بھارتی وزیر دفاع کی پاکستان کو باقاعدہ جنگ کی دھمکی اور وزیر دفاع خواجہ آصف کا روایتی جواب
بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پاکستان کیخلاف ایک بار پھر اشتعال انگیزی کرتے ہوئے باقاعدہ جنگ کی دھمکی دے دی ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج کی اہمیت برقرار رکھنے کیلئے ہمیں کم از کم ایک جنگ لڑنا ہو گی کیونکہ جنگ نہ ہونے سے ہماری فوج کی حیثیت کم ہورہی ہے۔ اس سلسلہ میں بھارتی میڈیا کے حوالے سے آئی این پی کی جاری کردہ خبر میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی وزیر دفاع نے جنگ پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت گزشتہ 50, 40 سال سے جنگ میں نہیں گیا جس کے باعث بھارتی افواج کے احترام میں کمی آئی ہے۔ انکے بقول ہمارے فوجی افسروں کی دو نسلیں جنگ دیکھے بغیر ریٹائر ہو گئیں۔ اگرچہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انکے ریمارکس کو جنگ کی توثیق کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے تاہم انہوں نے یہ باور کرانا بھی ضروری سمجھا کہ جو ملک اپنی فوج کی حفاظت نہیں کر سکتا‘ وہ ترقی نہیں کر سکتا۔ بھارتی وزیر دفاع کی اس گیدڑ بھبکی کے جواب میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے باور کرایا کہ بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے‘ ہم نے ایٹم بم شبِ برأت پر چلانے کیلئے نہیں بنائے‘ ہم بھارت سے دوستی کی خاطر ملک کے امن اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ انہوں نے گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی تین ریاستوں میں رواں سال انتخابات ہونیوالے ہیں اس لئے بھارت کی حکمران پارٹی پاکستان مخالف کارڈ استعمال کررہی ہے۔ ہم نے بھارتی حکمرانوں کے منفی بیانات سے اقوام متحدہ کو آگاہ کردیا ہے۔ بھارت نے جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو ہم بھرپور دفاع کرینگے۔
بھارت کی حکمران بی جے پی نے تو عام انتخابات بھی پاکستان مخالف کارڈ استعمال کرکے ہی لڑے تھے جبکہ انتخابات میں کامیابی کے بعد بی جے پی سرکار نے پاکستان کیخلاف جارحیت کے ارتکاب کو اپنی حکومتی پالیسی کا حصہ بنالیا اس لئے ہماری حکومت بالخصوص وزیر دفاع کو محض یہ تصور کرکے مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے کہ بھارت کی حکمران پارٹی تین ریاستی انتخابات میں کامیابی کی خاطر پاکستان مخالف کارڈ استعمال کررہی ہے۔ ممکن ہے خواجہ آصف کو اس بارے میں اطمینان ہو کہ حکمران بی جے پی محض ریاستی انتخابات میں کامیابی کی خاطر پاکستان مخالف کارڈ استعمال کررہی ہے اور فی الحقیقت وہ پاکستان کیخلاف باقاعدہ جنگ میں نہیں جانا چاہتی تاہم ان کا یہ اطمینان خود کو طفل تسلی دینے کے ہی مترادف ہے کیونکہ بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک حکومتی سطح پر پاکستان مخالف جو اقدامات اٹھائے ہیں‘ وہ اس حقیقت کی چغلی کھا رہے ہیں کہ بی جے پی سرکار پاکستان پر باقاعدہ جنگ مسلط کرنے کی تیاری کر رہی ہے اور بے تابی کے ساتھ کسی ایسے موقع کی منتظر ہے جب پاکستان کیخلاف جارحیت کے ارتکاب میں اسے آسانی ہو سکے۔ جب پاکستان دشمنی میں خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پیش پیش ہیں جو پاکستان کی ترقی و استحکام کی ضمانت بننے والے اقتصادی راہداری منصوبے کیخلاف چین جا کر بھی احتجاج کرتے ہیں اور پھر بنگلہ دیش میں حسینہ واجد سے سابق بھارتی وزیراعظم واجپائی کا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے فخریہ طور پر اس امر کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے دسمبر 1971ء میں مکتی باہنی کی پاکستان توڑنے اور بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں خود حصہ لیا تھا تو انکی اس سوچ کے پیش نظر کیا ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کو قبول کئے بیٹھے رہیں گے اور محض ریاستی انتخابات میں کامیابی کی خاطر رسماً پاکستان مخالف کارڈ استعمال کر رہے ہونگے۔ وہ تو فی الواقع پاکستان کی سلامتی ختم کرنے کے درپے ہیں جس کیلئے انہوں نے امریکہ اور بعض یورپی ممالک کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ بھی جنگی‘ دفاعی تعاون کے معاہدے کرلئے ہیں اور ان معاہدوں کی بنیاد پر وہ اپنے ملک میں نہ صرف جدید اور روایتی اسلحہ کے ڈھیر لگاچکے ہیں بلکہ بھارت میں اسلحہ ساز فیکٹریاں لگانے کے معاملہ میں بھی وہ پیش رفت کرچکے ہیں۔ یہ ساری جنگی جنونی تیاریاں اور اسکے ساتھ ساتھ بھارتی حکمرانوں کے پاکستان مخالف اشتعال انگیز بیانات محض رسمی مخالفت ہرگز قرار نہیں دیئے جا سکتے بلکہ مودی خود پاکستان کیخلاف جنگ کی آگ بھڑکانے کی خواہش رکھتے ہیں جس کیلئے وہ اشتعال انگیزی کی فضا بھی خود ہی پیدا کررہے ہیں جبکہ انکی کابینہ کے ارکان بھی انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے آئے روز پاکستان کیخلاف اشتعال بڑھانے والے بیانات جاری کرتے ہیں۔
ویسے تو کسی بھی بھارتی لیڈر نے آج تک پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کو دل سے قبول نہیں کیا‘ قیام پاکستان کے بعد نہرو نے خودمختار ریاستوں کے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کے بارے میں تقسیم ہند کے ایجنڈا میں طے کئے گئے فارمولے کے برعکس کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اسے متنازعہ بنا کر دادرسی کیلئے اقوام متحدہ چلے گئے۔ جب یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے بھارت کا اپنا پیدا کردہ تنازعہ کشمیر طے کرنے کیلئے کشمیری عوام کا استصواب کا حق تسلیم کیا اور بھارت کو کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام کرنے کیلئے کہا تو نہرو اس سے بھی منحرف ہو گئے اور کشمیر میں اپنی افواج داخل کرکے اسکے بڑے حصے پر اپنا تسلط جمالیا جسے کانگرس سرکار نے بھارت کا اٹوٹ انگ بنانے کیلئے بھارتی آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔ نہرو کے بعد بھاتی وزیراعظم شاستری نے اپنے منحنی وجود کے ساتھ ہی 65ء میں پاکستان پر جنگ مسلط کر دی جبکہ اندراگاندھی نے دسمبر 1971ء میں پاکستان پر صرف جنگ ہی مسلط نہ کی بلکہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کی پروردہ ’’مکتی باہنی‘‘ کی سرپرستی کرکے اسے مشرقی پاکستان حکومت کیخلاف تخریبی کارروائیوں پر لگایا جس کی قتل و غارت گری اور بھارتی افواج کی جارحیت کے نتیجہ میں سقوط ڈھاکہ کی شکل میں پاکستان دولخت ہو گیا تو اندراگاندھی نے پاکستان توڑنے کا کریڈٹ لیتے ہوئے یہ رعونت بھرا بیان جاری کیا تھا کہ آج ہم نے نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبودیا ہے۔ انکے باقیماندہ پاکستان کو ختم کرنے کے بھی مذموم عزائم تھے جس کیلئے انہوں نے 1974ء میں ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی اور پھر ایٹمی دھماکے کرکے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا۔ اگر بھارتی کانگرس پاکستان دشمنی میں پیش پیش رہی ہے تو انتہاء پسند ہندوئوں کی نمائندہ بی جے پی نے پاکستان دشمنی میں ملکہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ بی جے پی کے گزشتہ اقتدار کے دوران بابری مسجد کو شہید کرکے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی فضا بنائی گئی اور ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ کی پالیسی کے تحت پاکستان کی جانب جھوٹ موٹ کا دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا جاتا رہا۔ اگر سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک کی سالمیت کے تحفظ و دفاع کیلئے ہمارے اس وقت کے حکمران ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کو بھی ایٹمی قوت بنانے کا خیال نہ آتا تو بھارتی جنونیت پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے خواب کی اب تک تکمیل کر چکی ہوتی۔ یقیناً ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی نے ہی بھارت کی ہذیانی کیفیت کے آگے بند باندھا ہے اور اب تک اسے پاکستان پر ماضی جیسی باقاعدہ جنگ مسلط کرنے کی جرأت نہیں ہو سکی مگر مودی سرکار کے عزائم خطرناک نظر آتے ہیں جو سقوط ڈھاکہ والے اندراگاندھی کے کریڈٹ کے مقابل اب باقیماندہ پاکستان کو توڑنے کا کریڈٹ لینے کی جنونیت کا شکار ہیں اور یہ جنونیت ان سے چھپائے نہیں چھپ رہی۔
پاکستان مخالف پروپیگنڈا یقیناً بی جے پی سرکار کا سیاسی مقصد بھی ہوگا مگر پاکستان کی سالمیت کیخلاف جارحیت کا ارتکاب تو بی جے پی کا مشن نظر آتا ہے جس کیلئے اس وقت ہر قسم کی تیاریاں جاری ہیں۔ بی جے پی حکومت کی جانب سے پاکستان دشمنی میں شدت اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ چین کے تعاون سے اقتصادی راہداری کا منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچنے کی صورت میں پاکستان کو حاصل ہونیوالے اقتصادی‘ معاشی اور سیاسی استحکام سے بی جے پی سرکار کو پاکستان توڑنے کے اپنے منصوبے خاک میں ملتے نظر آرہے ہیں اس لئے ہمارے حکمرانوں کو بھارتی حکومتی لیڈران کے اشتعال انگیز بیانات کا اسی تناظر میں جائزہ لینا چاہیے کیونکہ وہ محض بیانات پر اکتفا نہیں کررہے‘پاکستان کی سالمیت کیخلاف جارحیت کے ارتکاب کی تیاریاں بھی کررہے ہیں۔ بے شک وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارت کو یہ بھی باور کرایا ہے کہ وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہے‘ ہم نے ایٹم بم شب برأت پر چلانے کیلئے نہیں بنائے مگر اسکے ساتھ ساتھ ہمیں ٹھوس بنیادوں پر دفاع وطن کی تیاریاں بھی کرنی چاہئیں اور موجودہ حالات میں بھی بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارتی تعلقات برقرار رکھنے کی خواہش کا اظہار کرکے دفاع وطن کے حوالے سے اپنی کسی کمزوری کا تاثر نہیں دینا چاہیے۔ اس سلسلہ میں مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے بجا طور پر باور کرایا ہے کہ بھارت کے ساتھ اسکی شرائط پر مذاکرات نہیں کئے جائینگے اور کشمیر اور آبی تنازعات کو مذاکرات کے ایجنڈا میں شامل کرکے ہی اسکے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھا جائیگا۔
بھارتی پیدا کردہ حالات کا یہی تقاضا ہے کہ بی جے پی سرکار کے ہر اشتعال انگیز بیان کا بھی اسی کے لب و لہجے میں جواب دیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ اقوام متحدہ‘ او آئی سی‘ یورپی یونین اور دیگر تمام عالمی اداروں کو بھی بھارتی جنگی جنونی عزائم سے مکمل آگاہ رکھا جائے جبکہ اپنے دفاعی حصار کو مضبوط بنانا بھی ہماری اولین ضرورت ہے۔ اس میں کسی تردد کا مظاہرہ کیا جائے نہ کسی قسم کی مفاہمت کا سوچا جائے۔ بھارت ہماری سلامتی ختم کرنے کے درپے ہے تو ہمیں بھی اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے کا حق حاصل ہے۔