف تحریک شروع کرا دی ہے، گرفتاریاں سیاست کا حصہ ہوتی ہے، سیاست دان گرفتاریوں سے نہیں گھبراتے، یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘ آصف علی زرداری کی گرفتاری اس وقت عمل میں لائی گئی ہے جب اپوزیشن تحریک چلانے کی تیاری کر رہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن از راہ مذاق کہا کرتے تھے کہ اپوزیشن لیڈروں کو تحریک چلانے کے لئے جیل جانے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو ہمیں جیل میں ہی اجلاس بلانا پڑ جائے اتوار کو پاکستان مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز کی دعوت پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ’’جاتی امرائ‘‘ میں ظہرانہ میں شرکت ملک کی سب سے بڑی خبر ہے قبل ازیں مریم نواز بلاول بھٹو زرداری کی دعوت پر ’’زرداری ہائوس‘‘ میں افطار ڈنر میں شرکت کر چکی ہیں اس وقت میاں نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں ہیں جب کہ آصف علی زرداری اسلام آباد میں نیب کی تحویل میں ہیں۔ دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی نئی نسل ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے میدان عمل میں اترنے والی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان کے پاس اب بھی وقت ہے وہ اپوزیشن کی طرف ’’دوستی‘‘ کے لئے ہاتھ بڑھائیں اور اسے’’ایجی ٹیشن‘‘ کی راہ پر چلنے کی بجائے ’’ڈائیلاگ‘‘ پر آمادہ کرنا چاہیے اگر ڈائیلاگ کا وقت بھی ہاتھ سے جاتا رہا تو پھر پیچھے کچھ نہیں بچے گا۔ انہیں پارلیمنٹ میں اپنی نشست سے دو قدم پر بیٹھے اپوزیشن لیڈر سے مصافحہ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے ملک کو بحران سے نکال کر منزل مقصود کی طرف لے جانے کی تدبیر کی جائے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری ان گذارشات کو کوئی ’’قابل در خور اعتنا‘‘ بھی سمجھتا ہے کہ نہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024