ڈی جی آئی ایس پی آر کے جے آ ئی ٹی معاملہ پر سوالوں کے نپے تلے جوابات
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) اتوار کے روز منعقد ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے لبو لہجے، نپے تلے جوابات اور جسمانی حرکات و سکنات سے صاف واضح تھا کہ فوج ، پانامہ کیس، اس کے سیاسی پہلوﺅں، بالخصوص جے آئی ٹی میں فوجی نمائندوں کی موجودگی اور جے آئی ٹی رپورٹ پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے مخالفانہ اور حمائت میں ردعمل میںکسی طور نہیں الجھنا چاہتی۔ میجر جنرل آصف غفور نے اس پریس کانفرنس کے دوران جے آئی ٹی کے حوالہ سے تین اہم باتیں کیں۔ اول یہ کہ پانامہ جے آئی ٹی سے فوج کا کوئی براہ راست تعلق نہیں، دوم یہ کہ جے آئی ٹی میں شامل دونوں فوجی نمائندوں نے محنت اور دیانت داری سے کام کیا، وہ سپریم کورٹ کے ماتحت تھے اور سوم یہ کہ فوج کسی سازش کا حصہ نہیں۔انہوں نے مذکورہ تینوں نکات پر از خود بات نہیں کی بلکہ سوالات کے جواب میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ اور یہ بھی صاف لگ رہا تھا کہ وہ جے آئی ٹی پر سوالات سے دامن بچانا چاہتے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس موضوع پر جتنے برجستہ جواب دئے ان سے پتہ چلتا تھا کہ ڈی جی کو پریس کانفرنس کے دوران یہ سوالات پوچھے جانے کی توقع تھی اور وہ بھی تیار ہو کر آئے تھے لیکن انہوں نے صحافیوں کے ان مرغوب سوالات کا سلسلہ دراز نہیں ہونے دیا۔ آئی ایس پی آر میں اس نوعیت کی پریس کانفرنسوں کے دوران میجر جنرل آصف غفور ، صحافیوں کے ساتھ لازماً آف دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہیں۔ اس غیر رسمی مکالمہ کے ذریعہ طرفین کسی صورتحال کے بارے میں ایک دوسرے کے مﺅقف کو سمجھنے اور اطلاعات کا تبادلہ کرتے ہیں۔میجر جنرل آصف غفور کو ڈی جی آئی ایس پی آر کا منصب سنبھا لے ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا ہے۔ اب وہ منجھے ہوئے عسکری میڈیا مینجر بن چکے ہیں جس کا سہرا آف دی ریکارڈ مکالموں کے سر بھی بندھتا ہے لیکن اتوار کے روز انہوں نے یہ موقع بھی پیدا نہیں ہونے دیا اور پریس کانفرنس کے بعد جلد رخصت ہو گئے۔ خیبر ایجنسی کے علاقہ وادی راجگال میں نئے فوجی آپریشن کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ راجگال سے متصل افغان علاقہ میں داعش فعال ہو رہی ہے جس کا تدارک کرنے کیلئے بارہ سے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس دشوار گزار کوہستانی کے آٹھ دروں میں فوجی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ آئی ایس پی آر اور دفتر خارجہ تواتر سے اس خدشہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغان علاقہ میں داعش منظم ہو رہی ہے ۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے اپنے حالیہ خطاب میں اعلانیہ یہ بات کہی لیکن داعش کے خلاف برسرپیکار ہونے والے ملکوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ بعض حلقوں کا تو یہ بھی اندیشہ ہے کہ امریکہ اور بھارت مشترکہ طور پر داعش کو مشرق وسطیٰ سے افغانستان سمگل کر رہے ہیں تاکہ پاکستان، ایران، چین اور روس سمیت خطہ کے سب ہی ملکوں کو اس عفریت سے ڈرایا جا سکے۔