غزل
جو تیری دید کو ترسا بہت ہے
اسے یہ ہجر کی دنیا بہت ہے
محبت کے سمندر میں نہ اترو
یہاں پانی ابھی گہرا بہت ہے
کبھی آئو اسے آباد کرنے
مرا ویران دل تنہا بہت ہے
ہمیں لعل و جواہر سے غرض کیا
کہ چاہت کا تری گہنا بہت ہے
بڑی مہنگی پڑے گی زندگانی
لہو انسان کا سستا بہت ہے
ابد تک تشنگی قائم رہے گی
ازل سے دل میرا پیاسا بہت ہے
تمہیں بھی چھین کر کوئی نہ لے جائے
تمہارے بارے میں سوچا بہت ہے
سمجھتے ہیں ہمیں اپنا وہ اختر
ہمارے واسطے اتنا بہت ہے
(حکیم سلیم اختر)