انسانیت ابھی زندہ ہے
دنیا میں جب بھی حق اور سچ کی بات ہو گی تو ظالم طبقہ بہت تلملائے گا اور پھر ایسے ظالم لوگ جو خود کومظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں جب ان کے خلاف کوئی بات ہوتی ہے تو ان کے پیٹ میں شدید مروڑ اٹھتے ہیں۔ ان کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے ابھی اپنے بال نوچ لیں گے۔ کچھ یہی صورتحال اسرائیل کی اس وقت ہوئی جب آئرلینڈ کی پارلیمنٹ نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا بل منظور کر لیا۔ یہ پابندی ان مصنوعات پر ہو گی جو مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں میں قائم کارخانوں میں تیار کی جاتی ہیں۔ پہلے اس بل پر جنوری میں رائے شماری ہونا تھی تاہم آئرش حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اسرائیلی حکومت پر اس سلسلے میں دباؤ ڈالے گی۔ تاہم اس دباؤ کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ مغربی کنارے کے یہودی کارخانوں میں مصنوعات کی تیاری برابر جاری رہی جس کے بعد ان مصنوعات پر پابندی کا بل منظور کر لیا گیا۔
اسرائیل نے یورپی یونین کے سفیر کو بھی طلب کیا تھا اور اسرائیلی وزیر دفاع نے آئرلینڈ کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ اسرائیل کہنے کو تو ایک چھوٹی سی ریاست ہے لیکن اپنی پیٹھ پر امریکہ جیسے طاقتور ملک کی تھپکی کی وجہ سے یہ خود کوکسی اور ہی سیارے کی مخلوق تصور کرتا ہے۔ یہ ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کروانے کے لئے دھونس کا مظاہرہ کرتا ہے۔ آئرلینڈ ایک جمہوری ملک ہے۔ وہ اپنی پارلیمنٹ کے فیصلے پر ثابت قدم رہنے کی اہمیت سے بخوبی واقف ہو گا۔ ہو سکتا ہے یورپی یونین کے ممالک اور امریکہ اس معاملے میں آئرلینڈ پر دباؤ ڈالیں لیکن ایسا لگتا نہیں کہ آئرلینڈ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرلے۔ آئرش پارلیمنٹ کے اس فیصلے کے بعد ثابت ہو گیا کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔
کچھ دن پہلے فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں نے فرانس میں موجود مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی دینے کا اعلان کیا ہے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے امور آسان بنانے کے لئے قانون سازی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اور جمہوریہ فرانس میں پیچیدگی کی کوئی وجہ نہیں ہے اور مسلمانوں کو ان کے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے میں آسانیاں پیدا کی جائیں گی۔ فرانس کسی مذہب کے لئے مخصوص ملک نہیں ہے۔ اس لئے اس کے قوانین بھی مذہبی آزادی پر مبنی ہوں گے۔ بے شک ایک جمہوری ملک کے سربراہ کی طرف سے ایسا بیان قابل ستائش ہے۔ ان کے پارلیمنٹ کے اجلاس میں دئے گئے اس بیان پر ایوان میں خوب تالیاں بجائی گئیں۔ یقیناً یہ بیان دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے باعث اطمینان ہے۔
رمضان المبارک میں کینیڈین صدر مسلمانوں کے ساتھ افطار کرتے نظر آئے۔ وہ بھی اسلام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل بھی مسلمان مہاجرین کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ شامی مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد جرمنی میں آباد ہے۔ یہ ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ انسانیت ابھی مری نہیں ہے۔ انسانیت کے لئے درد رکھنے والے لوگ ابھی موجود ہیں۔ ایک طرف مسلمانوں کے ساتھ مخاصمانہ رویہ رکھنے والے ممالک کی ایک قطار ہے اور دوسری طرف اسلام کو سمجھنے والے لوگوں کی تعداد بھی اب بڑھ رہی ہے۔ فرانس نے اس بات کا ادراک کر لیا ہے کہ کوئی بھی مذہب دہشت گردی کا درس نہیں دیتا خصوصاً اسلام کا تو مطلب ہی امن ہے تو پھر ایک امن پسند مذہب کے ساتھ مخاصمت سے کیا حاصل ہو گا۔ دوسری طرف اگر ظالم ممالک موجود ہیں اور دوسروں کی سرزمین بزور ہتھیار چھین کر وہاں اپنے لوگوں کو غیر قانونی طور پر بسا رہے ہیں تو ان کے مقابلے میں ایسے ممالک بھی موجود ہیں جو ان کے اس اقدام کو غلط قرار دے رہے ہیں اور عملی طور پر اس کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔
بھارت کشمیریوں پر جبر کو اپنا استحقاق سمجھتا ہے۔ ایک تو وہ بزور طاقت کشمیریوں کو اپنا محکوم رکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ ان پر کئے گئے مظالم کو بھی چھپانا چاہتا ہے۔ بھارتیوں کا کوئی حربہ بھی کامیاب نہیں ہو رہا۔ نہتے مظاہرین کو شہید کر کے بھارت دنیا میں اپنا کونسا تشخص اجاگر کرنا چاہتا ہے۔ یقیناً دنیا بھارت کو ظالم اور جابر ہی سمجھتی ہے۔ اسلام کی غلط تشریح کرنے والے ہمیشہ نقصان میں رہے اور رہیں گے۔ جب تک یہودیوں کے زیر اثر میڈیا کے پراپیگنڈے سے ہٹ کر اسلام کو نہ دیکھا گیا تب تک اس کے ساتھ موجود مخاصمت کم نہیں ہو سکے گی۔