سانحہ مستونگ کے تناظر میں بھارتی سازشوں سے ہمہ وقت ہوشیاررہنے کی ضرورت ہے
نگران وزیراعظم کا ملک اور عوام کی سکیورٹی پر سیاسی قیادت کا تعاون حاصل کرنے کا عندیہ اور قومی قیادتوں کی مثبت سوچ
نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک نے خیبر پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ انتخابی امیدواروں اور سیاسی ریلیوں اور کارنر میٹنگز میں شرکت کرنیوالے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے تمام سکیورٹی اقدامات اور ہر ممکن انتظامات کو یقینی بنایا جائے۔ گزشتہ روز گورنر ہاﺅس کوئٹہ میں امن و امان کے حوالے سے منعقدہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سلامتی سے متعلق انتظامات کے بارے میں سیاسی قیادت سے مشاورت اور کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے رونما ہونے سے بچنے کیلئے ان کا تعاون حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور معاونت سے عوامی شعور اجاگر کرنے کیلئے فوری مہم بھی شروع کی جانی چاہیے تاکہ عوام کو سکیورٹی سے متعلق معیاری طریقہ ہائے کار کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں اور لوگ اس پر عمل کرسکیں۔ انہوں نے سانحہ¿ مستونگ کے بعد زخمیوں کو بروقت امداد فراہم کرنے اور انہیں ہسپتالوں میں منتقل کرنے کے ضمن میں مسلح افواج اور سول انتظامیہ کی کوششوں کی تعریف کی اور کہا کہ اس مستعدی کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں بچ گئیں۔ انہوں نے ساراوان ہاﺅس کوئٹہ کا دورہ بھی کیا اور وہاں سراج رئیسانی کے غمزدہ خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا۔ اسی طرح انہوں نے سی ایم ایچ کوئٹہ کا دورہ کرکے وہاں سانحہ¿ مستونگ میں زخمی ہونیوالے افراد کی عیادت کی اور انکی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی‘ نگران وزیراعلیٰ بلوچستان علاﺅالدین مری اور وفاقی وزیر روشن خورشید بروچہ بھی انکے ہمراہ تھے جبکہ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے نگران وزیراعظم سے گورنر ہاﺅس میں ملاقات کی اور انکے ہمراہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بھی شرکت کی جس میں چیف سیکرٹری بلوچستان نے مستونگ دھماکے کے بارے میں بریفنگ دی۔ اس میٹنگ میں نگران وزیراعلیٰ بلوچستان علاﺅالدین مری نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کیلئے ہمسایہ ملک کی سرزمین استعمال ہورہی ہے۔
مستونگ خودکش حملہ اب تک ملک میں ہونیوالی بلاشبہ سب سے بڑی دہشت گردی ہے جس میں سراج رئیسانی سمیت ڈیڑھ سو افراد کی شہادتوں کی سرکاری طور پر تصدیق کی جاچکی ہے جبکہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کے بقول اس سانحہ میں شہید ہونیوالوں کی تعداد دو سو سے تجاوز کرچکی ہے۔ اسکے علاوہ 186 افراد دہشت گردی کی اس سفاکانہ واردات میں زخمی ہوئے ہیں جن میں سے کئی زخمیوں کی حالت نازک ہے جبکہ کئی زخمی مستقل طور پر اپاہج اور معذور ہوچکے ہیں۔ دسمبر 2014ءکے سانحہ اے پی ایس پشاور میں جو اس وقت دہشت گردی کی سب سے بڑی واردات تھی‘ سفاک دہشت گردوں نے باقاعدہ ٹارگٹ کرکے سکول کے اساتذہ اور بچوں سمیت ڈیڑھ سو افراد کو شہید کیا تھا جبکہ سکیورٹی اداروں نے بروقت اپریشن کرکے تمام دہشت گردوں کو وہیں پر جہنم واصل کردیا تھا جن کے بارے میں ٹھوس شواہد کے تحت معلوم ہوا کہ وہ سب کے سب افغانستان کی سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوئے تھے اور دہشت گردی کی واردات کے وقت بھی ان کا افغانستان میں موجود اپنے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ قائم تھا۔ اس سانحہ کے بعد ملک کی تمام قومی سیاسی‘ عسکری قیادتیں باہم سرجوڑ کر بیٹھیں اور دو مراحل میں ہونیوالی آل پارٹیز کانفرنس میں دہشت گردوں کی مکمل سرکوبی اور اس سرزمین کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کیلئے ایک جامع 20 نکاتی نیشنل ایکشن پروگرام پر اتفاق کیا گیا جس کیلئے فوجی عدالتوں کی تشکیل سمیت سکیورٹی اداروں کو خصوصی اختیارات بھی دیئے گئے۔ اس پروگرام کے تحت جنوبی وزیرستان میں اپریشن ضربِ عضب اور پھر ملک بھر میں اپریشن ردالفساد‘ کومبنگ اپریشن اور خیبر پی کے میں اپریشن خیبرفور کا آغاز کیا گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ ان اپریشنز کے نتیجہ میں دہشت گردی کی جنگ میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں اور عملاً دہشت گردوںکی کمر ٹوٹ گئی جو اس ارضِ وطن سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے اور بچے کھچے دہشت گرد مایوسی کے عالم میں دہشت گردی کی اکادکا وارداتیں کرتے رہے مگر ہمارے مکار دشمن بھارت کو دہشت گردی کی جنگ میں ہماری کامیابیاں ہضم نہیں ہوئیں جس نے دہشت گردی اور دوسری سازشوں کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے بالخصوص بھارت کی موجودہ مودی سرکار پاکستان کی سلامتی کیخلاف اعلانیہ سازشوں میں مصروف ہے چنانچہ اس نے اپنی ایجنسی ”را“ کو پاکستان میں دہشت گردی اور اسکے اقتصادی راہداری منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کیلئے بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کرنے کا ہدف دیا جس کی تکمیل کی ذمہ داری ”را“ نے اپنے حاضر سروس جاسوس کلبھوشن یادیو کے سپرد کی‘ اس سفاک انسان نے دو سال قبل اپنی گرفتاری کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے بھارتی منصوبے کا انکشاف کیا جس کی نشاندہی پر اسکے ساتھی دوسرے بھارتی اور افغان جاسوس بھی گرفتار ہوئے جبکہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں سفارتکاروں کے بھیس میں تعینات بھارتی جاسوسوں کا بھی کلبھوشن کے ذریعے ہی انکشاف ہوا جنہیں ملک بدر کیا گیا۔
کلبھوشن کے ذریعے منظر عام پر آنیوالے اس بھارتی سازشی منصوبے کے بعد تو ہمارے حکمرانوں اور عسکری قیادتوں کو بھارتی عزائم سے ملک اور قوم کو بچانے کیلئے ہمہ وقت چوکس اور تیار رہنا چاہیے تھا جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور دوسرے بھارتی سول اور فوجی حکام پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کا اعلان و اظہار کرتے بھی نظر آئے اور مودی نے تو باقاعدہ اس امر کا اعلان بھی کردیا کہ ہم اب بلوچستان‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے عوام کو پاکستان سے آزادی دلانے کیلئے انکی معاونت کرینگے۔ مودی سرکار نے اسی سازشی منصوبہ کے تحت بلوچستان میں بعض قوم پرست نوجوانوں کی شروع کی گئی علیحدگی کی نام نہاد تحریک کی سرپرستی کی اور انکی آواز اقوام متحدہ اور امریکی کانگرس تک پہنچانے میں بھی مدد کی۔ ہماری سلامتی کے حوالے سے ہمارے ازلی مکار دشمن کی پیدا کردہ یہ صورتحال بلاشبہ ہمارے لئے لمحہ¿ فکریہ تھی مگر ہماری جانب سے دنیا کو بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دکھانے میں سفارتی سطح پر کسی فعالیت کا مظاہرہ کیا گیا نہ ملک کے اندر بھارتی سازشوں کے توڑ کی کوئی مو¿ثر منصوبہ بندی کی گئی۔ کلبھوشن کو اسکے جرائم کے ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر سزائے موت ملی جس کیخلاف بھارت نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا اور اسے اپنا بیٹا قرار دے کر اسے سزا سے ہرصورت بچانے کا عزم باندھا مگر ہم عدالت انصاف کے روبرو اپنے دفاع میں بھی کوئی مضبوط کیس پیش نہ کرسکے چنانچہ کلبھوشن کی سزائے موت پر عملدرآمد رک گیا۔ اب پاکستان کی جانب سے کلبھوشن کیس میں چار سو صفحات پر مشتمل جواب تیار کیا گیا ہے جو آج 17 جولائی کو عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جارہا ہے مگر ہم ملک کے اندر بھی اپنے اس مکار دشمن کی دہشت گردی کی سازشوں کا توڑ کرنے میں عاری نظر آتے ہیں جو ان سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہماری کسی نہ کسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے موقع کی تاک میں بیٹھا ہوتا ہے اور یہ موقع اسے گزشتہ دو سال سے جاری ہمارے سیاسی عدم استحکام اور اس بنیاد پر عساکر پاکستان کی توجہ اپنی اصل ذمہ داریوں پر مرکوز نہ رہنے کی بنیاد پر ملتا رہتا ہے۔
