مستونگ میں دہشت گردی کئی سوال چھوڑ گئی ؟
مستونگ میں دہشت گردی کے حملے نے ایک بار پھر قوم کو ایک گہرے صدمے اور شدید دھچکے سے دوچار کردیاہے ایک محب وطن راہنما سراج ر ئیسانی سمیت ڈیڑھ سو کے لگ بھگ معصوم شہریوں کو خون میں نہلا دیا گیا پوری قوم شہید سراج رئیسانی اور اس واقعہ میں شہید ہونے والے معصوم شہریو ں کی جانو ں کے ضیاع پر افسردہ اور نو حہ کنا ں ہے یہ واقعہ دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی کے باوجود اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان دشمن عنا صر ابھی اپنے مذموم مقاصد سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ کون لو گ ہیں جو اس ملک کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں ؟ سراج رئیسانی جیسے محب وطن بلوچ رہنما جو بلوچستان میں سبز ہلالی پرچم بلند کئے ہوئے تھے جبکہ بھارت گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں نفرت کے بیج بو کر اور وہاں کے معصوم لوگو ں کو گمراہ کرکے پاکستان کے خلاف تحریک چلانا چاہتا ہے جو دراصل کشمیر میں اپنی غیر قانونی و غیر انسانی گرفت کو کمزور ہوتا دیکھ کر بوکھلا چکا ہے اسے یہ قبول ہی نہیں کہ بلوچستان میں کوئی پاکستان کے پرچم کو بلند کرنے اور پاکستان کو مستحکم کرنے کی بات بھی کرے اسے علیحدگی پسند اور ملک و قوم اور فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے راہنما چاہئیں جن کو لاکھو ں ڈالرز دے کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کر رہا ہے مکار دشمن اصل میں ہماری جڑیں کھوکھلی کرنا چاہتا ہے اور ہمارے روشن مستقبل کو تاریک کرنے کی چالیں چل رہا ہے جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیںہے ، دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا وقت آ پہنچا ہے اب پوری قوم کو یکجا ہو کر یہ سوچنا ہوگا کہ وطن عزیز کو اگرسلامت رکھنا ہے اور اسے مستحکم و مضبوط بنانا ہے تو اس کو ہر قسم کی دہشت گردی سے مکمل طور پر پاک کرنا ہوگا چاہے اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے دہشت گردوں کا جڑ سے صفایا کرنے کے لئے تھوڑی سی بھی ہچکچاہٹ اور لچک ملک کے لئے خطرناک ہوگی اگر ایسا نہ ہوا تو ملک دشمن اس طر ح کی کاری ضربوں سے قوم کو منتشر اور تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اس سے قبل 16۔دسمبر 2014ء میں بھی پشاور آ رمی سکول پر حملے میں 130نونہالان وطن سمیت ڈیڑھ سوکے لگ بھگ افرادکوشہید کردیا گیا تھا اس کے بعد بھی دہشت گردی کی کئی کاررائیوں میں سینکڑوں شہری شہید کئے جاچکے ہیں بطور مسلمان اور پاکستانی قوم کے اب ہم پر یہ فرض بنتا ہے کہ اس قسم کے عنا صر جو دشمنو ں کے آ لہ کاربنے ہو ئے ہیں ان پر گہری نظر رکھی جائے اگر حملہ مستونگ میں ہوا ہے تو کل کوکسی اور جگہ بے گناہ شہری دہشت گرودں کا نشانہ بن سکتے ہیں ابھی پشاورمیں یکہ توت میں بلور خاندان پر حملے کے آ نسو بھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ ظالمو ں نے مذید ڈیڑھ سو سے زیادہ مائوں کی گود کو اجاڑ ڈالا ہے جب ہم دوسرے کا درد اپنا سمجھنا شروع کردیں گے تو شائد ایسے درندوں کو کوئی پناہ گاہ نہ مل سکے جو معصو م لوگو ں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے درپے ہیں پاک فوج ان دشمنو ں کے خاتمے کے لئے برسرپیکار ضرور ہے لیکن جب تک پوری قوم اپنی فوج کی پشت پر نہیں کھڑی ہوتی تب تک اس ناسور سے نجات ممکن نہیں ہے مستونگ اور پشاور میں انتخابی جلسوں پر حملہ کرنے والے انسان ہی ہیں جو اس روپ میں دراصل انسانیت کے دشمن ہیں لیکن ان کے سہولت کار بھی کسی رعایت کے مستحق نہیںہیں ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم کرنا ہو گا تاکہ دوبارہ پھر کسی ظالم کو قوم کے مستقبل سے کھیلنے کا موقع نہ مل سکے اس میں کس کی کوتاہی ہے ؟ اس سے قطع نظر حکومتی سطح پر اہم فیصلے کیا جانا ضروری ہے کہ کہا ں کمی ہے ؟ دشمن ہمیشہ کمزوریو ں کا فائدہ اٹھا تا ہے اس لئے وہ تمام کمزوریا ںدور کی جائیں جو کسی بھی ایسے حا دثے کاسبب بن سکتی ہیں اس کے لئے چاہے جتنا مرضی کڑوا گھونٹ بھرا جاسکتا ہو دیر نہ کی جائے دشمن ہماری شہ رگ تک پہنچ چکا ہے اس کی بیخ کنی نہ کی گئی تو پھر اللہ ہی حافظ ہے ایکدوسرے پر الزامات کا سیاسی کھیل اب ختم ہوناجانا چاہیئے کوئی بھی مذہبی یا سیاسی رہنما اس ملک اور قوم کے مستقبل سے مقدم نہیں ہے پاکستانی ایجنسیو ں کو اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا کہ کہیں یہ بھارت کی ناپاک سازش تو نہیں ہے جو الیکشن کے عمل کو سبو تاژ کرکے پاکستان کو غیر مستحکم کر نا چاہتا ہے ؟ کہیں دشمن اپنی ناپاک حرکتو ں سے کشمیر میں اپنی خفت کو مٹانے کے لئے دہشت گردی کو ہوا تو نہیں دے رہا ؟ افغان سرحد پر بھارتی قونصل خانو ں کی بھرمار اور ان میں پاکستان دشمن عنا صر کو دی جانے والی تربیت کی خبریں تشویش ناک ہیں پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگا کر مکار دشمن خود پاکستان میں ہی دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری ہماری سیکورٹی ایجنسیو ں پر عائد ہوتی ہیں کہ وہ ملک کی حفاظت اور دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لئے اپنا کردار مذید مو ثر انداز میں ادا کریں ۔
٭٭٭٭٭