پاکستان کی معیشت
عالمی بنک پھر اس بات کا اظہار کر رہا ہے کہ پاکستانی روپے کی قیمت اس کی اصل پیداواری قیمت سے اب بھی زیادہ ہے۔لہٰذا ایک بار پھر اس کی قدر میں کمی کی ضرورت ہے جبکہ گزشتہ سال ہی روپے کی قدر میں کمی کی گئی۔ ’’قرض چکاؤ سکیم‘‘ میں ملین ڈالرز جمع ہوئے جن میں 75 فیصد رقم وہ ہے جو موجودہ بین الاقوامی تجارت کی شرح سے زیادہ سود کے وعدے پر حاصل کی گئی ہیں۔ ہاورڈ بزنس ا سکول کے مشہور ومعروف پروفیسر مائیکل پورٹر کا کہنا ہے۔ ’’اگر اقتصادی مشکلات کا حل کرنسی کی قیمت میں کمی ہے تو پھر اقتصادی پالیسی میں کوئی بنیادی نقص ضرورہے‘‘ یہی بات کچھ عرصہ سے بعض پاکستانی بھی کہتے رہے ہیں۔لہٰذا یہ امر ضروری ہے، کہ اقتصادی پالیسی کی ساخت پر صیح معنوں میں غور کیا جائے اور ایسا حل تلاش کیا جائے جسکے نتیجے میں پاکستانی معیشت کرنسی کی قدر میں بار بار کمی سے محفوظ ہو جائے ۔ مقامی سرمایہ کاروں کا ایک پر عزم گروپ نہایت کامیابی کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسی کثیر الاقوامی کارپوریشنیں موجود ہیں ، جو مقامی سطح پر صنعتکاری کے ذریعہ عالمی سطح ُپر کامیابی حاصل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
پاکستان میں بھی اسکے روشن مواقع موجود ہیں۔ جاپانی کمپنیوں نے گزشتہ پچاس برسوں میں کامیابی کا ایک عظیم باب رقم کیا ہے۔دینا میں جہا کہیں بھی ان صنعتی اداروں کے قدم پہنچے ہیں، مقامی صنعت کو فروغ دیا ہے۔ اگر انہیں پاکستان میں سازگار ماحول فراہم کیا جائے تو وہ یہاں بھی وہی کارنامہ سرانجام دے سکتی ہیں جو انہوں نے تائیوان، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، ملائیشیا اور سنگاپور وغیرہ میں انجام دیا ہے۔ حال ہی میں ہانگ کانگ میں ہاورڈ بزنس سکول کے بین الاقوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مائیکل پورٹر نے مزید کہا کہ ’محض قدرتی وسائل کی افراط، سستی افرادی قوت، آبادی کا حجم یا فوجی قوت سے کوئی معیشت پنپ نہیںسکتی، بلکہ پیداواری طاقت ہی اس کا حقیقی منبع ہے اور یہ اشیا کی قدر میں اضافہ کرنے ہی سے ممکن ہے۔ مینجمنٹ کے تین بنیادی ارکان یعنی لاگت میں کمی، کارکردگی میں اضافہ اور موثر طریقہ کار انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس بات کی اہمیت کم ہے کہ آپ کو کیا کرنا ہے البتہ یہ بات زیادہ اہم ہے کہ اسے کیسے کرنا ہے۔ انفرادیت کی تخلیق آپ کا کام ہے۔آپ کو اشیا کی قدر میں اضافہ کرنا ہے درحقیقت وہ ادوار ہی کامیابی کی ضمانت ہیں اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے واحد راستہ ایسا قومی ماحول ہے جو کاروبار کو فروغ دینے کا ضامن ہو سکے۔آج کی دنیا مقابلے کا میدان ہے ، اور وہ ہی اس میدان میں اُتر سکتا ہے جس کے پاس اعلیٰ معیار ہو۔ ایسا ہی ملک اپنے عوام کو ایک بہتر معیار زندگی فراہم کر سکتا ہے۔
