منگل‘ 3ذیقعد 1439 ھ ‘ 17 جولائی 2018ء
فرانس فٹبال کی دنیا کا نیا حکمران بن گیا
جس طرح آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اسی طرح فٹبال کو کھیلوں کی دنیا کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ اب اس دنیا کی بادشاہی فرانس نے حاصل کر لی ہے۔ 2018ءفیفا ورلڈ کپ کے سنسنی خیز عالمی مقابلوں کی دوڑ کا فاتح اس بار غیر متوقع طوپر فرانس رہا ۔ دنیا بھر کے کروڑوں شائقین نے یہ مقابلے دل تھام کردیکھے ۔ ان مقابلوں میں دنیا کی بڑی بڑی فٹبال ٹیموں کو ابتدائی مقابلوں میں چھوٹی ٹیموں کے ہاتھوں جس طرح شکست ہوئی اس نے ان مقابلوں کو واقعی سنسنی خیز بنا دیا۔ میسی، رونالڈو ، نیمار جیسے کھلاڑیوں کو نمبر ون ٹیمیں جنہیں متوقع ورلڈ چمپئن تصور کیا جاتا تھا۔ دم دباتے منہ چھپائے ایک ایک کرکے ماسکو سے اپنے وطن یوں رخصت ہوئیں جیسے جنازے کی تدفین کے بعد سوگوار رخصت ہوتے ہیں ۔ کئی بڑی بڑی ٹیموں کا وطن واپسی پر انڈوں اور ٹماٹروں کے ساتھ روایتی استقبال کیا گیا۔ کئی ٹیموں نے تو اپنی وطن واپسی بھی خفیہ رکھی۔ ورلڈ کپ کے فائنل میں فرانس کی ٹیم کا مقابلہ کروشیا کی ٹیم سے رہا جسے ابتدائی راﺅنڈ کی ٹیم خیال کیا جاتا تھا مگر اس نے اس بار فٹبال کی نئی تاریخ رقم کی اور جان توڑ مقابلوں کے بعد فائنل میں آ پہنچی ۔ فرانس اس پہلے بھی ایک مرتبہ یہ تاج سر پر سجا چکا ہے۔ اب 20سال بعد اسے دوبارہ یہ اعزاز نصیب ہوا ہے۔ ہمارے ہاں بھی فٹبال پسندیدہ کھیل ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کی نظر کرم صرف کرکٹ تک محدود ہے۔ ہماری ہاکی جس کا ڈنکا کبھی پوری دنیا میں بجتا تھا اب اس کا ڈھول بجانے کو کوئی تیار نہیں۔ کیونکہ وہ نظر عنایت سے محروم ہے۔ فٹبال کا کافی ٹیلنٹ موجود ہے مگر اس طرف کوئی توجہ دے تو بات بنے ۔ ہمار ے سٹریٹ چلڈرن فٹبالروں نے عالمی سطح پر اپنی دھاک جمائی ملک کا نام روشن کیا ۔ کیا اب اس ٹیلنٹ کو آگے پروموٹ کیاجائے گا یا یہ بھی سرکاری بے حسی کا شکار رہیں گے ۔ کرکٹ سے محبت سرآنکھوں پر ۔حکومت دوسرے کھیلوں پر بھی شفقت کا ہاتھ رکھے ۔ ہاکی فٹبال ، باکسنگ میں بھی ہمیں اچھے کھلاڑی مل سکتے ہیں ۔
٭....٭....٭....٭
جنید صفدر لاہور پہنچ گئے ، سیاست میں آنے کیلئے تیار
لندن میں ایون فیلڈز کے باہر ان ایکشن نظر آنے والا نوجوان جنید صفدر مسلم لیگ ن والوں کے دلوں میں اس وقت گھر کر گیا جب انہوں نے اسے مخالف سے مقابلہ کرتے دیکھا۔ اب ہمارے عوام روایتی مردانہ معاشرے میں رہنے کی وجہ سے ذرا ہتھ چُھٹ کھلے ڈلے فلمی سٹائل والے افراد کو ویسے ہی پسند کرتے ہیں۔لگتا ہے لاہور آنے کے بعد جب جنید صفدر انتخابی مہم میں حصہ لیں گے تو وہ بھی اپنے والد ، والدہ اور نانا کی طرح جلدی ووٹروں کی ہمدردیاں سمیٹ لیں گے۔ یوں پاکستانی سیاست میں ایک نئے سلطان راہی کا داخلہ ہوگا، اس سے پہلے یہ کردار تحریک انصاف کے مراد سعید ادا کرتے تھے ۔ ہمارے ہاں ووٹرلاکھ حالات کا رونا روئیں مگر ووٹ ڈالتے وقت امیدوار کی قابلیت میں یہ خوبی ضرور تلاش کرتے ہیں کہ وہ تھانہ کچہری جانے اور مخالفین کے دانت کھٹے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں ۔ اب مسلم لیگ والوں کو جنید صفدر کی صورت میں تحریک انصاف کے مراد سعید کا مقابلہ کرنے والا اور سیاسی میدان میں اچھا خاصہ ھلہ گلہ کرنے والا مل گیاہے۔ ویسے بھی ہماری سیاست اب آہستہ ہستہ مکمل موروثی سیاست میں بدل رہی ہے۔ بلاول ، حمزہ ، جنید کے بعد دیکھتے ہیں اب سلمان اور قاسم خان کی کب ہماری سیاست میں انٹری ہوتی ہے۔
22سال سے ان انتخابات کا انتظار کر رہا تھا : عمران خان
