پاکستان کا مستقبل ووٹر کے ہاتھ میں
یوں تو عام انتخابات آٹھ دن کے فاصلے پر ہیں لیکن انتخابی مہم آج سے چھٹے دن رات بارہ بجے ختم ہوجائے گی جیسا کہ سب کا اندازہ تھا کہ پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141 نشستوں کو جیتنے کیلئے یہاں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان معرکہ ہوگا تاہم پیپلزپارٹی‘ تحریک لبیک پاکستان‘ تحریک اللہ اکبر اور ایم ایم اے بھی اپنی سی کوشش ضرور کریں گی۔ پنجاب کے سپوت اور پاکستان بھر کے قومی لیڈر نواز شریف انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں جیل جاچکے۔ ان کی شیردل بیٹی مریم نواز بھی جیل میں ہے تاہم پاکستان کا اعتدال پسند لیڈر شہبازشریف مسلم لیگ ن کی کشتی کو بھنور سے بچاتے کنارے پہنچانے کیلئے کوشاںہے۔ مسلم لیگ ن کو جن حالات کا سامنا ہے اس میں انتہاپسندی کی طرف چلے جانا غیرفطری نہیں لیکن میاں شہبازشریف تمام تر برے حالات کے باوجود میانہ روی کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ انہوں نے13 جولائی کو نہ صرف پورے لاہور کو متحرک کر دیا اور مسلم مسجد لاہور سے ناصر باغ تک لگ بھگ 50 ہزار لاہوریے نواز شریف کے کامیاب استقبال کی نوید سنا رہے تھے۔
شہباز شریف نے صرف یہ ہی نہیں کیاکہ اپنے بھائی اور لیڈر کا شایان شان استقبال ممکن بنایا بلکہ ایسی حکمت عملی اپنائی کہ لوگوں کو کسی بھی بڑے تصادم سے بھی بچا لیا۔وگرنہ نگران حکومت نے نواز شریف کی آمد سے دو روز پہلے سے جو اندھی مچا رکھی تھی، گرفتاریاں، چھاپے، چادر اور چاردیواری کے تقدس کی جس طرح پامالی کی گئی وہ نگران حکومت کے چہرے کو ہمیشہ کیلئے داغدار کر گیا ہے۔ 13 جولائی کی صبح سے میٹرو بس سروس کی بندش، اور پھر موبائل فون سروس سمیت انٹر نیٹ پر پابندیاں آمرانہ حکومت کی یاد دلا رہے تھے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ لوگ ایئرپورٹ کیوں نہیں پہنچے تو یقینا یہ زیادتی ہی کہلائے گی۔شہباز شریف کی حکمت عملی نے لاہور بلکہ ملک کا امن بچانے میں کامیابی حاصل کی۔انسانوں کاسمندر ایئرپورٹ پہنچتاتو سامنے رینجرز اور پولیس ہوتے۔ ابھی شہباز شریف نے اتنی احتیاط برتی تب بھی ان سمیت راجہ ظفرالحق، شاہد خاقان عباسی، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، مشاہد حسین سید، مریم اورنگ زیب، عظمی بخاری، سائرہ افضل تاررڑ اور دیگر رہنماو¿ں سمیت یونین کونسلوں کے چیئرمینوں سمیت 1300 سے زائد نا معلوم افراد کےخلاف دہشتگردی کی دفعات کے مقدمات قائم کر دیئے گئے حتیٰ کہ لوہاری یونین کونسل کے چئرمین حاجی حنیف جو اپنی گاڑی میں منرل واٹر اور جوس بھر کر لائے تھے اور میڈیا کے لوگوں میں تقسیم کروا رہے تھے وہ بھی دہشت گردی کی دفعات کے حقدار ٹھرے۔ ہمارے نز دیک مسلم لیگ (ن) کا ہدفً 25 جولائی ہے۔ وہ ووٹر کوموقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے بیانیہ ووٹ کو عزت دو کو عملی جامہ پہنانے اور خدمت کو ووٹ دیکر پاکستان کی نئی سیاسی تاریخ رقم کردیں۔
اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ الیکشن پر پری پول دھاندلی کا الزام لگ چکا ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف پی ٹی آئی کو ابھارا جا رہا ہے، عمران خان لاڈلا بن چکا ہے جس کی مکمل سرپرستی جاری ہے یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ مسلم لیگ ن کے سربراہ شہبازشریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہہ رہے ہیں انکی آواز میں آواز ملانے والوں میں ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی شامل ہیں۔ انکی جانب سے الیکشن کمشن اور نگران حکومتوں سے صورتحال کی اصلاح کیلئے مطالبات کئے جارہے ہیں۔ میاں شہبازشریف نے تو چیف جسٹس پاکستان‘ چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ ایک مرتبہ آرمی چیف سے بھی مطالبہ کیا کہ شفاف آزادانہ الیکشن کو یقینی بنائیں۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ 15 جولائی کو آئی جی پولیس پنجاب کی جانب سے جاری اس ہینڈ آو¿ٹ سے کیا جا سکتا ہے جس کے مطابق پولیس نے گزشتہ چار دنوں میں الیکشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر مجموعی طور پر 17 ہزار 606 افراد کےخلاف کاروائیاں کیں۔ ان میں مسلم لیگ (ن) کے16 ہزار 868 افراد ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے صرف 39افراد ہیں۔ سبحان اللہ۔ دیگر سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے 654 افراد شامل ہیں۔ ادھر عدالتوں اور نیب کی طرف آئیں تو وہاں بھی مسلم لیگ(ن) کا گھیرا تنگ ہے۔سپریم کورٹ نے آصف زرداری کے معاملے میں 30 جولائی کی چھوٹ دی لیکن نیب کیا کررہا ہے؟ مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف کو 16 جولائی کو نیب میں طلب کیا گیا۔ یہ دوہرا معیار ہے جبکہ الیکشن کمشن خاموش ہے، لوگوں میں اس پر سرگوشیاں ہو رہی ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ جنہوں نے کبھی پتہ تک نہیں توڑا انہیں دہشت گرد بنا دیا گیا ہے۔ الیکشن کمشن اس ساری صورتحال میں خاموش تماشائی کیوںہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی عمران خان کو لاڈلا قرار دے دیا ہے۔ انہیں جی ڈی اے کو پیپلزپارٹی پر چڑھانے کی بھی شکایت ہے۔ ان کا کہنا بجا ہے کہ متنازعہ الیکشن سے متنازعہ پارلیمنٹ وجود میں آئیگی۔ مسلم لیگ ن کے پرامن کارکنوں کی گرفتاریوں اور ان پر دہشتگردی کے مقدمات قائم کئے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ بہتر ہوگا کہ پی ٹی آئی اس تمام صورتحال پر مزا لینے کے بجائے نگرانوں اور الیکشن کمشن سے مطالبہ کرے کہ براہ کرم کسی سے بھی زیادتی نہ کریں وگرنہ کل 25 جولائی کے بعد جو حکومت آئیگی وہ پہلے د ن ہی سے تنازعات کا شکار ہو جائیگی۔ ایک بات طے ہے کہ ان انتخابات سے کوئی ایک جماعت کوئی بڑی اکثریت لے کر نکلنے والی نہیں ہے۔
الیکشن چرانے کے ماہرین اپنی تمام تر کاریگری کے باوجود 2002ءمیں کنگز پارٹی کو اکثریت نہیں دلوا سکے تھے۔ انہیں راﺅ سکندر اقبال جیسے جیالے کو توڑ کر پیپلزپارٹی پیٹریاٹ بنانا پڑی تھی جبکہ آج تو جیل سے نوازشریف‘ باہرشہبازشریف اور بلاول بھٹو زرداری جیسے رہنما اپنے لوگوں کی رہنمائی کررہے ہیں۔ کٹھ پتلی حکومت وجود میں آبھی گئی تو وہ عوام کے مسائل حل نہیں کرسکے گی۔ نواز شریف کی آمد پر مسلم لیگ(ن) کے کامیاب شو کا نتیجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین انتخابی مہم کا آخری ہفتہ یہاں لاہور ہی کے حلقوں میں گزاریں گے۔ جبکہ بلاول بھٹو زرداری 19 جولائی کو لاہور آرہے ہیں اور صبح سے رات تک پنجاب کے صوبائی دارالحکومت کے قومی اسمبلی کے 14 حلقوں میں اپنی پارٹی کے امیدواروںکی انتخابی مہم چلائینگے ۔عمران خان 18 جولائی کو لاہور آئیں گے اور 23 جولائی کی رات 12 بجے تک یہاں لاہور کے تمام قومی اسمبلی کے حلقوں میں جلسے کرینگے۔ مسلم لیگ ن کے میاں شہباز شریف بھی انتخابی مہم کا آخری جلسہ لاہور ہی میں کرینگے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ووٹرکس کے حق میں فیصلہ دیتا ہے۔ پاکستان کا مستقبل ووٹر کے فیصلے سے منسلک ہوچکا ہے۔ اللہ کرے 25 جولائی کو ووٹر کو اپنا حق آزادانہ استعمال کرنے کا موقع ملے۔