آئی جی پنجا ب اور توقعات
اگر پنجا ب پولیس واقعی میری پولیس ہے تو اسے خوف کی علامت نہیں بننا چاہیے ۔بلکہ پولیس کو اپنے طرز عمل سے عوام کے اندر احساس تحفظ پیدا کرنا چاہیے۔ ملک میں امن کی بحالی میں جہاں پاک فوج نے بہت قربانیاں دیں ہیں وہیں پولیس فورس بھی اس امن بحالی میں پوری طرح سے شریک رہی ہے۔ پولیس کے سینکڑوں جوان بھی اس کوشش میں شہید ہوئے ہیں۔ پولیس سروس میں بھی بے شمار پولیس آفیسرز ایسے ہیں جو اپنے کام،لگن، اہلیت،ایمانداری سے اپنا منفرد مقام رکتھے ہیں،جو کسی خوف،سفارش کو خاطر میں نہیں لاتے اور ایسے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیتے ہیں کہ لوگوں نے ان پر اپنی محبتوں کے پھول نچاور کئے۔آئی جی پولیس کیپٹن (ر) محمد عارف نواز خان سے صوبے کے عوام کو بہت سی توقعات ہیں ۔انہیں پولیس کی تربیت ایسے خطوط پر کرنا ہوگی کہ پنجاب پولیس مکمل طور پر پیشہ وارانہ اور غیر جانبدار ہو کے اپنی ڈیوٹی ادا کرنے لگے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے دُہائی دی جاتی رہی ہے کہ پنجاب میں تھانہ کلچر بدلنے کی بہت ضرورت ہے ۔پولیس ایکٹ میں ترامیم کی بھی بات کی جاتی ہے ۔پولیس ملازمین کے رویوں میں بہتری کیلئے کام کرنے پر بھی زور دیا جاتا رہا ہے ۔لیکن کہا جاتا ہے کہ آپ صوبے میں اچھے سے اچھا آئی جی لگا دیں،آر پی او لگالیں،سی پی او بدل دیں مگر عوام کو اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا ہے جب تک آپ تھانے کے اندر کا ماحول نہیں بدلنے کی کوشش کرتے ۔جب تھانیدار اور منشی حضرات کی جدید خطوط پر تربیت نہیں کی جاتی ان کے کام کے اوقات طے نہیں کیے جاتے تو ان سے بہتر نتائج کا حصول مشکل رہے گا ۔کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ عوام نے کسی بھی مشکل کی صورت میںآئی جی یا آر پی او کے پاس نہیں بلکہ تھانے میں موجود منشی اور تھانیدار کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے ۔اور جان کی امان پاں تو عرض کرتا چلوں کہ بہت سے تھانوں میں یہ دو نوں صاحبان آج بھی پرانے وقت کی سوچ سے چل رہے ہیں ۔بہت سے تھانوں میں تعاون نہ کرنے والوں کو پولیس کیسے تنگ کرتی ہے یہ سب جانتے ہیں۔اور پھر لوگ ساری پولیس سے ہی متنفر ہو جاتے ہیں کہا جاتا ہے کہ خیبر پختونخوامیں پولیس اس لئے بہتر نظر آتی ہے کہ وہاں تھانوں کا ماحول بدل گیا ہے، ان کی عمارتیں اور اندرونی ماحول پنجاب کے تھانوں جیسا نہیں رہا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہاں کے تھانوں کو جدید طرز پر بنایا گیا ہے جبکہ دوسری طرف آج بھی پنجاب کے بہت سے تھانے ایسی پرانی عمارتوں میں ہیں کہ اندر داخل ہوتے ہی خوف اور وحشت طاری ہو جاتی ہے۔ پچھلی حکومت نے پنجا ب پولیس کی وردیاں بدلنے پر جتنا خرچہ کیا اگر وہی رقم تھانوں کی حالت بہتر کرنے پر خرچ کی جاتی اوراسی رقم میں سے کچھ رقم پولیس ملازمین کو جدید تربیت دینے پر خرچ کی جاتی تو پولیس کی کارکردگی بہتر ہوسکتی تھی ۔لیکن افسوس پنجاب کے دریا تو پانچ نہ رہے لیکن پنجاب میں پانچ ناموں کی پولیس ضرور بھرتی کر لی گئی۔خیر لکیر پیٹنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو ماضی کی غلطیوں سے سیکھ لے کے مستقبل کیلئے بہترین منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ موجودہ آئی جی پنجا ب پولیس کیپٹن (ر) محمد عارف نواز خان کے بارے کہا جاتا ہے کہ موصوف ایک اچھے،کمیٹڈ اور مثبت سوچ رکھنے والے افسر ہیں، وہ دوسری بار آئی جی پنجاب پولیس تعینات ہوئے ہیں 1986ء میں پولیس سروس جوائن کرنیوالے یہ بہادر سپوت سمجھتے ہیں کہ اگر پولیس اپنے دامن کو کرپشن اور ناانصافی کے الزامات سے پاک کر لیتی ہے تو وہ جلد عوام کے دلوں میں گھر کر سکتی ہے۔ انہوں نے جب سے پنجا ب پولیس کی کمان سنبھالی ہے وہ پولیس نظام کو بہتر کرنے کی مسلسل کوشش میں لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پولیس کے حوالے سے عوامی شکایات کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جائیگا۔ شکایات کے ازالے کیلئے بروقت اقدامات نہ کرنیوالے افسران کیخلاف محکمانہ کاروائی میں تاخیر کا سبب بننے والے افسران بھی خود کو کسی رعائیت کا مستحق نہ سمجھیں،پنجاب پاکستان کا دل ہے اگر پنجاب میں امن وامان کی فضا بہتر ہو گی تو پورے ملک میں اچھا تاثر جائے گا۔۔ایک طرف عام شہریوں سے بہتر سلوک کیا جائے تو دوسری طرف معاشرے کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے ڈاکوؤں،راہزنوں اور چوروں کے خلاف اصل معنوں میں جارحانہ پولیسنگ کا آغاز کیا جائے،اگر صوبے کو امن و امان کا گہوراہ بنانا توپنجاب پولیس کے سربراہ کو حکومتی اداروں کی جانب سے بھی مکمل سپورٹ ملتی رہنی چاہیے۔ پولیس کو مزید بہتر کرنے کے اقدامات جاری رہنے چاہیے، آئی جی پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس کے اہلکار فرائض کی ادائیگی کے دوران خوش اخلاقی اور شائستگی کو اپنا شعار بنائیں اور خدمت خلق کے جذبے سے عوام کی جان ومال کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے محکمے کی عزت و وقار میں اضافے کا باعث بنیں۔آئی جی صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اپنی توجہ اس امر پر بھی رکھیں کہ پولیس کے جوانوں کی جدید طرز پر تربیت ہو اور ان کے کام کرنے کے اوقات بھی طے ہوں ۔ پولیس سٹیشنوں کی حالات کو بہتر بنایا جائے۔ شہید یا شدید زخمی ہونیوالے پولیس ملازمین کے خاندانوں کی فلاح و بہبود پر خاص توجہ دی جائے۔آئی جی صاحب کوشش کریں اور حکومت کو درخواست کریں کہ ہر بڑے شہر میں پولیس والوں کیلئے بھی کوئی ایک الگ ہسپتال بن جائے۔ جہاں پولیس کے جوانوں کا بہتر انداز میں علاج ہو سکے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024