امیدوں کے برعکس

مشکل معاشی اہداف مقرر کئے گئے ہیں۔ حکومت پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس اور دوسری ضروریات زندگی پر مزید ٹیکس لگا سکتی ہے۔ پاکستان میں آمدن پر ٹیکس کی شرح 11 سے 12 فیصد تک ہے جو دنیا میں سب سے کم ہے۔ ایک لاکھ روپے ماہوار کمانے والا ایک ہزار روپے ٹیکس بھی نہیں دیتا ۔ 5 کروڑ سے زائد بینک اکائونٹس ہولڈرز میں سے صرف 10 لاکھ ٹیکس گوشوارے داخل کرتے ہیں، باقی سب کو نان فائلرز کہا جاتا تھا۔ ٹیکسٹائل سیکٹر 12 سو ارب کا کپڑا بیچ کر 8 ارب روپے ٹیکس دیتا ہے۔ بیشتر پاکستانی آئی ایم ایف کے تباہ کن کردار کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہیں۔ اس کی مشاورت سے فوجی اخراجات میں کمی سمیت نئے مالی سال کا بجٹ تیار ہوا ہے۔ حکومت کی کارکردگی پر مسلسل سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ ورلڈ بنک کے نزدیک پاکستانی 8 ہزار ارب روپے ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ پیپلز پاٹی اور ن لیگ کے دس سالہ دورِ اقتدار میں 24 ہزار ارب روپے قرض لیا گیا جبکہ پاکستان کے پہلے 60 سال میں صرف 6 ہزار ارب روپے قرض لیا گیا تھا۔ قرضوں کے لیے تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا ہے جو 2008ء سے 2018ء تک کچا چٹھا سامنے لائے گا۔ یہ ایک اور جے آئی ٹی ہے جس کے 10 والیم تیار ہوئے تھے جو سارے کے سارے طشت ازبام نہیں ہوئے۔ ن لیگ کے دور میں بارہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوئی۔ مہمند بھاشا ڈیم کے لیے 120 ارب روپے خرچ کر کے زمین خریدی گئی۔ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس سے استثناء کی بھی مقرر کر دی گئی ہے۔ جب ہر لین دین پر ٹیکس عائد ہے تو پھر عام پاکستانی کو گوشواروں کے چکر میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔ گوشوارے کمپنیوں اور کاروباری اداروں کیلئے ٹھیک ہیں۔ عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنے میں کون سی رکاوٹ حائل ہے۔ ٹیکس کا پیچیدہ نظام شبرزیدی اور حفیظ شیخ عام آدمی کیلئے قابل فہم نہیں بنائیں گے تو اور کون بنائے گا؟ مقتدر رہنے والے لیڈر منی لانڈرنگ، جعلی اکائونٹس، کِک بیک اور کمیشن کے ٹریل بھگت رہے ہیں۔ شبر زیدی کیلئے 5555 ارب کے ٹیکسوں کا ہدف پورا کرنا ہی ان کا امتحان ہو گا۔ صوبوں کو 60 فیصد دیکر وفاق پہلے دن ہی خسارے میں چلا جاتا ہے۔ بجٹ کا مجموعی تخمینہ 7000 ارب روپے ہے جبکہ وصولیوں کا تخمینہ 5550 ارب روپے ہے۔ دفاعی بجٹ 1152 ارب کی پچھلے سال کی حد پر برقرار ہے۔ ترقی کے لیے 925 ارب میسر آئیں گے۔ بجٹ خسارہ 3151.2 ارب روپے ہے۔ صوبوں کو 3 ہزار 255 ارب دئیے جائیں گے۔ قرضوں پر محض سود کی ادائیگی کے لیے 2891.4 ارب روپے کی خطیر رقم صرف کرنا ہو گی۔ 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس شاید قبروں پر عائد کرنا یاد نہیں رہا۔ محصولات کا ہدف گزشتہ ہدف سے 39 فیصد زیادہ ہے۔ زراعت کی شرح نمو 0.8 فیصد پر آ گئی ہے۔ زرعی شعبے کی فی ایکڑ پیداوار گر گئی ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح 2.4 فیصد سالانہ ہے جو زراعت کی موجودہ شرح نمو سے بہت زیادہ ہے۔ 300 کمیٹیاں ملک کے مجموعی ٹیکس کا 85 فیصد دے رہی ہیں۔ بجٹ میں ٹیکسوں کا انبار ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے انہوں نے ملک کودیوالیہ ہونے سے بچا لیا، معیشت اب ٹیکس آف کرے گی ، وہ دن روز عید ہو گا جب عام پاکستانی کی معیشت ٹیک آف کرے گی۔ جاری مالی سال میں 447 ارب کے شارٹ فال کے باوجود 5500 ارب کا ٹارگٹ فکس کیا گیا ہے جبکہ 18-19 سال کا ٹارگٹ 4398 ارب تھا۔ محاصل کا ٹارگٹ عوام کی جیبوں سے ہی پورا کیا جاتا ہے۔ پاکستانی معیشت کاخلاصہ دو الفاظ پر مشتمل ہے۔ ٹیکس اور قرضے ایشیائی بینک بجٹ کی سپورٹ کے لیے 3.4 ارب ڈالر کا قرضہ دے گا۔ قرضہ دینے والے ساہوکار اور لینے والے گاہک ہوتے ہیں۔ ساہوکار رات دن گاہک ڈھونڈتا ہے اور ہم جیسے گاہک آسانی سے میسر آ جاتے ہیں۔ سیاست میں ’’مظلوم‘‘ مریم نواز اور بلاول کی طرف سے عمران خان کی دیوار اقتدار میں شگاف ڈالا جا سکتا ہے۔ ہاتھ پائوں مارنے کی کوشش کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اہل حکم کتنے اور کب تک اپنے ’’دشمنوں،، کو پابند سلاسل رکھ سکتے ہیں۔ طویل اسیری قیدی کا چہرہ نکھار کر اسے نیلسن منڈیلا بھی بنا دیتی ہے یا پھر اس کا جسدِ خاکی باہر لاتی اور اسے امر بناتی ہے یا ایوان صدرمیںزرداری کی طرح پانچ سال گارڈ آف آنر پیش کراتی ہے اسی کو ایام میں اول بدل کہتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ وقت بھی آنا تھا کہ باریاں لینے والی دو بڑی پارٹیوں کے قائد پابند سلاسل ہیں۔ نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہے۔ سینکڑوں بار اندرون اور بیرون ملک سلامیاں سیلوٹ اور گارڈ آف آنر ملے۔ دوسری طرف آصف زرداری صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ دن رات دنیا نے سلام کئے مردِ خُر کا خطاب ملا لیکن آج یہ دونوں محترم شخصیات زندان خانے کے داروغہ کی مرضی کے بغیر کھلے آسمان تلے واک بھی نہیں کر سکتے۔ مقررہ وقت اور دن سے پہلے اپنے پیاروں کو پیار دے سکتے ہیں نہ لے سکتے ہیں۔ پاکستانی عوام یہ سوچتے ہیں کہ یہ لوگ اتنے بُرے تھے چور ڈاکو تھے تو پھر اقتدار کی چوٹی سر کرنے میںکیسے کامیاب ہوئے یا پھر یہ اتنے بے عقل تھے کہ پھونک پھونک کر چلنا نہیں جانتے تھے۔ پاکستان میں طویل دورانیوں کے مارشل لاء سے انہوں نے سبق کیوںنہیں سیکھا تھا وہ یہ کیوں نہ جان سکے کہ اقتدار کا سرچشمہ عوام نہیں کوئی اور ہے۔ بھینس اُسی کی ہوتی ہے جس کے پاس لاٹھی ہو، لاٹھی سر پر مار دی جائے تو جان بھی جا سکتی ہے۔ کسی کی جان لینے کیلئے خودکش حملہ بارودی سرنگ بچھانا ضروری نہیں ایف آئی آر ’مقدمے، جے آئی ٹی کے جال میں پھنسی مچھلی کا دوبارہ دریا میں اچھلنا خواب و خیال رہ جاتا ہے۔ اگر ان کے مشیروں میں کوئی ایک بھی رجلِ رشیدیا اُولُوالاَلبَاب میں سے ہوتا تو نواز ریف اور زرداری احتساب عدالتوں کے بنچوں پر بیٹھے دکھائی نہ دیتے۔ حمزہ شہباز اداکاری سے نواز شریف نہ بن سکے اور نہ ہی بلاول ذوالفقار علی بھٹو کا روپ دھار سکے۔ کیا وجہ ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت کے وزرائے اعظم نادانی کی اس حد تک نہ گئے کہ تہاڑ جیل ان کا مقدر بنتی نہ ہی کسی امریکی صدر کے نصیب میں احتساب عدالتیں اور ان کی پیشیاں رقم تھیں۔ بس ہر کسی کو اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے۔