فطرت نے ڈاکٹر وزیر آغا کو زرخیز دماغ دیا
مجھے وزیر آغا کی یہ خوبی منفرد نظر آتی ہے کہ وہ ایک پسماندہ گائوں میں پیدا ہوئے۔ معمولی ٹاٹ مدرسوں میں تعلیم حاصل کی لیکن ایم اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا جو پنجاب کی اعلیٰ ترین درس گاہ تھی۔ بالفاظ دیگر ان کا آغاز نہایت کمزوز قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ انہیں ابتدائی درجوں پر ہی اچھے اساتذہ ملے۔ ان کے والد آغا وسعت علی خان نہ صرف علم دوست انسان تھے بلکہ تصوف سے بھی انہیں گہرا لگائو تھا۔ ان کی تربیت نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا لیکن یہ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ مبدائے فطرت نے وزیر آغا کو زرخیز دماغ عطا کیا تھا اور وہ سکول کے ابتدائی درجوں میں ہی مشکل کتابیں نہ صرف پڑھنے لگے تھے بلکہ ان کے مفاہیم اپنے دوستوں کو سمجھانے بھی لگے تھے۔ اس ضمن میں وہ اکثر اپنے ہم عمر بھانجے شمس آغا کا ذکر کرتے جس کے ساتھ شام کی سیر میں وہ علامہ اقبال کے اشعار پر بحث کرتے تھے۔
وزیر آغا کے والد محترم کا پیشہ کاشتکاری تھا۔ وزیر آغا نے ایم اے اقتصادیات میں کیا۔ والد انہیں فوج میں لیفٹیننٹ بنانا چاہتے تھے لیکن وزیر آغا کو انگریزوں کی نوکری پسند نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے گھوڑوں کا آبائی کاروبار شروع کیا اور ایک مرتبہ اچھے گھوڑوں کی تلاش میں بمبے کا دورہ بھی کیا لیکن یہ پیشہ بھی انہیں پسند نہ آیا۔ چنانچہ کاشتکاری کی طرف آ گئے اور اناج کی فصلوں کے علاوہ اپنی زمینوں پر پھلوں کے پودے اگانے لگے۔ زندگی کا یہ شبہ ان کے خاندان کی کفالت کے لیے تھا۔ ذہنی طور پر ان کی دلچسپی فنون لطیفہ تھی۔ تک بندی تو وہ اپنے بچپن میں ہی کرنے لگے تھے لیکن گورنمنٹ کالج لاہور میں وہ انگریزی میں نظمیں بھی لکھنے لگے۔ ایم اے کرنے کے بعد ان کی ملاقات شمس آغا کے وسیلے سے ’ادبی دنیا، کے مدیر مولانا صلاح الدین احمد سے ہوئی اور انہوں نے وزیر آغا کو ’ادبی دنیا‘ کے دور پنجم میں شریک مدیر بنا لیا۔ مولانا صلاح الدین احمد بیرونی سطح پر اور آغا وسعت علی خان اندرونی (خاندانی) سطح پر ان کے رہنما تھے اور ان کی تربیت نے وزیر آغا کی سوچ کو ایسی انگیہخت کہ پاکستان کے ادبی منظر پر شاعر، نقاد اور انشائیہ نگار کی حیثیت میں رونما ہو گئے۔ اہم بات یہ کہ مولانا صلاح الدین احمد کی وفات کے بعد جب ’ادبی دنیا‘ کا مدیر جناب عبداللہ قریشی کو مقرر کر دیا گیا تو وزیر آغا نے دل برداشتہ ہونے کی بجائے اپنا رسالہ ’اوراق‘ جاری کر دیا۔ اچنبھے کی بات یہ کہ اوراق میں ان کے شریک مدیر عارف عبدالمتین تھے جو ترقی پسند شاعر اور ادیب تھے اور وزیر آغا کے ادبی تصورات سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ ان متضاد خیال کے ادیبوں نے صرف ادب کو اہمیت دی اور رسالہ ’’اوراق‘‘ میںا نہوں نے نئے خیالات کی جوت جگائی۔ بعد میں عارف عبدالمتین اپنے ترقی پسند دوستوں کے طعنوں کا شکار ہو گئے اور وزیر آغا کے اوراق سے الگ ہو گئے۔ ان کے بعد سید سجاد نقوی، سلیم آغا قزلباش اور کچھ عرصے کے لیے انور سدید نے ان کی معاونت کی لیکن یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ’’اوراق‘‘ کے روح رواں وزیر آغا ہی تھے اور ہماری معاونت رسمی تھی تاہم اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں کہ آغا صاحب سے میری دوستی قائم ہوئی تو انہوں نے مجھے کبھی اپنی عظمت کا احساس نہیں ہونے دیا اور میری تربیت میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ میں نے ایم اے اور پی ایچ ڈی ان کے مشورے پر ہی کیا تھا۔ مختلف موضوع تجویز کرتے اور تھوڑے وقت میں مجھے مضمون لکھنے کے لیے کہہ دیتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشتاق قمر کی کتاب ’’ہم ہیں مشتاق‘‘ کا پیش لفظ مجھ سے لکھوایا تو میرے باطن سے انشائیہ نگاربیدار کر دیا۔ میں نے ’تک بندی‘ شروع کی تو غلام حسین صاحب اور سجاد نقوی نے مذاق اڑایا لیکن آغا صاحب نے اس کی نوک پلک درست کرکے ’’اوراق‘‘ میں چھاپ کر میرے اعتماد کو شکستہ ہونے سے بچا لیا۔ یہ الفاظ لکھتے ہوئے میں تسلیم کرتا ہوں کہ اگر وزیر آغا صاحب سے ملاقات اور ان سے مجالست و موانست نصب نہ ہوتی تو میں محمد انوار الدین ہی رہتا۔ انور سدید نہ بنتا۔
وزیر آغا ادب کو پورا وقت دیتے تھے لاہور جاتے تو نئی کتابوں کے انبار لے آتے۔ خود پڑھتے اور حلقہ احباب میں بیٹھنے والوں کو پڑھاتے اور پھر شام کی محفل میں بحث کرتے۔ گائوں جاتے تو کاشتکاری سے وقت نکال کر اپنے الگ کمرے میں تصنیف و تالیف میں مصروف ہو جاتے۔ اردو ادب میں طنز و مزاح، نظم جدید کی کروٹیں، خیال پارے، شام اور سائے، تنقید اور احتساب، نئے مناظر، تخلیقی عمل، تصورات عشق فرد، اقبال کی نظر میں اور دیگر کئی کتابیں انہوں نے اپنے گائوں میں لکھیں۔ ان کی نظریہ سازی کا عمل بھی وہی سے ہوتا تھا۔ سرگودھا آئے تو شام کو پروفیسر غلام جیلانی اصغر، ڈاکٹر خورشد رضوی، ڈاکٹر سہیل بخاری، رحمان قریشی اور بیرون سرگودھا سے آئے ہوئے دوستوں سے ان نظریات پر بحث کرتے ۔ مجھے ان کے ڈرائنگ روم میں ن م راشد، مشتاق احمد یوسفی، رفعت سلطان، جعفر طاہر، ڈاکٹر سہیل بخاری، صادق الخیری اور کئی دیگر دوستوں سے ملاقاتیں یاد ہیں۔
ڈاکٹر وزیر آغا کی 83 ویں سالگرہ پر انہیں ملاقاتوں کے حوالے سے یاد کر رہا ہوں میرے سامنے پوری فلم چل رہی ہے ۔ ٹرالی پر رکھی ہوئی چائے، گرم گرم سموسے، گلاب جامن اور رس گلے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں لیکن سب باتوں میں دلچسپی لے رہے ہیں اور اس وقت میں یہ فلم دیکھ رہاہوں جو الٹی چل رہی ہے لیکن مجھے نئی نظر آ رہی ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اردو ادب کو نئی جھات، نئے تصورات اور نئے خیالات سے آشنا کرنے والا یہ ادیب اب ہم میں موجود نہیں اور ان کی کتابیں ہمارے ساتھ خاموشی کی زبان میں باتیں کرتی ہیں۔
oo