دہشت گردی کی حالیہ لہر اور حکمرانوں کے دعوے
پشاور میں بلور خاندان پھر بنوں میں سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی بعد ازاں مستونگ میں بلوچستان عوامی نیشنل پارٹی کے نوابزادہ سراج رئیسانی کے انتخابی میٹنگ میں بم بلاسٹ حملوں سے ڈیڑھ سو کے قریب شہادتوںنے ملک بھر میں فضاء کو سوگوار کر دیا ہے۔یہ حملے قابل مذمت اور ان ملک و سماج دشمن عناصر کے خلاف شکنجہ ایک مرتبہ مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔دشمن ہمیں ایسے حملوں سے بد دل اور کمزور کرنا چاہتا ہے۔یقینا ایسے حملے کسی بھی ریاست کے امن و امان اور گڈ گورننس پر سوالیہ نشان ہیں۔لیکن اگر دیکھا جائے کہ گذشتہ دو عشروں سے ہماری افواج دہشت گردی کے ناسور کے آگے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔اور بے مثال قربانیوں کی داستانیں رقم کی ہیں۔لاتعداد آپریشن کئے اور چل رہے ہیں۔ ان انتشار اور جانی و مالی نقصانات میں بیرونی در اندازی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ردالفسا د کے لئے ہماری عوام،قائدین کی بھی شہادتیں انمٹ ہیں۔ مکار دشمن الیکشن کے موقع پر دہشت گردی کر کے جمہوری عمل سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ماضی کی حکومت عوامی جلسوں میں دہشت گردی کے خاتمہ کا ترجیحا ذکر کرتی ہے لیکن حالیہ افسوس ناک لہر ان کے دعوؤں کی نفی ہے۔عوامی جلسوں میں سکریننگ اور چیکنگ کے عمل کو سخت سے سخت کر دینا چاہئے۔اس کے ساتھ ساتھ جماعتوں کے قائدین کے لئے بھی ضروری ہے کہ عوامی اجتماعات میں اپنی مدد آپ کے تحت سکیورٹی کا بندوبست کیا جائے ۔کھلے گرائونڈ کی بجائے چاردیواری میںکارنر میٹنگز کا احتمام کیا جائے۔ تاکہ دشمن کو ایسی سفاکیت دہرانے کا موقع نہ ملے ۔دہشت گردی کا مکمل خاتمہ عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔کسی بھی مشکوک سرگرمی اور اشخاص کی اطلاح فوری مقامی انتظامیہ کو دینی چاہیے۔ان شائاللہ وہ وقت دور نہیں جب شہداء کا خون رنگ لائے گا اور وطن دہشت گردی فری بن کر امن کا گہوارہ ہو گا ۔تعمیر ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔پروردگاراپنی رحمت کے صدقے حملوں میں شہداء کے درجات بلند ،فرمائے اور ان کے ورثاء اور قوم کو یہ صدمات برداشت کرنے کی ہمت دے۔