ہاورڈ بزنس اسکول کے ایک ڈین ، پروفیسر کم کلارک نے بھی مذکورہ بالا کانفرنس میں کہا کہ ان کا ادارہ ٹیکنالوجی کی تشکیل ترقی ، مہارت اور بین الاقوامیت پر اپنی توجہ مرکوز رکھے گا۔ ٹیکنالوجی کے معاملہ میں پاکستان بہت پیچھے ہے۔ معیشت کو سطح عالمی تک لے جانا، مقابلہ کی قوت پیداکرنا اور تخلیقی انفرادیت پیداکرنا ابھی ہمارے لئے خواب و خیال ہے لیکن پاکستان کے پاس افرادی قوت کی کمی نہیں، جیسا کہ حال ہی میں وزیراعظم ایشیاء نے پاکستان کے دورے کے موقع پر تسلیم کیا کہ ہمارے پاس ماہرین اور مہارت کی بھی کمی نہیں۔ پاکستانی تاجر اور صنعت کار اعلیٰ پایہ کے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکسیانیوں نے ملک میں بلکہ بیرونِ ملک زیادہ نمایاں طور پر کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ اس پر ہماری آئندہ ترقی اورخوشحالی کا دارومدار ہے۔ اسی کی بدولت ہم اپنے قرضوں سے چھٹکارا حاصل کر سکیں گے۔ بیرونِ ملک موجودہ پاکستانیوں کی ہنرمندی اور مہارت فن ہی آخر کار ہمارے کام آئے گی کہ ایک ایسی سکیم کے ذریعے جیسے ’’قرض اتاروملک سنوارو۔۔۔ بیرونِ ملک قومی وسائل کو دوبارہ ملک میں واپس لاؤ سکیم ‘‘کا نام دینا چاہئے۔کیوں نہ ہم ایک ایسا صنعتی اور تجارتی ماحول تشکیل دیں جس کے ذریعہ پاکستان ہی میں اعلیٰ معیار حاصل کرکے پاکستانیوں کی ترقی کے بہتر مواقع پیدا کیے جائیں جو پاکستان میں ہی زیادہ تر سرمایہ کاری، صنعتکاری اور برآمدات پر مناسب توجہ دے سکیں۔ کیوں نہ ہم اپنے ان باصلاحیت افراد کو واپس لائیں جو دنیا بھر میں بہترین مانے جاتے ہیں، تاکہ وہ اپنے ملک کی معیشت کی تعمیر میں ہاتھ بٹاسکیں۔ ہمارے سائنسدانوں کو تو اپنے ملک کی خدمت کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ ہمیں چاہئیے کہ اپنے ماہرین کو، اپنے افرادی وسائل کو کسی طرح واپس بلائیں۔ ہمارے سائنسدان، اساتذہ، ماہرین طب ، انجینئر، منتظمین اور کارکن جو ملک سے باہر جاکر مالی تحفظ تلاش کرتے ہیں وہ جن کی تعلیم وتربیت پر قیمتی قومی وسائل صرف ہوئے ہیں جو دوسرے ممالک کو اپنے ہنراور اپنی مہارت سے فیضیاب کر رہے ہیں، انہیں اپنے وطن میں ہونا چاہئیے۔ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم انکی صلاحیت سے فائدہ اُٹھانے کی لئے منصوبہ بندی کریں اور اس طرح اپنے قومی مفاد کا تحفظ کریں۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنے افرادی وسائل اور ماہرین کو وہ عزت، وہ مقام دیں جو ان کا حق ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے بیرونی سرمایہ دار اور ماہرین کو ملک کے اندر رہ کر دولت میں اضافہ کرنے کا موقع فراہم کریں۔ یہی وقت کا تقاضا ہے کاش کہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کیلئے خود اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر سکیں۔ کہیں ہماری وہی حالت تو نہیں کہ …؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہروکے ساتھ
پرجانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں
باور کیا جاتا ہے کہ اندرونِ یا بیرونِ ملک پاکستانیوں کے پاکستان میں یا بیرونِ ملک تقریباً دس بلین ڈالر جمع ہیں مذکورہ بالا تجاویز پر عمل کرنے سے یہ سرمایہ اندرونِ ملک منتقل ہوسکتا ہے جس سے پاکستان کی تمام ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