تو یوں کہہ لیں ناں....”تھا جس کا انتظار وہ شہکار آ گیا“ خان صاحب کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بار انہیں انگلی والے پیر اور ایمپائر نے کھل کر حکمرانی کا مژدہ سُنا دیا ہے جن کے اشارے کے وہ 22 سال سے منتظر تھے۔ سچ کہتے ہیں 12 سال بعد تو روڑی (کنکری) کی بھی سُنی جاتی ہے۔ سو اب وہ لمحہ مسعود آنے والا ہے جس سیلاب کا خان صاحب نے ملک بھر میں سونامی کے نام سے تعارف کرا رکھا تھا۔ اب دیکھنا ہے 25 جولائی تک کوئی انہونی نہیں ہوتی تو کیا ہوتا ہے۔ ویسے خان صاحب نے خواب دکھانے والوں کو خبردار بھی کر دیا ہے کہ اگر اس بار بھی ان کے ساتھ کوئی ہاتھ ہوا تو پھر دہشت گرد کامیاب ہوں گے۔ لگتا ہے فوج نے نہیں خان صاحب نے ان دہشت گردوں کو بڑی مشکل سے قابو کیا ہوا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن جماعتیں دھاندلی ہونے کی صورت میں احتجاج کی دھمکیاں دے رہی ہیں تو دوسری طرف خود خان صاحب بھی اپنی جیت نہ ہونے کی صورت میں یہی دھمکی دے رہے ہیں۔ ان باتوں سے تویہی پتہ چلتا ہے کہ کسی کی بھی جیت ہو یا ہار دونوں صورتوں میں ملک میں دما دم مست قلندر کا ماحول پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کا واحد حل تو یہی نظر آ رہا ہے کہ الیکشن کے معاملات میں کوئی خفیہ انگلی یا ایمپائر مداخلت نہ کرے۔ یہ باتیں اب ختم ہونی چاہئیں۔ خان صاحب نجانے کیا بات ہے ٹھیک ٹھاک چلتے چلتے کیوں پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں۔ ان کے لب و لہجے سے پہلے ہی سنجیدہ لوگ بیزار ہیں۔ ان کا بیانیہ بھی کبھی کبھی زبان کے ساتھ بہکنے لگتا ہے۔ کبھی مخالف ووٹروں کو گدھا کہہ دیتے ہیں اور اب کہہ رہے ہیں وہ 22 سال سے اس الیکشن کے انتظار میں تھے۔ یہ بیانیہ خودبخود شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے۔ لوگ کہنے لگے ہیں کہ دیکھا اب خان صاحب کو باری دی جا رہی ہے۔
٭....٭....٭....٭
کراچی کی خاتون مریم علی نے ایمنسٹی سکیم میں سب سے زیادہ 3ارب 30کروڑ ٹیکس ادا کیا
یہ توتنہا خاتون ہمارے بڑے بڑے مردوں پر حاوی ثابت ہوئی ہیں ۔ ہمارے کھربوں پتی اشرافیہ خواہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ایمنسٹی سکیم کے تحت ہی اپنے اثاثوں کی صحیح مالیت بتا کر صرف 2فی صد ٹیکس ادا کرکے انہیں قانونی حیثیت دیں ۔ ٹیکس چورو ں کے اس معاشرے میں واقعی مریم علی تحسین اور داد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے ٹیکس ادائیگی ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا جو شاید ہی کسی رستم و سہراب قسم کے ٹیکس چوروں سے ٹوٹ سکے ۔ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں صرف 12لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں وہ بھی واجبی ان میں سے بھی 8لاکھ افراد وہ ہیں جو ملازمت پیشہ ہیں۔ باقی تاجر ، صنعت کار ، سرمایہ دار ، جاگیر دار ، وڈیرا، خان، نواب مخدوم ، پیر سب جس ملک کے صدقے عیاشیاں کرتے ہیں خوب مال کماتے ہیں وہ اسکے خزانے میں اپنے حصے کا ٹیکس بھی ایمانداری سے ادا نہیں کرتے ۔ان میں اکثر وہ لوگ ہیں جو عوام کو دیانت ، صداقت کا درس دیتے پھرتے ہیں مگر انکی اپنی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ان حالات میں اگر عوام میں سے کوئی محب وطن مٹی کی محبت کا قرض چکاتا ہے تو اسے سراہنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ حکومت مریم علی جیسی محب وطن شخصیات کیلئے خصوصی ایوارڈ کا اجرا کرکے انکی حوصلہ افزائی کرے تا کہ دوسروں میں بھی ایسا کرنے کا شعور پیدا ہو اور ملک کو ٹیکس چوری کے کلچر سے نجات ملے ۔
٭....٭....٭....٭