شہید سراج رئیسانی :سرفروش سپاہی
شہید سراج بلوچ باغیوں کے مقابل سینہ تانے کھڑا تھا وہ فراری کیمپوں پر قہر بن کر نازل ہوتا تھا وہ ہر محاذ پر پاکستان دشمنوں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیلنج کر رہا تھا اداروں کی ترجیحات ضرورت کے مطابق بدلتی رہتی ہوں گی لیکن شہید سراج کا مرکز و محور اوّل و آخر صرف اور صرف پاکستان رہا وہ پاکستان کیلئے جیا اور اسی کےلئے جام شہادت نوش کیا۔ حب الوطنی کی میراث کے امین نوابزادہ سراج رئیسانی شہید کے دو سنگین ”جرائم“ تھے۔ بھارتی ترنگے کے جوتے بنوانا اور دو کلومیٹر طویل سبز ہلالی پرچم لہرانا۔ تب ہی تو ایک قلم کار نے یہ لکھ دیا کہ ”اسی لئے کمرشل لبرلز اچانک غش کھا کر خاموش ہوگئے ہیں۔“ ایک اور شہری نے ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا کہ ’پاکستان سے محبت پر مارا گیا“۔ یہ شہید کا رتبہ ہے۔ یہ اس کا اعزاز ہے اور یہ وہ خراج ہے جو قوم بلاتفریق اسے پیش کررہی ہے۔ یہ وہ گواہی ہے جو ہر محبت وطن پاکستانی دے رہا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 35سے وہ پچیس جولائی کو متوقع عام انتخابات میں امیدوار تھے۔ براہوی زبان میں یہ ہی کہہ پائے تھے کہ ’بلوچستان کے بہادر لوگو‘ اور خودک±شں دھماکے میں شہادت کا مرتبہ پاگئے۔ انکے ہمراہ 150 سے زائد اور نوجوان بھی جام شہادت نوش کرگئے جن کی اکثریت کا تعلق پرکانی قبیلے سے بتایاجاتا ہے۔ سراج رئیسانی کے قبیلے کو بلوچستان کے قبائلی اور سیاسی نظام میں اہم مقام حاصل ہے لیکن نوجوان، نڈر اور بے خوف سراج کی سوچ، خیالات اور نکتہ نظر اپنے بڑے بھائیوں سے شاید مختلف تھا کہ اس نے بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد قیام امن اور صوبے کی ترقی وخوشحالی کے ایجنڈے میں سکیورٹی فورسز کا بے جگری سے ساتھ دیا۔ ا±ن کو نشانہ اس لئے بھی بنایا گیا کہ وہ بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کو تیز کررہے تھے۔ دوہزار گیارہ میں یوم آزادی پر پاکستان کی خوشیاں منانے کی تقریب انہوں نے منعقد کی۔ دشمنوں کو سخت ناگوار گزرا اور نوابزادہ سراج رئیسانی کو دوران تقریب بم حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ بچ گئے لیکن انکے بڑے بیٹے میر حقمل رئیسانی سمیت متعدد افراد شہید ہوگئے تھے۔ اعتراف جرم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے کیا جس سے اس معصوم کی شہادت پر مہرتصدیق ثبت ہوئی۔ وطن سے محبت کرنیوالا، جان کے نذرانے سے اپنا عہد ‘وفا کرگیا۔ ورنہ ایسے بھی ہیں جو ہندوستان کی جوتیوں میں گنجائش نکالنے کو بے چین رہے۔ وزیراعلی بلوچستان علاﺅ الدین مری نے سراج رئیسانی کی شہادت پر گواہی دی ہے کہ ’دہشت گردی کی جنگ میں اپنے جوان سال بیٹے کی قربانی دینے کے باوجود انھوں نے کبھی دہشت گردوں سے ہار نہیں مانی۔ دہشتگردی کیخلاف اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہے اور بہادری کے ساتھ دہشتگردوں کی بھرپور مخالفت کرتے رہے‘۔ وطن کے بیٹے ایسے ہوتے ہیں۔ ضلع مستونگ میں خود کش حملہ ہلاکتوں کے حوالے سے بلوچستان میں سب سے بڑا حملہ قرار پایا ہے۔
