مستونگ سے قومی قائدین کا ایک جم غفیر ہو آیا۔ رو دھو آیا اور بس۔ جب اتنی ہی شہادتیں آرمی پبلک اسکول میں ہوئی تھیں تو ساری خلق خدا یعنی قومی ، سیاسی ، سرکاری ، فوجی قیادت پشاور میں سر جوڑ کے بیٹھی۔ عمران خان نے مہینوں سے لگا ہوا دھرنا چھوڑ دیا اور ان سب نے نیشنل ایکشن پلان پر دستخط کئے۔ اس سے پہلے کراچی کے ایئر پورٹ پر دہشت گردی ہوئی تو فوج نے ضرب عضب کاآغاز کر دیا تھا مگر اسے قومی تائید میسر نہ تھی ، اے پی ایس کے سانحے نے ضرب عضب کو قومی ا ورنر شپ فراہم کی،،مستونگ کے بعد صرف نگران وزیر اعظم کا ایک بیان ا ٓیا کہ لوگوںکی سیکورٹی یقینی بنائیں گے، یہ اعلان آئندہ کے لئے ہے۔ کسی نے یہ نہیں سوچا اور نہ کسی نے بتایا کہ بنوں سے مستونگ تک کیا ہوا ، کس نے کیا۔ کوئی جے آئی ٹی نہیں بیٹھی ، نواز شریف لندن سے گرفتاری دینے آئے تو لاہور ایئر پورٹ کے گرد تاروں میںبجلی کا کرنٹ چھوڑ دیا گیا تھا۔ سیالکوٹ، نارووال، پسرور،گجرات، گوجرانوالہ ، فیروز والا ، فیصل ا ٓباد ، ملتان اور ساہیوال تک کنٹینروں سے سڑکیں بند تھیں اور کسی کو لاہور آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جو لوگ لاہور شہر سے نکلنا چاہتے تھے، ان کے راستوں پر ہر طرف کنٹینروں کے پہاڑ تھے، ایک دوسرے سے رابطہ ختم کرنے کے لئے صبح دس بجے سے موبائل فون ا ور انٹر نیٹ سروس بند کر دی گئی تھی، یہ سزا ان لوگوں کو بھی دی گئی جو نواز شریف کاا ستقبال کرنے کے لئے گھروں سے نہیں نکلنا چاہتے تھے۔ گویا لاہور کے ایک کروڑ سے زائد شہریوں کا ناطقہ بند کر دیا گیاتھا مگر بنوں ، پشاور اور مستونگ میں دہشتگردوں کا ناطقہ بند کرنے کے لئے کیا گیا ، اس کا کسی کو کچھ پتہ نہیں، یہ بھی پتہ نہیں کہ کچھ نہیں کیا گیا مگر اب ہر کوئی ٹسوے بہا رہا ہے اور ان دھماکوں کو ا لیکشن کے لئے رکاوٹ قرار دے رہا ہے۔ امریکہ نے بیان دیا، برطانیہ نے بیان دیا ۔ مگر ان کی فوجیں جو افغانستان میںموجود ہیں ، انہیں یہ حکم نہیں ملا کہ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردوںکو داخل ہونے سے روکا جائے، سعودی عرب نے بھی بیان دیا مگر اس نے جو کئی ملکوں پر مشتمل دہشت گردی کے خلاف ایک فورس کھڑی کر رکھی ہے اور جس کے سربراہ خیر سے پاکستان ہی کے ایک سابق آرمی چیف جنرل راحیل ہیں،یہ مشترکہ اسلامی فوج بھی پاکستان کی مدد کے لئے حرکت میں نہیں آئی، گویا یہ سب طفل تسلیاں ہیں۔
میںنے ایک تجربہ کار، زیرک، ذہین، محب وطن اور جہاندہ دانشور سردارا سلم سکھیرا کی کتابوں سے پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت کا پول کھولا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ ان کی ایک کتاب۔۔ سلگتے راز میں پاکستان کے خلاف امریکہ، بھارت ا ور افغانستان کے گٹھ جوڑ سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ حالیہ دہشت گردی ہوئی تو میںنے یہ کتاب کھولی۔ اس کا ورق ورق سہ فریقی گٹھ جوڑ کی سازشوں کی تفصیلات سے لبریز ہے۔میں آج قارئین سے معذرت خواہوں ہوں کہ سلگتے راز میں سے ایک طویل اقتباس نقل کرنے پر مجبور ہوں، اس سے آپ پر ساری کہانی کھل جائے گی ´ ،سردارا سلم سکھیرا نے لکھا ہے کہ پاکستان ایک مشکل اور مصیبت میں مبتلا تھا اور نیول بیس کو دہشت گردوں سے خالی کروانے میں لگا ہوا تھا۔ اسی روز پشاور، اسلام آباد موٹروے پل رکشی انٹر چینج کے نزدیک دھماکہ کیا گیا۔ یہ سب واقعات تب ہوئے جب گوادر پورٹ کا فنکشنل کنٹرول چین کو دینے کی خبر آرہی تھی اور صدر پاکستان آصف علی زرداری روس کے دورے سے واپس آچکے تھے۔ اس کے علاوہ امریکی صدر اوبا ما کے دھمکی بھرے بیانات پاکستان کو مل رہے تھے علاوہ ازیں سکیورٹی فورسز کے امریکی سی آئی اے کے ساتھ اسامہ بن لادن کی شہا دت پر پاکستان کی خود مختاری کے خلاف الزامات آرہے تھے ۔ اس کے علاوہ امریکی صدر اوبا ما کے بیانات کہ©© پاکستان میں ضرورت پڑنے پر دوبارہ آپریشن کیا جا سکتا ہے ان سب واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ، بھارت سے مل کر کیا ، گیم پلان بنا رہا ہے پاکستان کے خلاف۔ مختصراً یہ کہ امریکہ پاکستان کو بین الا قوامی طور پر isolate کرنے کی کوشش میں ہے اور مزید بحث کرنے سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ اور ین ایئر کرافٹ کو ٹارگٹ کرنے، پاکستان کے سٹرٹیجک ایسٹس، میری ٹائم ڈیفینسو اہلیت کو تباہ اور لوگوں کے حوصلہ کو پست کرنا مقصود ہے، پاکستانی غداروں کو موقع فراہم کرنا کہ وہ پاکستانی فورسز پر انگلیاں اٹھائیں، پاکستان کو غیر مستحکم کریں، آخر میں امریکی، اسرائیلی اور بھارتی فورسز پاکستان پر حملہ کریں اور اس کے نیو کلیئر آرسنل پر قبضہ کریں، چین اور روس کو عریبین سمندروں تک اکنامک ایکٹیوٹی نہ کرنے دی جائے۔ یہ راستہ ہموار کیا جائے کہ انڈین اوشین میں امریکی اور بھارتی فورسز رکھی جائےں اور بھارتیوں کو بحر ہند میں واچ ڈاگ کا کام سپرد کیا جائے۔ ان واقعات سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ نیول بیس پر کس نے اور کیوں حملہ کیا۔
یہ سب امریکہ،اسرائیل اور بھارت کی کارستانی ہے اور ان کے تین مقاصد ہو سکتے ہیں، پہلا یہ کہ پاکستان نیول ایسٹس کو ٹارگٹ کرنا، دوسرا یہ کہ پاکستان کی صلاحیت کو کمزور کرنا اور قوم کے مورال کو متزلزل کرنا اور امریکی میڈیا کو پروپیگنڈا کرنے کے لیے شہہ دیناکہ پاکستانی نیو کلیئر اثاثے محفوظ نہیں۔ نیول بیس کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب پاکستانی پارلیمنٹ نے 2 مئی 2011 کے واقعہ کے خلاف قرارداد پاس کی۔ امریکہ کے ہیلی کاپٹروں نے پاکستان میں داخل ہو کر پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی، آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے کے اختلافات ایبٹ آباد واقعہ کے بعد عروج پر تھے ۔اسامہ کو پاکستانی حدود میں یک طرفہ امریکی حملہ کرکے مارنے پر سی آئی اے کے ملٹی انٹر نیشل مفادات ہیں جبکہ پاکستانی آئی ایس آئی کا پاکستان بچانے اور پاکستانی حدود کی حفاظت کرنا مقصود ہے، اس لئے پاکستانی آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے کے گہرے اختلافات ہیں۔ نیول بیس پر حملہ بھارتی را اور امریکی سی آئی اے کا متفقہ عمل ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن اور ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنے اور کہوٹہ پر حملے، 16 مئی 2011 کو سعودی قونصلیٹ کے قریب دھماکہ اور اوبا ما کا کہنا کہ پاکستان پر امریکی فورسز پھر حملہ کریں گی بھارتی اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے امریکی ایجنڈا کو بڑھانے کے لیے پاکستان پر کرائے ۔ ضرورت یہ ہے کہ ملکی غداروں کے منہ بھی بند کرائے جائیں جو اس وقت ٹیلی ویژن اینکروں کی صورت میں ، پرنٹ میڈیا کی صورت میں دھاڑ رہے ہیں ، سکیورٹی فورسز کو بھی اپنی کمزوریوں کو بھانپ کر پاکستان کی فول پروف سیکیورٹی کا انتظام کرنا چاہئے۔ نیو کلیئر آرسنل اور سکیورٹی ایسٹس کی حفاظت کرنی چاہئے۔ قابل اعتماد رپورٹس مل رہی ہیں کہ جو دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ، مہران بیس پر وہ افغانستان کے راستے را اور امریکی سی آئی اے کی شراکت سے کئے گئے ہیں اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان دہشت گردوںکی ٹریننگ راجستھان اور افغانستان میں کی گئی۔
اس قدر کھلے الفاظ میں ا یک دور اندیش اور راز ہائے درون خانہ سے آشنا شخص سب کچھ لکھ رہا ہے جو ہماری آنکھیں کھولنے لئے کافی ہونا چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024