شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کی ضرورت
مسلم لیگ ن کے صدر محمد شہباز شریف نے سی ایم ایچ کوئٹہ میں سانحہ مستونگ کے زخمیوں کی عیادت کے موقعہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شفاف الیکشن کا انعقاد سب سے بڑی ضرورت ہے وگرنہ ملک کا نقصان ہو گا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ حالیہ دہشت گردی کی صورتِ حال کے باعث سیاسی سرگرمیاں محدود ہو گئی ہیں، تاہم ایک سیاسی جماعت کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت حاصل ہے، جبکہ دیگر تمام جماعتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی، جو ان دنوں اڈیالہ جیل میں ہیں کہا کہ شفاف الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے عوام اُٹھیں اور تحریک بن کر پھیل جائیں۔ دریں اثناءپیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو نے بھی شکوہ کیا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو انتخابی اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کُھلی چھٹی ہے جبکہ ہمیں اور کچھ دوسری جماعتوں کو روکا جا رہا ہے۔
ایک سیاسی جماعت کو چھوڑ کر دیگر سبھی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک ہی نوعیت کی شکایت اور بیانات، محض حُسن اتفاق اور کسی گٹھ جوڑ یا سازش کا نتیجہ نہیں۔ جب ساری جماعتیں ایک ہی قسم کے حالات سے دوچار ہو جائیں تو پھر ذمہ داروں، بالخصوص الیکشن کمشن اور نگران حکومتوں کو سوچنا پڑے گا کہ ایک آدھ کے سوا سبھی سیاسی جماعتیں یکساں نوعیت کی شکایات کا کیوں اظہار کررہی ہیںاور چاروں طرف سے ایک ہی آواز کیوں اُٹھ رہی ہے۔ کہیں ایسا انتخابات اور جمہوری عمل کے خلاف سازش تو نہیں ہے۔ ماضی میں انتخابات میں دھاندلی اور غیر شفافیت نے ملک و قوم کو اتنے زخم لگائے ہیں کہ وہ ابھی تک مندمل نہیں ہو سکے۔ 2013ءکے انتخابات کے خلاف تحریک انصاف نے پورے پانچ سال تک ایجی ٹیشن چلائے رکھی۔ جس سے تحریک انصاف کی مراد تو پوری نہ ہوئی البتہ ملک کی ترقی کی رفتار ضرور متاثر ہوئی۔ اس سے پہلے 1977ءکے انتخابات کی غیر شفافیت نے ملک کو گیارہ سال تک آئین کی حکمرانی اور جمہوریت سے محروم رکھا۔ انتخابات کا مطلب ہے، عوام کی مرضی جاننا، کہ وہ حقِ حکمرانی کسے دینا پسند کریں گے۔ عوام کی مرضی جاننے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے آزادانہ ووٹنگ۔ الیکشن کمشن اور نگران حکومتوں کا اصل فریضہ یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور آزاد اُمیدواروں کی ووٹر تک رسائی یقینی بنائیں اور اس راہ میں حائل رکاوٹیں اور مشکلات بلاتاخیر دور کریں۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو پھر یہ دونوں ادارے اپنے فرض کی کماحقہ ادائیگی میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں منعقدہ الیکشن کسی صورت بھی منصفانہ اور شفاف نہیں قرار پائیں گے۔ چنانچہ انتخابات کے بعد کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے ذمہ دار اداروں پر عائد ہو گی۔ دوسری طرف سسٹم کےخلاف ایسی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے جمہوری قوتوں کو بھی حرکت میں آنا اور اکٹھے ہونا ہو گا۔