حرف آخر یہ کہ بے حس سمجھی جانے والی افسر شاہی کے ایک سنئیر ترین رکن رکین جناب ارشاد کلیمی اکاو¿نٹنٹ جنرل پاکستان فرما رہے تھے “ اگر میرے بس میں ہوتا تونوابزادہ سراج رئیسانی شہید کو نشانِ حیدر سے سرفراز کرتا جس سے اس عالی مرتبت تمغے کی شان دوبالا ہو جاتی کہ وہ شہیدِ وفائے پاکستان تھا” وہ بتا رہے تھے کہ شہید سراج رئیسانی اپنے بلوچ جانبازوں کے ساتھ پاکستان کےلئے میدان جنگ میں لڑ رہا تھا۔ جن کا کمانڈر وہ خود تھا۔اس کالم نگار نے جناب کلیمی سے گذارش کی کہ سرکاری ملازمت کی مصلحتوں کی وجہ سے ان کا نام دئیے بغیر یہ گفتگو استعمال کروں گا تو برادرم ارشاد کلیمی نے کہا وہ شہید وطن اپنی جان سے گذر گئے اور ہم ایسے مصلحت پسند ہیں کہ ان کی مادر وطن سے عشق کی کہانی میں اپنا نام چھپاتے پھریں ایسا نہیں ہوگا سب کچھ میرے نام سے دیں۔
پاکستان کے تھائی لینڈ سفیر رہنے والے سہیل خان بتا تے ہیں کہ شہید سراج رئیسانی کے دو بیٹے اور بیٹی تھائی شہری ہیں ان کی بیٹی تھائی لینڈ کی وزارت خارجہ میں کام کر رہی ہے انہیں کسی دوست نے مشورہ دیا کہ آپ بلوچستان بھول جائیں اور تھائی لینڈ کی سیاست میں مسلمانوں کی قیادت کریں جو ظاہر ہے شہید وفا سراج رئیسانی کو گوارا نہیں تھا ان کی مثال تو کچھ یوں تھی کہ
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
ہم نے روندا ہے بیابانوں کو صحراﺅں کو
ہم جو بڑھتے ہیں تو بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں
........................ (ختم شد)
شہید سراج رئیسانی :سرفروش سپاہی
شہید سراج بلوچ باغیوں کے مقابل سینہ تانے کھڑا تھا وہ فراری کیمپوں پر قہر بن کر نازل ہوتا تھا وہ ہر محاذ پر پاکستان دشمنوں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیلنج کر رہا تھا اداروں کی ترجیحات ضرورت کے مطابق بدلتی رہتی ہوں گی لیکن شہید سراج کا مرکز و محور اوّل و آخر صرف اور صرف پاکستان رہا وہ پاکستان کیلئے جیا اور اسی کےلئے جام شہادت نوش کیا۔ حب الوطنی کی میراث کے امین نوابزادہ سراج رئیسانی شہید کے دو سنگین ”جرائم“ تھے۔ بھارتی ترنگے کے جوتے بنوانا اور دو کلومیٹر طویل سبز ہلالی پرچم لہرانا۔ تب ہی تو ایک قلم کار نے یہ لکھ دیا کہ ”اسی لئے کمرشل لبرلز اچانک غش کھا کر خاموش ہوگئے ہیں۔“ ایک اور شہری نے ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا کہ ’پاکستان سے محبت پر مارا گیا“۔ یہ شہید کا رتبہ ہے۔ یہ اس کا اعزاز ہے اور یہ وہ خراج ہے جو قوم بلاتفریق اسے پیش کررہی ہے۔ یہ وہ گواہی ہے جو ہر محبت وطن پاکستانی دے رہا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 35سے وہ پچیس جولائی کو متوقع عام انتخابات میں امیدوار تھے۔ براہوی زبان میں یہ ہی کہہ پائے تھے کہ ’بلوچستان کے بہادر لوگو‘ اور خودک±شں دھماکے میں شہادت کا مرتبہ پاگئے۔ انکے ہمراہ 150 سے زائد اور نوجوان بھی جام شہادت نوش کرگئے جن کی اکثریت کا تعلق پرکانی قبیلے سے بتایاجاتا ہے۔ سراج رئیسانی کے قبیلے کو بلوچستان کے قبائلی اور سیاسی نظام میں اہم مقام حاصل ہے لیکن نوجوان، نڈر اور بے خوف سراج کی سوچ، خیالات اور نکتہ نظر اپنے بڑے بھائیوں سے شاید مختلف تھا کہ اس نے بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد قیام امن اور صوبے کی ترقی وخوشحالی کے ایجنڈے میں سکیورٹی فورسز کا بے جگری سے ساتھ دیا۔ ا±ن کو نشانہ اس لئے بھی بنایا گیا کہ وہ بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کو تیز کررہے تھے۔ دوہزار گیارہ میں یوم آزادی پر پاکستان کی خوشیاں منانے کی تقریب انہوں نے منعقد کی۔ دشمنوں کو سخت ناگوار گزرا اور نوابزادہ سراج رئیسانی کو دوران تقریب بم حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ بچ گئے لیکن انکے بڑے بیٹے میر حقمل رئیسانی سمیت متعدد افراد شہید ہوگئے تھے۔ اعتراف جرم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے کیا جس سے اس معصوم کی شہادت پر مہرتصدیق ثبت ہوئی۔ وطن سے محبت کرنیوالا، جان کے نذرانے سے اپنا عہد ‘وفا کرگیا۔ ورنہ ایسے بھی ہیں جو ہندوستان کی جوتیوں میں گنجائش نکالنے کو بے چین رہے۔ وزیراعلی بلوچستان علاﺅ الدین مری نے سراج رئیسانی کی شہادت پر گواہی دی ہے کہ ’دہشت گردی کی جنگ میں اپنے جوان سال بیٹے کی قربانی دینے کے باوجود انھوں نے کبھی دہشت گردوں سے ہار نہیں مانی۔ دہشتگردی کیخلاف اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہے اور بہادری کے ساتھ دہشتگردوں کی بھرپور مخالفت کرتے رہے‘۔ وطن کے بیٹے ایسے ہوتے ہیں۔ ضلع مستونگ میں خود کش حملہ ہلاکتوں کے حوالے سے بلوچستان میں سب سے بڑا حملہ قرار پایا ہے۔
حرف آخر یہ کہ بے حس سمجھی جانے والی افسر شاہی کے ایک سنئیر ترین رکن رکین جناب ارشاد کلیمی اکاو¿نٹنٹ جنرل پاکستان فرما رہے تھے “ اگر میرے بس میں ہوتا تونوابزادہ سراج رئیسانی شہید کو نشانِ حیدر سے سرفراز کرتا جس سے اس عالی مرتبت تمغے کی شان دوبالا ہو جاتی کہ وہ شہیدِ وفائے پاکستان تھا” وہ بتا رہے تھے کہ شہید سراج رئیسانی اپنے بلوچ جانبازوں کے ساتھ پاکستان کےلئے میدان جنگ میں لڑ رہا تھا۔ جن کا کمانڈر وہ خود تھا۔اس کالم نگار نے جناب کلیمی سے گذارش کی کہ سرکاری ملازمت کی مصلحتوں کی وجہ سے ان کا نام دئیے بغیر یہ گفتگو استعمال کروں گا تو برادرم ارشاد کلیمی نے کہا وہ شہید وطن اپنی جان سے گذر گئے اور ہم ایسے مصلحت پسند ہیں کہ ان کی مادر وطن سے عشق کی کہانی میں اپنا نام چھپاتے پھریں ایسا نہیں ہوگا سب کچھ میرے نام سے دیں۔
پاکستان کے تھائی لینڈ سفیر رہنے والے سہیل خان بتا تے ہیں کہ شہید سراج رئیسانی کے دو بیٹے اور بیٹی تھائی شہری ہیں ان کی بیٹی تھائی لینڈ کی وزارت خارجہ میں کام کر رہی ہے انہیں کسی دوست نے مشورہ دیا کہ آپ بلوچستان بھول جائیں اور تھائی لینڈ کی سیاست میں مسلمانوں کی قیادت کریں جو ظاہر ہے شہید وفا سراج رئیسانی کو گوارا نہیں تھا ان کی مثال تو کچھ یوں تھی کہ
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
ہم نے روندا ہے بیابانوں کو صحراﺅں کو
ہم جو بڑھتے ہیں تو بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں
........................ (ختم شد)