اب اسی فضا میں ملک میں عام انتخابات منعقد ہورہے ہیں جن میں بطور خاص ایک پارٹی کو دیوار سے لگانے اور دوسری پارٹی کو انتخابی معرکہ مارنے کا آسان موقع فراہم کرنے کی کوششوں میں ہمارے نگران حکمرانوں اور سکیورٹی اداروں کی توجہ اصل ذمہ داریوں سے ہٹتی محسوس ہوتی ہے تو یہی ہمارے دشمن بھارت کیلئے نادر موقع ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے سے متعلق اپنے سازشی منصوبے کو آگے بڑھائے۔ اس تناظر میں انتخابات کے عمل کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کیلئے بھارتی ایجنسی ”را“ کا متحرک ہونا بعیدازقیاس نہیں تھا اور ہماری ایجنسیوں کے پاس اسکی ٹھوس اطلاعات اور شواہد بھی موجود تھے اس لئے ملک میں آزادانہ‘ منصفانہ‘ شفاف اور پرامن انتخابات کا کریڈٹ لینے کے خواہاں ہمارے نگران حکمرانوں اور دوسرے متعلقہ اداروں کو اپنی پوری توجہ امن وامان کا قیام یقینی بنانے پر ہی مرکوز کرنی چاہیے تھی چہ جائیکہ ایک پارٹی کو انتخابی میدان سے باہر نکالنے کیلئے زور لگایا جاتا۔
جب انتخابی عمل میں نگران حکمرانوں کی جانب سے اصل فرائض سے پہلوتہی کی جاتی نظر آنے لگی اور سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کو بھی رگیدنے اور انکے مدمقابل پی ٹی آئی کو سرخرو کرنے کے منصوبے میں دوسرے قومی اداروں کی مستعدی بھی اجاگر ہونے لگی جس سے ملک میں سیاسی افراتفری اور انتشار کا تصور مزید پختہ ہوا تو یہی ہمارے دشمن کیلئے نادر موقع تھا چنانچہ خیبرپی کے میں اے این پی کے رہنماءاور انتخابی امیدوار ہارون بلور کو انکے 22,20 ساتھیوں سمیت سفاکانہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس سے اگلے ہی روز بنوں میں جمعیت علماءاسلام کے اکرم درانی کے قافلے پر ریموٹ کنٹرول بم حملہ ہوگیا جس میں پانچ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں اور دو درجن سے زائد افراد زخمی ہو کر خون میں لت پت ہوئے۔ چونکہ دشمن کو ہماری اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا نے کا نادر موقع مل چکا تھا جو میاں نوازشریف اور مریم نواز کی ملک واپسی کے موقع پر نگران حکمرانوں کی سیاسی کارکنوں پر توڑی جانیوالی سختیوں کے باعث پیدا ہوا تھا اس لئے اسی شام مستونگ میں سراج رئیسانی کے ایک کارنر جلسہ میں خودکش حملے کے ذریعے قیامتِ صغریٰ برپا کردی گئی۔ ہمارے لئے یہ صورتحال بھی کسی سانحہ سے کم نہیں کہ اس بھیانک دہشت گردی پر بھی ہمارے نگرانوں کو بہت دیربعد ہوش آئی اور نگران وزیراعظم کو اس سانحہ کے دو روز بعد کوئٹہ جا کر غمزدہ خاندانوں سے تعزیت کرنے اور اعلیٰ سطح کا اجلاس بلانے کی توفیق ہوئی۔ اب انہوں نے امیدواروں اور عوام کی سکیورٹی کیلئے منصوبہ بندی میں ملک کی سیاسی قیادتوں کو اعتماد میں لینے اور انکا تعاون حاصل کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے تو اسے عملی جامہ بھی پہنایا جانا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف نے اپنے دورہ¿ کوئٹہ کے موقع پر اسی تناظر میں سانحہ مستونگ پر ٹروتھ کمیشن کی حمایت کی ہے اور عمران خان نے بھی اپنے دورہ¿ کوئٹہ کے موقع پر دہشت گردوں کو کامیاب نہ ہونے دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے جو دہشت گردوں کیخلاف ٹھوس اقدامات کیلئے ایک طرح سے قومی ہم آہنگی کا عندیہ ہے۔ چنانچہ نگران حکمرانوں کو اب اپنی اصل توجہ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے بھارتی ایجنڈہ کو ناکام اور ملک میں امن و امان کو یقینی بنانے پر مرکوز کرنی چاہیے اور انتخابی میدان میں کسی ایک کیلئے راستہ ہموار کرنے کی فکر میں غلطاں نہیں ہونا چاہیے۔ ملک کی سلامتی کے معاملہ میں ہم اب مزید کسی نقصان کے ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے۔