سر راہے
پنجاب میں پہلی جماعت سے پانچویں تک ناظرہ قرآن پاک کی تعلیم لازمی ، نوٹیفکیشن جاری
فیصلہ بلاشبہ مستحسن ہے تاہم ایسے اقدامات ملک گیر ہونے چاہئیں کیونکہ یہی ہماری اصل ہے اور عربی کی ضرب المثل ہے کہ ’’ہر چیز اپنی اصل کی طرف ہی لوٹتی ہے۔‘‘ پرائمری کی سطح پر ناظرہ تعلیم سے نونہالوں کا یقیناً قرآن پاک اورمذہب کی طرف میلان ہو گا، پھر آج کے بچے کل کو جب قوم بنیں گے ، ملکی ، قومی اور بین الاقوامی سطح پر ذمہ داریاں نبھانے کے اہل ہو جائیں گے تووہ اپنی اصل سے بھی جڑے رہیں گے ۔ تب ’’اذان بجنے‘‘ جیسی باتیں بھی ہونگی نہ سورۃ الاخلاص (قل ھو اللہ احد) یاد نہ ہونے پر کسی کی جگ ہنسائی ہو گی ۔ اس لحاظ سے پنجاب حکومت نے ایک عمدہ قدم اٹھایا ہے۔ اب دوسرے صوبوں کو بھی تقلید کرنی چاہیے بلکہ وفاقی حکومت اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں ناظرہ قرآن پاک کی تعلیم لازمی قرار دے اور اگر مناسب سمجھے تو قومی ، صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں بھی اجلاس کے دنوں میں صرف آدھا گھنٹہ تمام ارکان کے لیے ناظرہ قرآن پاک پڑھنے ، پڑھانے کے لیے مختص کر دے کیونکہ دنیا و آخرت کی کامیابی اسی میں ہے، مسلمان کا معزز ہونا بھی قرآن پاک سے وابستگی کا ہی مرہون منت ہے کیونکہ اگر ہم اپنا اور اپنے اسلاف کا تقابل کریں تو بقول علامہ اقبال یہی حقیقت کھلتی ہے کہ
وہ زمانے میں معزز تھے ، مسلمان ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
٭٭٭٭٭
تیل مہنگا ہونے سے عمران کو فرق نہیں پڑتا ، وہ سائیکل پر بھی دفتر جا سکتے ہیں: مریم نواز
مریم نواز ایک بے باک مقرر کے طور پر اپنی شناخت بنا چکی ہیں ، ان کی ’’حق گوئی‘‘ اور بے باکی کے بڑے چرچے ہیں لیکن یہاں انہوں نے تھوڑی سی ’’ڈنڈی‘‘ ماری ہے کہ ’’تیل مہنگا ہونے سے عمران کو فرق نہیں پڑتا۔‘‘ بلکہ انہیں کہنا چاہیے تھا کہ ’’تیل مہنگا ہونے سے ہمیں فرق نہیں پڑتا۔‘‘ کیونکہ مہنگائی حکومتی عہدیداروں اور سرکاری منصب داروں کا مسئلہ ہے نہ سیاستدانوں ، سرمایہ داروں کے لیے کوئی مشکل پیدا کرتی ہے بلکہ یہاں تو ایک لطیفہ صادق آتا ہے (علماء کرا م ، آئمہ ، خطباء سے معذرت کے ساتھ) کہ کسی امام مسجد سے کسی نے پوچھا کہ ’’حافظ جی کدی حرام وی کھاہدا جے‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہاں ، ایک دن ، بارش بہت تھی ، آندھی تھی اور طوفان بھی۔ اس دن کہیں جا نہ سکے تو گھر سے کھانا پڑا تھا۔‘‘ یہی حالت ہمارے سیاستدانوں ، حکمرانوں (بشمول اپوزیشن) اور طبقہ اشرافیہ کے دیگر ’’معزز‘‘ ارکان کی ہے کہ وہ ہر وقت ، ہر لقمہ ’’حلال‘‘ ہی کھاتے ہیں اس لیے تیل مہنگا ہونے سے عمران خان کو فرق پڑتا ہے نہ شہباز شریف کو ، مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی فرق نہیں پڑتا بلکہ ان کے قافلوں کیساتھ چلنے والوں میں سب سے آخر والے کو بھی کوئی فر ق نہیں پڑتا جبکہ یہ ’’برق‘‘ تو بے چارے عوام پر ہی گرتی ہے اور بقول حبیب جالبؔ
کہاں قاتل بدلتے ہیں ، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے ، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
وہ جسکی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہو
نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں
بلکہ اگر ہماری اشرافیہ کو برا نہ لگے تو جالبؔ ہی زبانی سنتے جائیے کہ
فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
تو جینا کس قدر آسان ہوتا
مرے بچے بھی امریکہ میں پڑھتے
میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا
مری انگلش بلاکی چست ہوتی
بلا سے جو نہ اردو دان ہوتا
جھکا کے سر کو ہو جاتا جو SiR میں
تو لیڈر بھی عظیم الشان ہوتا
زمینیں میری ہر صوبے میں ہوتیں
میں واللہ صدر پاکستان ہوتا
٭٭٭٭٭
سیالکوٹ ورکنگ بائونڈری لائن پر پیپل کا درخت آدھا پاکستان اور آدھا انڈیا میں
کبھی کبھار ساجھے کی چیز بڑی اہمیت اختیار کر جاتی ہے بالخصوص ورکنگ بائونڈری یا سرحدوں پر پائی جانے والی اشیاء کو دونوں طرف سے بڑی اہمیت ملتی ہے جیسے یہ پیپل کا درخت ہے جو سیالکوٹ ورکنگ بائونڈری پر آدھا پاکستان اور آدھا بھارت میں ہے ، سجیت گڑھ زیرو لائن پر علامہ اقبال کا یہ مصرع لکھا ہوا ہے کہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ جبکہ پاکستان کی جانب سے اس جگہ پر کلمہ طیبہ اور ’’مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ لکھا ہے۔ عام طور پر ایسا درخت کہیں دو افراد کی زمین پر ہو تو دونوں ہی اس کی ملکیت کادعویٰ کرتے ہیں خواہ لگایا دونوں میں سے کسی نے نہ ہو، جھگڑا ختم کرنے کے لیے بالآخر اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر آدھا آدھا تقسیم کر لیا جاتا ہے خواہ وہ زمین دو بھائیوں کی ہی ملکیت کیوں نہ ہو اور ایسے درخت کو وجہ تنازع سمجھتے ہوئے جتنی جلدی ممکن ہو اس کا قلع قمع کر دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے تو ورکنگ بائونڈری پر پایا جانے والا پیپل خوش قسمت ہے ، عین ممکن ہے کہ اس کی سکیورٹی کے لیے دونوں طرف سے اہلکار تعینات ہوں اور اسکی ایک ٹہنی بھی کاٹنے کی ممانعت ہو گی جس پر آس پاس کے درخت یقینا رشک کرتے ہونگے بہرحال علامہ اقبال کے دونوں مصرعے پیپل کے اس درخت کی ملکیت پاکستان کو سونپتے ہیں لیکن ڈر ہے کہ بھارت جس طرح کبھی کبوتروں اور کبھی دیگر پرندوں ، چرندوں یا حشرات الارض پر پاکستان کے لیے جاسوسی کاالزام لگا دیتا ہے کہیں اس پیپل پر بھی پاکستان کے ساتھ وفاداری اور پاکستان کے لیے جاسوسی کا الزام نہ تھونپ دے کیونکہ خطے میں بسنے والی بھی مخلوق بھی مودی سرکار کے ظلم سے محفوظ نہیں۔ بہرحال پیپل کا درخت مودی سرکار کے مظالم پر کہہ رہا ہے کہ
شجر نہ بیچ ، کوئی سائبان رہنے دے
گئے زمانے کا کچھ تو نشان رہنے دے
بسی ہوئی ہیں جو کب سے وہ بستیاں نہ اجاڑ
یہ خواہشوں کی نمو کے نشان رہنے دے
٭٭٭٭٭
عمران خان نے کہا گھبرا نا نہیں: منزہ حسن
کے جواب پر قہقہے
پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر مشاہد حسین نے تحریک انصاف کی رہنما منزہ حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’’کل ہائی کمان میٹنگ آپ نے بھرپور چیئر کی ، کئی جرنیل بیٹھے تھے ، وردیوں میں ، آپ بالکل نہیں گھبرائیں ‘‘ تو منزہ حسن نے کہا کہ ’’عمران خان نے کہاہے کہ گھبرانا نہیں‘‘ جس پر قہقہے لگے اور اجلاس کشت زعفران بن گیا۔ ہر دور حکومت میں کوئی نہ کوئی اصطلاح ، محاورہ یا ضرب المثل اسکے ساتھ منسوب ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ’’گھبرانا نہیں‘‘ موجودہ حکومت کا ماٹو بن چکا ہے۔ مہنگائی جتنی بھی ہو جائے ، عوام سے کہا جاتا ہے گھبرانا نہیں ، لوڈشیڈنگ ہو تب بھی گھبرانا نہیں ، وزیر اعظم کی بات نہ صرف سچ بلکہ حوصلہ افزا بھی ہے کیونکہ گھبرانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے پوری قوم منزہ حسن کی طرح عمران خان کی نصیحت پلّے باندھ لے کہ گھبرانا نہیں اور ابراہیم ذوقؔ کے بقول
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے