حیدر قریشی (جرمنی)
داستاں در داستاں اورمشتاق قمر کے ناول و ڈراما کا خصوصی مطالعہ
ڈاکٹر خلیل طوق ترکی میں اردو کا چراغ روشن کئے ہوئے ہیں۔”اقبال اور ترک“ اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک منفرد کتاب ہے۔پہلے حصہ میں علامہ اقبال کی نظر میں ترک قوم کا ذکر ہے۔سلطنتِ عثمانیہ کے زوال اور خاتمہ کا دکھ اور عربوں کی بے حسی بلکہ بے وفائی کو اقبال نے شدت کے ساتھ محسوس کیا تھا۔اس باب میں اقبال کی شاعری کے حوالے دیتے ہوئے ماضی کی تاریخ کے کئی اہم گوشے سامنے لائے گئے ہیں۔حصہ دوم میں ترکوں کی نگاہ میں علامہ اقبال کا مقام و مرتبہ بیان کیا گیا ہے۔اس حصہ میں ایسے ترک دانشور بھی ہیں جو انقلابی ذہن رکھتے تھے اور مذہبی انتہا پسندی سے متنفر تھے،انہوں نے اقبال کو اپنے زاویے سے دیکھا اور پسند کیا ہے۔جبکہ ایسے مذہبی لوگ بھی ہیں جنہوں نے فکر و فلسفہ کی کسی جہت کی بجائے صرف مذہبی عقیدت کے ساتھ اقبال کو چاہا ہے اور اس لگن میں انہیں جنت کی بشارت بھی عطا کر دی ہے۔بہر حال یہ کتاب اقبال اور ترکوں کے حوالے سے بڑی عمدہ معلومات کی حامل کتاب ہے۔اسے خلیل طوق ار نے صرف مرتب نہیں کیا بلکہ بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحقیق بھی کی ہے۔آخر میں علامہ اقبال پر ترکی کی یونیورسٹیوں میں ہونے والے تحقیقی کام کی ایک طویل فہرست دی گئی ہے جو بلاشبہ قابلِ رشک ہے۔۔
……………………………………
داستاں در داستاں
”داستاں در داستاں“لندن میں مقیم ادیبہ حمیدہ معین رضوی کی تازہ تصنیف ہے۔اس میں اسی نام کا ایک ناولٹ شامل ہے۔ناولٹ کے علاوہ کتاب میں آٹھ افسانے بھی شامل ہیں۔آخر میں ایک فکاہیہ بعنوان ”جوتا“شامل کیا گیا ہے۔اس کتاب میں حمیدہ معین رضوی کا قلم اپنے معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔اپنے ارد گرد کے اور اپنی زندگی کے بعض موضوعات سے گزرتے ہوئے وہ اپنی کہانی کا تانا بانا تیار کرتی ہیں۔ان کے ہاں مجموعی طور پر نصیحت اور بغاوت کی ایک عجیب سی کھینچا تانی ملتی ہے۔اصلاََ وہ نصیحت کو اہم سمجھتی ہیں لیکن ڈنڈے کے زور سے کی جانے والی نصیحت کے خلاف بغاوت ضرور کرتی ہیں۔یہ روی ان کے ہاں ایک کشمکش سی پیدا کرتا ہے جوان کے اندر ایک تخلیقی تحرک پیدا کرتا ہے،دوسری طرف یہ رویہ بجائے خود ان کے ہاں ایک اعتدال کو قائم کرتاہے۔ فکاہیہ”جوتا“سے ان کے مزاج کی شگفتگی اور علمی دلچسپی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر شاداب احسانی نے پیش لفظ میں کتاب کے جملہ مندرجات کے حوالے سے مناسب باتیں کر دی ہیں۔حمیدہ معین رضوی نے ”عرضداشت “کے زیر عنوان اپنے ادبی نظریے کی وضاحت کی ہے۔مجموعی طور پر یہ ایک دلچسپ اور قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔بس عناوین قائم کرتے ہوئے انہیں مناسب طور پر نمایاں نہیں کیا جا سکا۔یہ ایک خامی نہ ہوتی تو کتاب دیدہ زیب بھی کہلاتی۔
………………………………………………
مشتاق قمر کے ناول و ڈراما کا خصوصی مطالعہ
مشتاق قمرکومیں نے ”اوراق“میں پڑھنا شروع کیا تھا۔انشائیہ نگار اورافسانہ نگار کی حیثیت سے وہ ”اوراق“کے سینئر اور مستند لکھنے والوں میں شمار ہوتے تھے۔ان دونوں ادبی اصناف میں ان کی قابلِ قدر خدمات اردو ادب کا حصہ ہیںاور میں ہمیشہ سے ان خدمات کا معترف ہوں۔
میری کم علمی کہیں کہ مشتاق قمرکی ناول نگاری اور ڈرامانگاری کا جوہر مجھ سے مخفی تھا۔ کسی زمانے میں ڈاکٹروسیم انجم نے شاید ایک ا?دھ بار ناول کا کچھ ذکر کیا بھی تھا لیکن میں ان کی بات پرزیادہ دھیان نہ دے سکا۔اب جنیدمظفر کا ایم فل کا مقالہ”مشتاق قمر کے ناول وڈراما کا خصوصی مطالعہ“پڑھنے کا موقعہ ملاہے تواپنی لاعلمی اورعدم توجہی پر افسوس ہونے لگاہے۔
جنید مظفر نے اپنے مقالہ کو یونیورسٹی کے تحقیقی طریق کے مطابق چھ ابواب میں تقسیم کیاہے۔ پہلے باب میں ”مشتاق قمر کی سوانح اور سیرت “کو موضوع بنایاہے۔دوسرے باب میں ”اردو ناول - عہد بہ عہد “کے تحت اردو ناول نگاری کا عمومی جائزہ لیا گیا ہے۔جبکہ تیسرے باب میں ”ایک دن کا آدمی - تحقیقی و تنقیدی جائزہ“کے زیر عنوان مشتاق قمر کے ناول کا خصوصی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔چوتھے باب میں”اردو ڈراما کی روایت“کواحسن طور پر بیان کرنے کی کاوش کی گئی ہے۔جبکہ پانچویں باب میں ”مشتاق قمر کے ڈرامے- تحقیقی و تنقیدی جائزہ“کے تحت ان کے پانچ ڈراموں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ان میں سے اردو کے تین ڈرامے ”نقاب“، ”ذرا نم ہو تو“، اور ”اس کارمحبت میں“طبعزادہیں، ، ”آخری سوٹ کیس“انگریزی سے ترجمہ کیا گیا ہے اور ”لیکھ“پنجابی زبان میں لکھا گیا ہے۔ان ڈراموں کو جس طرح جنید مظفر نے اپنے مقالہ کا موضوع بنایا ہے،اس سے ان کی محنت اور لیاقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ا?خری باب میں پورے مقالہ کا محاکمہ اور کتابیات کو شامل کیا گیا ہے۔
ایم فل کے مقالہ”مشتاق قمر کے ناول وڈراما کا خصوصی مطالعہ“کے ذریعے انشائیہ نگار اور افسانہ نگار مشتاق قمر کی ادبی شخصیت کے بطورناول نگار اور ڈراما نگاردو نئے پہلوسامنے لانے پر جنیدمظفراور ان کے نگران ڈاکٹر نذرخلیق مبارک باد کے مستحق ہیں۔مجھے امید ہے کہ اس تحقیقی مقالہ کی اشاعت کے بعد ہماری علمی و ادبی دنیا میںمشتاق قمرکے مجموعی ادبی کام کو ایک بار پھراہمیت دی جانے لگے گی۔