بدھ ‘ 13؍ ذیقعد 1440ھ‘ 17؍جولائی 2019ء
اضافی ٹیکس معطل 100 کے بیلنس پر 88-90 کا بیلنس ملے گا
دیرآید درست آید۔ ایک بار پھر اعلیٰ عدالت کو عوام پر رحم آ ہی گیا۔ پہلے بھی ایک مرتبہ ایسا ہی حکم عدالت عظمیٰ کی طرف سے ملا تھا۔ جس پر عمل بھی ہوتا رہا اور عوام دعائیں دیتے رہے۔ پھر اچانک یہ رعایت عوام سے واپس چھین لی گئی اور موبائل کمپنیوں کی لوٹ مار نے رنگ جمایا۔ غریب بے چارہ 100 کا بیلنس کراتا تو بمشکل 60 روپے پورے ملتے۔ یوں بے چارے صارفین اس بھتہ خوری پر ہاتھ ملتے رہ جاتے اور موبائل کمپنیاں …؎
چکر چلانے آئے ہیں چکر چلا کر جائیں گے
دونوں ہاتھوں سے ہم خوب منافع کمائیں گے
کا داگ الاپتی تھیں۔اب خدا کا شکر ہے کہ عدالت کو ایک بار پھر عوام پر ترس آ گیا اور اس نے یہ لوٹ مار روکنے کا حکم دیا ہے۔ ہر چیز کی حد ہوتی ہے جو چیز حد سے تجاوز کر جائے وہ بوجھ بن جاتی ہے ۔ ہمارے ہاں بھی موبائل کمپنیوں نے لالچ اور کمیشن کمانے والے سرکاری مافیا کے چکر میں آ کر جو بھتہ خوری کا رواج اپنایا اور موبائل کارڈز سے بھی اربوں روپے کمانے لگیں۔ اب ذرا ان پر قدغن لگے گی۔ دیکھتے ہیں عوام کی یہ خوشی کب تک لوٹ مار کرنیوالے بھتہ خور مافیا سے برداشت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ اربوں روپے کا کھیل ہے۔ یہ مات اتنی آسانی سے وہ قبول نہیں کریں گے۔ قانونی دائو پیچ لڑا کر پہلے کی طرح کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے۔
٭٭٭٭٭
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے افسر کی ٹی شرٹ پہن کر حاضری پر عدالت برہم
مشہور کہاوت ہے پہنو جگ بھاتا اور کھائو من بھاتا۔ شاید پنجاب فوڈ اتھارٹی کے اس افسر نے یہ کہاوت نہ پڑھی ہو گی نہ سنی ہو گی کیونکہ اگر وہ اس کہاوت سے آگاہ ہوتے تو کبھی بھول کر بھی عدالت میں پیشی کے وقت ٹی شرٹ نہ پہنتے۔ بے شک ہر ایک کو اجازت ہے کہ وہ من مرضی کا لباس پہنے مگر ہر جگہ یکساں نہیں ہوتی۔ کئی سرکاری غیر سرکاری اداروں کے اپنے ڈریس کوڈ ہیں جن کا احترام کرنا پڑتا ہے ورنہ یہی نوبت آتی ہے جو اس اعلیٰ تعلیم یافتہ افسر کو پیش آئی۔ یہ تو شکر ہے عدالت نے اس کی تعلیم اور نوکری کو دیکھتے ہوئے تنبیہ کر کے چھوڑ دیا۔ ورنہ بہت سے مقامات پر تو داخلہ ہونے سے ہی رک دیا جاتا۔ جس پر کئی لوگ …؎
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑا دے شراب کم کر دے
پر غور کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہم لوگوں نے اپنے قومی لباس کو جس طرح بے وقار کیا ہے اور یورپی لباس کو وقار عطا کیا ہے، یہ اس کا شاخسانہ ہے۔ جسے دیکھو پھٹی ہوئی جینز اور بدرنگ ٹی شرٹ پہن کر فخر محسوس کرتا ہے جبکہ صاف شفاف کرتا شلوار یا دھوتی پہنتے ہوئے نجانے کیوں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ جناح کیپ اور پگڑی تو سروں سے اتر کر دربانوں کے سر پر سجا دی گئی ہے۔ کیا یہ ان کی توہین نہیں۔ عدالت ذرا اس طرف بھی توجہ دے اور قومی لباس کو بھی وقار عطا کرے تاکہ لوگ اسے پہنتے ہوئے فخر محسوس کریں۔
٭٭٭٭
ٹرمپ کا غیر سفیدفام خواتین ارکان کانگریس کو امریکہ چھوڑنے کا مشورہ
