وزیر اعظم عمران خان نے اسلامی ممالک تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی فوبیا اور دہشتگردی نے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچایا۔ مغرب اب تک اسلام کا غلط تصور پیش کر رہا ہے۔ 9/11 کے بعد کشمیر اور فلسطین کے عوام پر ہر طرح کے ظلم ڈھائے گئے۔ او آئی سی ممالک کشمیر اور فلسطین کے مظلوم عوام کا ساتھ دیں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کیا جائے ۔ انہوں نے کہا نبی اکرمؐ کی محبت ہی ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ اسلامی ممالک کو دنیا کو بتانا ہو گا کہ رسالت مآبؐ کی توہین سے ہمیں دکھ پہنچتا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اسلامی ممالک کا واضح مئوقف ہونا چاہیے ۔ او آئی سی ممالک جن کے بھارت سے اچھے تعلقات ہیں اور بھارت کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیں۔ او آئی سی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یوسف الدوابی کو اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے۔ جو کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں پر نظر رکھے گا۔ جو کہ اچھی پیش رفت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی الیکشن کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں واضح کیا تھا کہ بھارتی حکومت اور نریندر مودی کو پیغام بھیجا تھا جس میں نیک خواہشات کیساتھ بامعنی مذاکرات پر زور دیا گیا۔ یہ ان کے منصب کا تقاضا ہے کہ وہ پوری دنیا میں کشمیری پالیسی واضح کریں۔ عمران خان نے اپنی پارلیمنٹ اور پاکستان کے اندر ، باہر بین لاقوامی رہنمائوں سے ملاقات کے وقت بھی ڈنکے کی چوٹ پر اپنا مافی الضمیر کھل کر بیان کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام کی بھرپور ترجمانی کی ہے اور مسئلہ کشمیر کے پر امن حل پر زور دیا ہے۔ موجودہ حکومت اور عمران خان کی کمٹمنٹ نظر آتی ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی نے بھی یو این او سمیت ہر فورم پر ڈٹ کر کشمیریوں کی حمایت کی ہے۔ آل پارٹی حریت کانفرنس اور دیگر کشمیری قیادت اس بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پاکستان میں ماضی کے حکمرانوں نے یہ بات نہ کی تھی ۔ ایسا بھی ہوا کہ مودی بغیر پروگرام میاں محمد نوازشریف کے گھر رائیونڈ ان کی سالگرہ کی تقریب اور نواسی کی شادی میں شرکت کیلئے پہنچ گئے تھے۔ حالانکہ ملکی ادارے حکومت اور کابینہ تک لا علم تھے۔ جس سے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ آل پارٹی حریت کانفرنس کے رہنمائوں سید علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور یٰسین ملک اور دیگر نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی تنظیم ، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی پر بنائے گئے بے لگام قانون کو ظلم کے عنوان سے رپورٹ جاری کی ہے جس میں جموں کشمیر ، پبلک سیفٹی ایکٹ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیتے ہوئے جموں کشمیر سیفٹی ایکٹ کو منسوخ کرنیکا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 220 گرفتار کشمیریوں پر تحقیق کے بعد رپورٹ جاری کی ہے۔ کالے قوانین کے تحت زیر حراست افراد کو شفاف ٹرائل کے حقوق سے محروم رکھا گیا۔ انہیں ضمانت کا حق بھی نہیں دیا گیا۔ گوانتا مابے جیل کی طرز پر مظالم بچوں کو ٹھوس ثبوت کے بغیر حراست میں لیا جانا ضمانت ہونے پر نئی ایف آئی آر پر اسی وقت دوبارہ گرفتار کیا جانا بیک وقت دونوں قانون کے تحت گرفتار رکھا جاتا ہے۔ کالے قوانین کے تحت بیگناہ ثابت ہونے اور رہائی کے بعد ملازمت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ضمانت میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ 90 فیصد کیسوں میں نظر بند افراد کو دو ، دو کیسوں میں پکڑا اور بہت دور جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ تاکہ لواحقین کی ملاقات کرنا ممکن نہ ہو۔ عدالتی نظام مکمل انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ 2 سال نظر بند رکھنے کی اجازت ہے۔ ماضی میں بھی انسانی حقوق کے ادارے سنگین خلاف ورزیوں کی رپورٹ جاری کر چکے ہیں۔ نام نہاد جمہوریت مودی سرکار کی ظالمانہ اور سفاکانہ ہتھکنڈے ہیں۔ گورنر ایس بی ملک نے مقبوضہ جموں کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر میں حصہ لینے والے نوجوانوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ اس سے قبل بھی مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومتوں نے دیکھا کہ جب تحریکی سرگرمیاں زور پکڑ رہی ہیں تو کشمیریوں کو بے مقصد مذاکرات کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس کا مقصد تحریک کو کمزور کرنا اور لوگوں کو پابند سلاسل کرنا ہے۔ مودی سرکار ایک منظم منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں آئینی اور انتظامی تبدیلیوں کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں۔ صرف وقت اور منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اس وقت بھارت کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہو گا۔ جہاں تک پاک بھارت مذاکرات جو کہ قیام پاکستان کے بعد 1947ء سے اب تک جاری ہیں 1953ء میں امریکہ نے گہری دلچسپی کا اظہار کیا تو مذاکرات نے تین آپشن زیر غور آئے۔ (1) پوری ریاست میں رائے شماری (2) صرف وادی کشمیر میں رائے شماری (3) پاک بھارت مشترکہ کنٹرول۔ یہ مذاکرات پنڈت جواہر لعل نہرو اور پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کے درمیان ہوئے۔ اسی سلسلے میں جولائی 1953ء میں نئے مذاکرات ہوئے جس میں پنڈت جواہر لعل نہرو اور محمد علی ڈوگرہ نے حصہ لیا۔ کشمیر میں رائے شماری پر غور اور ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن عمل درآمد نہ ہو سکا۔ 1962ء میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سورن سنگھ کے درمیان مذاکرات ہوئے اور امید لگائی گئی تھی لیکن کوئی مثبت بات نہ ہوئی۔ 1965ء کی جنگ کے بعد روس کے تعاون سے تاشقند معاہدہ ہوا۔ 1971ء کی جنگ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور ایندرگاندھی مذاکرات نے شملہ معاہدہ ضیاء الحق کے دور میں کرکٹ ڈپلومیسی میاں محمد نوازشریف دور میں واجپائی بس پالیسی مشرف دور میں آگرہ معاہدہ اس طرح کئی سربراہی اور خارجہ سطح پر مذاکرات بھی ہوئے لیکن بے مقصد رہے۔ بھارت کبھی ممبئی حملہ کبھی پارلیمنٹ حملہ کبھی سمجھوتا ایکسپریس حادثہ کبھی پلوامہ حملہ سمیت ہمیشہ ایسے واقعات کرا کر مذاکرات ختم کر دیتا ہے۔ بین الاقوامی پریشر ہو تو مذاکرات شروع کرتا ہے ورنہ طاقت کے زور سے کشمیریوں کو دبایا جاتا ہے۔ حالانکہ بھارت کے اندر سے بھی آوازیں اٹھتی ہیں لیکن نریندر مودی ہندو ازم سے باہر نہیں آتے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024