پاکستان کی طرف سے کھلا خط- سب کے نام
آپ سب کو معلوم ہے کہ میرا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ مجھے اپنے آپ میں اسلام نظر آتا ہے نہ جمہوریت‘ بس ایک لولا لنگڑا پاکستان بچا ہے جو اپنے ایک لرزتے ہاتھ سے سب کے نام یہ خط لکھ رہا ہے۔ ہاتھ بچا ہی ایک ہے جو لرز اس لئے رہا ہے کہ زخموں سے چور ہے۔ دوسرا ہاتھ تو ہے ہی نہیں کیونکہ میرا ایک بازو جو 1971 ء میں غیر ضروری سمجھ کر کاٹ دیا گیا تھا جب بازو نہ رہا تو ہاتھ کیا؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب 1947 ء میں میں پیدا ہوا تھا تو مجھے چودھری رحمت علی مرحوم کا سوچا ہوا نام پاکستان دیا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ تم پاک لوگوں کی سرزمین ہو۔ یہ بھی کہا گیا کہ تم اسلامی تعلیمات کی تجربہ گاہ ہو گے اور تمہارے اندر عمر فاروقؓ کا سا مثالی نظام حکومت قائم کریں گے۔
میں ابھی بچہ ہی تھا کہ نوزائیدہ بچہ‘ کہ میرے باپ قائداعظمؒ کا سایہ سر سے اٹھ گیا مگر میں کسی حد تک مطمئن رہا کہ میری ماں فاطمہ جناح کا دستِ شفقت موجود ہے۔ میں تھوڑا بڑا ہو گیا تھا۔ جب میری ماں کو ذلیل و رسوا کر کے چپ کروا دیا گیا اور پھر ایک دن میری وہ خاموش ماں کفن اوڑھ کر ہمیشہ کیلئے سو گئی۔ میں نے سوچا اب میں تمہاری ماں اور تمہارا باپ ہوں۔ میں نے اپنا بچپن یتیمی میں گزارا ‘ جوانی تمہارے نام کر دی۔ میری عمر ستر برس ہو گئی۔ جس اولاد کو تکلیفوں‘ اذیتوں اور مشکلات میں پالا وہ مجھے بستر مرگ پر لے آئی ہے۔ میں اپنے مستقبل سے مایوس ہرگز نہیں کہ میرے اﷲ نے مایوسی سے منع فرمایا ہے۔ مگر تم سب لوگ جن کی میں ماں ہوں اور باپ بھی ‘ یہ ضرور سوچو کو تم نے اس ماں دھرتی کو کیا عزت دی ہے؟ ذرا سوچو! ٹھنڈے دل سے سوچو! کیا اس ماں دھرتی کی عظمت کو تم نے پامال نہیں کیا؟ اور یہ بھی سوچو! تمہاری دیکھا دیکھی غیروں نے بھی اس بے توقیری میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا یا نہیں؟ میری نظر میں تو اپنوں اور غیروں نے مل کر مجھے لوٹا ہے مگر جواب میں ‘میں نے تمہیں پہچان دی ہے۔ تم نہ مانو مگر تم سب پاکستانی ہو‘ میرے بچے ہو‘ اور بچے ماں کو جتنا بھی تنگ کر لیں وہ اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ بچے باپ کو جتنا بھی تنگ کر لیں وہ ایک شجر سایہ دار بن کر انہیں تپتی دھوپ سے بچا لیتا ہے۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے تم سب تماشائی ہو۔ تم سب میرا تماشہ دیکھتے ہو۔ مجھے محسوس ہوتا ہے تمہیں ماں کی آغوش کی ضرورت ہے نہ باپ کے سایہ کی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے تمہیں میری بانجھ ہوتی کوکھ نظر نہیں آتی جہاں سے میں نے تمہیں غلہ و اناج کھلانا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے تمہیں میرے اندر کا خشک ہوتا پانی نظر نہیں آتا جس سے میں نے تمہیں سیراب کرنا ہے۔ مجھے کیوں لگتا ہے کہ تمہیں مجھ سے پیار نہیں حالانکہ میں نے تمہیں ہمیشہ پیار دیا۔ اگر تمہیں مجھ سے پیار ہوتا تو تم مجھے سرعام نوچ کر نہ کھاتے‘ نہ تم دوسروں کو نوچنے دیتے۔ گزشتہ رات میں یہی سوچتے تھک کر لیٹا تو اونگھ آ گئی۔ خواب میں مجھے ایک ننھی سی پری ملی جسے 1947 ء میں درندوں نے اس وقت نوچ لیا تھا جب وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کر کے میری آغوش میں پناہ لینے آ رہی تھی۔ اس ننھی پری نے معلوم ہے خواب میں کیا کہا؟ 1947 ء میں جب تمہیں (پاکستان) بنایا گیا تھا تو جو لاکھوں مرد و عورتیں‘ بچے ‘ بچیاں اور بوڑھے تمہارے نام پر قربان ہو گئے تھے ان سب کی روحوں نے اکٹھے ہو کر مجھے بھیجا ہے کہ تم ہماری طرف سے سارے پاکستانیوں خاص طور پر اس کے اداروں کے نام ایک کھلا خط لکھو‘ جس میں ان سے کہو کہ ’’اب بس کرو۔ پلیز اب بس کردو۔ لٹتی عصمتوں کا واسطہ ہے اب بس کردو۔ تم سب پاکستانی ہو‘ پاکستانی بنو۔ کوئی سیاستدان نہ بنے‘ کوئی جج نہ بنے۔ کوئی امپائر نہ بنے۔ کوئی خلائی مخلوق نہ بنے۔ کوئی خائن نہ ہو‘ کوئی لٹیرا نہ بنے۔ تم سب پاکستانی ہو‘ پاکستانی بنو۔ ہم تو لٹے تھے تمہارے روشن مستقبل کے لئے۔ ہم تو لٹے تھے انصاف والے وطن کے لئے۔ ہم تو لٹے تھے دنیا پر حکمرانی کے لئے۔ مگر تم سب بے وفا نکلے۔ اب بس کردو‘ اب بس کردو۔ سب مل بیٹھو۔ اپنی دھرتی ماں کو یوں رسوا نہ کرو‘ بس کردو۔ میں نے ننھی پری کا پیغام تم سب تک پہنچا دیا۔ پھر بھی تم نہ سمجھے تو پھر یہ لازم ہے ذلت تمہارا مقدر ہو گی۔
والسلام۔ تمہارا پیارا پاکستان