لگتا ہے قیامت سے پہلے جن نشانیوں کا تذکرہ ہوتا ہے ان میں سے ایک آدھ ضرور صدر ٹرمپ کے شکل میں ظاہر ہو چکی ہے۔ ورنہ امریکہ کا صدر ایسی باتیں کرتا زیب نہیں دیتا۔ اب ٹرمپ کے حامی انکی اس بات کے بھی لاکھوں مثبت نتائج بیان کریں گے۔ ان میں سے ا یک یہ بھی ہے کہ انہوں نے ان غیر سفید فام خواتین کو مشورہ دیا ہے کہ اب انہیں اپنے آبائی علاقوں میں جا کر وہاں پسماندہ عوام کی خدمت کرنی چاہئے۔ یعنی بس بہت کما لیا بنا لیا۔ اب واپس اپنے ملک جا کر اسکی خدمت کریں یہ مال دولت وہاں خرچ کریں۔ امریکہ خالی کریں۔ اب کوئی غیر سفید فام خاتون رکن کانگریس ایسی نظر نہیں آتی جو اس بات پر کان دھرے۔ بھلا یہ سب کچھ انہوں نے اس لیے تو نہیں کمایا کہ واپس جا کر ان غربت زدہ افلاس کے مارے لوگوں پر علاقے پر خرچ کریں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے سیاہ فام ارکان کانگریس ، مردوں کو یہ مشورہ کیوں نہیں دیا۔ کیا یہ صنفی امتیاز نہیں۔ جس کے خلاف امریکہ بڑھ چڑھ کر بیانات داغتا پھرتا ہے۔ امریکہ میں سب اِدھر اُدھر سے آئے لوگ جو زیادہ تر جرائم پیشہ تھے آباد ہوئے جنہوں نے امریکہ کے اصل باشندوں جنہیں ریڈ انڈینز کہتے ہیں کو ہلاک کر کے پرے دھکیل کر یہاں قبضہ کیا۔ یہ ریڈ انڈینز اب بھی اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ یہ سفید فام نہیں سرخ رنگت والے ہوتے ہیں۔ اب اگر انہوں نے سفید فاموں کو امریکہ خالی کرنے کا اپنے آبائی علاقوں میں واپس جانے نوٹس دیدیا تو پھر ٹرمپ صاحب اور سفید نام کہاں کا رخ کریں گے۔
٭٭٭٭٭
عدالتیں علاقائی زبانوں میں فیصلے دیں۔ بھارتی صدر
بھارت کے صدر رام ناتھ کووندنے تامل ناڈو امبیدکر لا یونیورسٹی کے کانووکیشن میں موجود عدلیہ کے ججوں سے خصوصاً مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ عدالتیں فیصلے علاقائی زبان میں لکھیں۔ تقسیم ہند تک بھارت کے طول و عرض میں اُردو بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ تقسیم کے بعد جب رام راج کے تعصب کو اُبال آیا تو اُردو میں چند سنسکرت کے الفاظ شامل کر کے اسے دیوناگری رسم الخط میں رائج کر دیا گیا۔ پھر اسے جناتی زبان بنانے کی ٹھان لی اور سنسکرت کے متروک لفظ جنہیں ویدوںکے پنڈتوں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا ، بے تحاشا شامل کر لیے۔ایک زمانے میں خبروں کا ذریعہ ریڈیو ہی ہوا کرتا تھا۔ ایک دن پردھان منتری پنڈت نہرو نے سماچار کیلئے آکاش وانی کھولا تو انائونسر کہہ رہے تھے اب آپ آکاش وانی سے ہندی میں سماچار سنیے، روایت ہے کہ پنڈت جی نے خبریں سننے کے بعد سیکرٹری کو بلایا اور پوچھا یہ سماچار کس بھاشا میں تھیں۔ سیکرٹری نے بصد ادب گزارش کی کہ ان خبروں کو تو میں بھی سمجھ نہیں سکا‘ پرنتو کہتے ہیں کہ سماچار ہندی بھاشا میں ہو رہی تھیں۔ پنڈت جی خود مسلم ثقافت میں رنگے ہوئے تھے اور فارسی غزل کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ اُردو میں مولانا ابوالکلام آزاد کے مقلد تھے، سیکرٹری کا جواب سُن کر اُن کی طبیعت سخت مکدر ہوئی اور اُن کی کیفیت اُس انسان کی سی ہو گئی جو بااختیار ہوتے ہوئے بھی بے بس ہو۔ بھارتی صدر رام کو وند نے بھی فیصلے ہندی میں نہیں بلکہ علاقائی زبانوں میں لکھنے کی تلقین کی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھارت بھر کی ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے فیصلے پہلے ہی قومی زبان ہندی میں لکھے جا رہے ہیں اور اب اس روایت کو علاقائی زبانوں تک لے جانا چاہتے ہیں۔ بات بھی درست ہے مقدمے کا فیصلہ تین حرفی ہوتا ہے۔ بری، قید یا قید مع جرمانہ ! باقی کہانی ہوتی ہے کیا ہمارے قانون دان اور جج صاحبان کو بھارتی صدر کے فیصلے سے کوئی سبق ملا ہے۔ کیا وہ بھی علاقائی زبانوں کی ترویج کیلئے کچھ ایسا کر پائیں گے۔